یہ بھی کرکے دیکھیں!

عالم نقوی

کیرالا، بنگال اور ملک کی دیگر تین شمال مشرقی ریاستوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں ذبیحہء گاؤ پہلے بھی قانوناً ممنوع تھا لیکن نہ کہیں لا اینڈ آرڈر کاکوئی مسئلہ پیدا ہوتا تھانہ فرقہ پرستانہ یرقانی دہشت گردی کے وہ مظاہرے ہوتے تھے جو ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران فرعونی رعونت میں گرفتار اور طاقت کے جنون DELUSION OF POWERمیں مبتلا افراد کے ہاتھوں متعدد مقامات پر ہو چکے ہیں۔ 13 ستمبر کو عید قرباں ہے خدشہ ہے کہ کہیں مہاراشٹر، گجرات ہریانہ، اتر پردیش، پنجاب وغیرہ ملک کے دوسرے مقامات پر بھی پچھلے سال کی تاریخ دہرانے کی کوشش نہ کی جائے۔

بے شک گائے اور بیل بھی ان حلال مویشیوں کی فہرست میں شامل ہیں جنہیں کائنات کے خالق اور پالنہار نے حلال قرار دیا ہے لیکن ان کا کھانا اُس طرح فرض اور واجب تو نہیں ہے جس طرح مثلاً نماز اور روزہ فرض ہے! جب وطن عزیزکے صوبے کشمیر میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ایسی متعدد مساجد ہیں جہاں آئے دن اور کئی کئی ہفتے لگاتار جمعے کی نماز محض سرکاری امتناع کے باعث نہیں ہو پاتی تو بڑے کی قربانی، ہم از خود، وقتی حکمت عملی کے طور پر کیوں نہیں موقوف کر سکتے؟

کیرالا، بنگال اور شمال مشرق کی ان سبھی ریاستوں سمیت جہاں ذبیحہء گاؤ قانوناً ممنوع نہیں ہے پورے ملک کے مسلمان یہ طے کرلیں کہ ہم نہ صرف اِس بار وہ کہیں بڑے جانور کی قربانی نہیں کریں گے بلکہ کم از ایک سال، اگلی بقرعید تک، بڑے کا گوشت بھی نہیں کھائیں گے، نہ بڑے جانور اور اس کے گوشت کی خرید فروخت میں حصہ لیں گے! اور قریش برادری کے مکمل تعاون کے ساتھ اس پر عمل کر کے دکھادیں۔ پھر دیکھیے پردہء غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے!

یہ تو ہماری بداعمالیوں اور قدرت کے قانون کی بدولت حکومت بزدلوں اور منافقوں کے پاس ہے ورنہ، کیا ہم نہیں جانتے کہ مدھیہ پردیش میں جہاں نام نہاد گؤ رکشک ہی بر سراقتدار ہیں اور جہاں کئی کروڑ روپئے سالانہ کے بجٹ والی تحفظ گاؤ وزارت بھی ہے وہاں گؤشالاؤں میں ہزاروں گائیں بھوک سے مر جاتی ہیں اور ان کے قاتل سرکاری گؤ رَکشکوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا؟ اور یہ کہ ملک میں ہزاروں گائیں ہر سال پلاسٹک کی تھیلیاں کھا کھا کر ہلاک ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے رَکشک دادری میں محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے الزام میں پیٹ پیٹ کے ہلاک تو کر سکتے ہیں لیکن آوارہ گایوں کی کفالت نہیں کر سکتے؟

 اور کیا ہم نہیں جانتے کہ وطن عزیز میں گائے کے گوشت اور گائے کے بچھڑے کے قیمتی چمڑے CALF LEATHER کی برآمد کا کاروبار مسلمانوں سے کہیں زیادہ خودنام نہاد گؤ رَکشکوں ہی کے ہاتھوں میں ہے؟ شاردا پیٹھ کے شنکر آچاریہ سوامی سروپا نند سرسوتی نے جمعہ 2 ستمبر کے روز ہر دوارمیں ایک دھارمک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ گائے کے گوشت کی برآمد کرنے والے ملکوں میں بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور یہ کہ۔ گائے کی پوجا کرنے والے ملک کی حکومت گائے کا گوشت بیچ کر غیر ملکی زر مبادلہ کمانے میں مصروف ہے۔ ہفتہ3  ستمبر2016 کے متعدد اخباروں میں شایع اس خبر کے مطابق ملک کی بیشتیر ریاستوں میں ذبیحہء گاؤ پر پابندی کے باوجود بھارت گؤماس کی تجارت کرنے والے دنیا کے ملکوں میں سب سے اوپر ہے! سوامی سروپا نند سرسوتی نے اس کا بھی شکوہ کیا کہ پردھان منتری مہودے نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے گؤ رَکشکوں کی توہین کرتے ہوئے انہیں غنڈا اور فرضی قرار دے دیا۔ لیکن، انہوں نے مدھیہ پردیش کی گؤ شالاؤوں میں کروڑوں کا بجٹ ہونے کے باوجود ہزاروں گایوں کے بھوکے مرجانے کے خلاف ایک لفظ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھی جس کے ذمہ دار اوپر سے نیچے تک سب کے سب گؤ رَکشک ہی تھے! مشہور مؤرخ اور بھارت کی قدیم و جدید تاریخ پر متعدد کتابوں کے مصنف دویجیندر نارائن جھا (D.N.JHA)نے اپنی مشہور کتاب THE MYTH OF THE HOLY COWمیں، پچھلے سات برسوں میں جس کے تین اڈیشن شائع ہو چکے ہیں، لکھتے ہیں کہ۔ گائے کو تقدس کا درجہ دیا جانا ایک اَسطور ( جمع اساطیر۔ مِتھ )سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ قدیم بھارت میں، با لخصوص ویدک عہد میں یعنی اسلام کی آمد سے بھی ہزاروں سال پہلے، نہ صرف گائے کا گوشت کھانے کا عام رواج تھا بلکہ گائے کا گوشت ہی برہمنوں کی پسندیدہ غذا تھی۔ ان کی کتاب اس سلسلے میں وید، پُران اور منو اسمرتی سمیت مقدس دھارمک گرنتھوں کے متعدد حوالوں سے مزین ہے۔ اور اس کا جو تیسرا۔ نواینا www.navayana.orgاڈیشن ہمارے پاس ہے اس میں گائے کا گوشت کھانے اور چھوا چھوت کے تعلق سے بابا صاحب امبیدکر کا 1948 کالکھا ہوا ایک مضمون بھی شامل ہے جس میں قدیم دھارمک گرنتھوں کے حوالے کے ساتھ وہی بات درج ہے جو ڈی این جھا نے لکھی ہے۔

اگر مسلمان از خود صرف ایک سال کے لیے بڑے کے گوشت سے پرہیز کرلیں اور ہمارے علماء ان مسلم ملکوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ بھی کم از کم ایک سال کے لیے بھارت سے گائے کے گوشت اور چمڑے سے بنی اشیا کی در آمد بند کردیں تو اس کے نہ صرف قلیل مدتی فائدے ہوں گے جن کے مثبت اثرات یوپی کے آئندہ انتخابات پر بھی پڑیں گے بلکہ ایسے طویل مدتی فوائد بھی ہوں گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی ان شا ء اللہ!

ہمیں معلوم ہے کہ ہم ایک بے حیثیت دو کوڑی کی اوقات والے لکھاری ہیں لیکن ہم وہی لکھ رہے ہیں جس کو بینی و بین اللہ حق سمجھتے ہیں اور اپنی کوششوں کا کوئی اجر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے نہیں چاہتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔