یہ تو عین دھرم ہے!

ممتاز میر 

بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں کہ کرشن جی وہ مذہب جسے آج ہندو دھرم کہا جاتا ہے کی بڑی اور اہم شخصیت تھے (فی الوقت یہ بحث اٹھانا مناسب نہیں کہ وہ کتنے تاریخی تھے کتنے نہیں) مہابھارت کی لڑائی میں وہ پانڈوؤں کے سر پرست بھی تھے اور انہی کے اپدیشوں کی وجہ سے ارجن جیسا یودھا اپنے بھائی کوروں سے لڑنے پر مجبور ہوا۔ کرشن جی کے اپدیشوں کے مجموعے کو ہی گیتاکہتے ہیں۔ جس کے پاٹھ تمام اسکولوں مدرسوں میں پڑھانے کو ہماری حکومت مری جا رہی ہے۔ بھارت ورش کے انہی کرشن جی کے تعلق سے یہ کہانیاں بھی مشہور ہیں کہ وہ ہزاروں یا شاید لاکھوں گوپیوں سے متمتع ہوتے تھے۔ کرشن جی کے ہاتھوں گوپیوں کے وستر ہرن کے قصے چٹخارے لے لے کر سنائے جاتے ہیں۔

اللہ بہتر جانتا ہے ہمیں اس طرح کی کہانیوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ گوپیوں کو جانے دو کرشن جی کی اصلی زوجہ محترمہ سے کتنی اولاد ہوئیں یہ کبھی نہیں بتایا گیا۔ ویسے ہزاروں سال سے بھارت ورش کے راجے مہاراجے، بادشاہ شہنشاہ تعدد ازدواج سے خوب متمتع ہوتے رہے ہیں۔ خود وہ رام جو ہندوؤں کے بھگوان کہلاتے ہیں اگر ان کے والد کی ایک سے زائد بیویاں نہ ہوتیں تو رامائن ہی وجود میں نہ آتی۔ ۹۲؍۱۹۹۳ کے واقعات کے وقت ہم بمبئی میں مقیم تھے۔ حالات ٹھنڈے ہو جانے کے بعد بمبئی کے ایک ہندی اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ۱۹۴۱ تک مسلمانوں میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج زیادہ تھا ۱۹۴۱ کے بعد یہ رواج ہندوؤں میں بڑھ گیا اس فرق کے ساتھ کہ مسلمانوں کی ۲ یا ۳ بیویاں جائز یا قانونی ہوا کرتی تھیں جبکہ ہندؤں میں یہ رواج غیر قانونی تھا ؍ہے۔مسلمان شرعاً اپنی تمام بیویوں سے انصاف کرنے کا پابند ہے جبکہ کسی ہندو پر ایسی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔مذکورہ بالا باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان خبروں کو پڑھئے۔

(۱) بہار کے تھالی کے بینگن نتیش کمار کے زیر سایہ مظفرپور میں ایک صحافی اور پاور بروکر ایک شیلٹر ہوم چلا رہا تھا جس کے تعلق سے شکایات مہینوں پہلے پیدا ہو چکی تھیں بہت کچھ تحقیقات بھی ہوئی تھیں مگر سیاستدانوں کے زیر سایہ پلنے والے مجرمین کا جلدی کچھ بگڑتا نہیں۔ اس برجیش ٹھاکر کا بھی کچھ نہیں بگڑا۔یہ اپنے شیلٹر ہوم میں رہنے والی بالغ و نابالغ بچیوں سے خود بھی متمتع ہو رہا تھا اور یقینی طور پر اپنے سرپرستوں کو بھی گنگا میں اشنان کرا رہا ہوگا۔یہ برجیش ٹھاکر تین تین اخبار چلاتا تھا۔ جنھیں بہار حکومت کی طرف سے ۴۰ لاکھ کے اشتہارات ملا کرتے تھے۔ اس کے ہوٹل تھے، کئی فلیٹس مختلف شہروں میں تھے۔ زرعی زمینیں تھیں۔ اس کی گرفتاری کے وقت جو تصویر اخبارات میں شائع ہوئی ہے اس میں وہ بہت خوش نظر آرہا ہے ہمارا خیال ہے کہ اسے خوش نظر آنا چاہئے۔ اس نے دھرم یدھ میں کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایسا ہی بی جے پی کے ایک لیڈر سنجے چودھری اتر پردیش کے مظفر نگر میں کر رہے تھے۔ وہ ایک کوچنگ سینٹر کی آڑمیں سیکس ریکٹ چلا رہے تھے۔

(۲) اسی طرح بی جے پی کے برانڈیڈ وزیر اعلیٰ ’یوگی‘ آدتیہ ناتھ کے زیر سایہ اتر پردیش کے شہر دیوریا میں بھی یتیم و بے سہارا بچیوں کے شیلٹر ہوم میں چندسیکس ریکٹ چلنے کی بات سامنے آئی ہے۔ اس شیلٹر ہوم سے ۲۴ بچیوں اور کچھ عورتوں کو آزاد کروالیا گیا ہے مگر کچھ عورتیں اور بچیاں اب بھی لا پتہ بتائی جا رہی ہیں۔ اس شیلٹر ہوم کی ڈائریکٹر گرجا ترپاٹھی اور اس کے شوہر مدھو ترپاٹھی کو گرفتار کر لیا گیا ہے حالانکہ اس شیلٹر ہوم کی اجازت منسوخ کر دی گئی تھی پھر بھی یہاں لڑکیوں کو داخلہ دیا جاتا رہا تھا۔بتیا بہار کی رہنے والی ایک لڑکی نے شیلٹر ہوم سے بھاگ کر یہ ساری اطلاعات پولس کو دی۔

اب میڈیا اپنی ٹی آر پی بڑھا نے کی خاطر بڑا ہنگامہ مچا رہاہے۔ ہمیں ہنگامہ مچانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ہمارا اعتراض اس بات پر ہے کہ مخالفت میں کیوں؟انھوں نے ایسا کیا کردیا کہ ہتھکڑیوں میں ان کی تصویریں دکھائی جا رہی ہیں۔یہی تو دھرم ہے اور بی جے پی ہندتو کا تقاضا ہے۔وہ توکھیت تیار کر رہے تھے بیج ڈلوارہے تھے تاکہ پودے اُگ سکیں۔وہ، وہ نسل تیار کرنا چاہ رہے تھے جیسے کہ امریکہ کے حرامی فوجی ہیں ویسے ہی کام یہ بھی کر سکیں۔موب لنچنگ کے لئے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت پڑے گی نا۔اور یہ سب انھوں نے مسلمانوں کے ۵ اور ۲۵ کے جواب میں کیا ہے آخر مسلمانوں کے ۵ اور ۲۵ کو دماغوں میں ٹھونستاکون ہے؟اب یہ ان کی بد عملی ہے کہ وہ ایک بھی بچہ پیدا نہ کرپائے۔اس کی بھی وجہ ہے۔ اگر ان کو موب لنچنگ کرنے والوں کی طرح فری ہینڈدے دیا جائے۔انھیں بھی بے خوف بنا دیا جائے۔گؤ شالاؤں کی طرح حکومت پیدا ہونے والے بچوں کے لئے اسی طرح کی شالائیں کھول دے گرانٹ دے تو وہ بھی انشاء للہ مسلمانوں سے کسی طرح کم ثابت نہ ہونگے۔اب بھی کم نہیں ہیں مگر غلط فہمیاں پھیلانا، افواہیں پھیلانا ہندتو والوں کا ترپ کا پتہ ہے۔پھر اس بہتی گنگا میں وہ اکیلے اکیلے تو ہاتھ نہ دھو رہے ہونگے؍اشنان نہ کر رہے ہونگے؍پاپ نہ دھو رہے ہونگے۔کیا کہیں ؟حکومتی ذمے داران بھی تو ان کے شانہ بہ شانہ ہونگے۔

آخری مسئلہ ہے عدالت کا۔ہمارے نزدیک وہ بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ملزمین؍مجرمین کو عدالت کے سامنے ڈٹ کر یہ دلیل دینا چاہئے کہ یہ دھرم کا معاملہ ہے اس سے ہماری آستھا نہیں آستھائیں جڑی ہوئی ہیں۔جب رام جی کے نام پر بابری مسجد کو رام جنم بھومی بنایا جا سکتا ہے رام للا کو عدالت باقاعدہ ایک فریق تسلیم کرکے زمین عنایت کر سکتی ہے تو ہم کرشن جی کی پیروی کرتے ہوئے یہ ’نیک کام ‘کیوں نہیں کر سکتے۔ کوئی Learned وکیل ان باتوں کو موثر ڈھنگ سے عدالت میں پیش کرے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے Learned منصفین بھی ان ملزمین؍مجرمین سے ہمدردی محسوس کریں گے اور آستھا اور اجتماعی ضمیر کے اطمینان کی دہائی دے کر انھیں ’با عزت‘ بری کر دیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔