یہ خوشی کون سی راہوں سے گذر کر آئی؟

حفیظ نعمانی

            آزادی اور تقسیم سے پہلے کنزرویٹو پارٹی کے تعاون سے اٹلی کی لیبر حکومت نے مسٹر چرچل کے تعاون سے تقریباً دو سال تک کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح مسلم لیگ اور کانگریس میں مفاہمت ہوجائے، تاکہ کانگریس کی زیر قیادت برصغیرکی جغرافیائی سیاسی اور فوجی سالمیت برقراررہے اور یہ وسیع اور عریض علاقہ اس کے جدید نو آبادیاتی نظام کے تحت نہ صرف عالمی کمیونزم کے سیلاب کا سد باب کرے بلکہ انگلو امریکی سامراج کی خدمت بھی کرتا رہے، لیکن جب ہندو مسلم تضاد کے حل کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور ہندوستان کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی تو اس نے بر صغیر کی تقسیم کچھ اس طرح کی کہ دوبارہ اتحاد کا راستہ کھلا رہے۔

            پاکستان کو زیادہ سے زیادہ کٹا پھٹا اور ناقابل عمل کمزور بنانے کی کوشش کی گئی، تاکہ پاکستان جلد یا بدیر ہندوستان میں ضم ہوجائے یا اس کی طفیلی ریاست بن جائے، انگریزوں کا کبھی یہ خیال نہیں تھا کہ تقسیم کے نتیجہ میں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے، برطانوی سامراج کا خیال تھا کہ یہ تقسیم عارضی ہے۔ بہت جلد پورا بر صغیر ہندوستان کے زیر نگیں ہوگا، اس خیال کا اظہار ان تقاریر سے بھی ہوا جو 10؍ جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں قانون آزادی پر بحث کے دوران ہوئیں، وزیر اعظم اٹلی نے اس موقع پر کہا تھا کہ مجھے قوی امید ہے کہ بر صغیر کی یہ تقسیم عارضی ہوگی، دونوں دوڈومینینس پھر یکجا ہو کر برطانوی کامن ویلتھ کے اندر ایک عظیم ریاست کی تشکیل کریں گی۔

            کنزرویٹو پارٹی کے ایک لیڈر ہیرالڈ میکملین نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کی اس امید میں شریک ہیں کہ اس تقسیم میں کچھ ایسے بیج بھی ہیں جو مستقبل میں کسی نہ کسی نوعیت کے اتحاد کا باعث بنیں گے اور پھر 16؍جولائی کو وزیر ہند لیسٹوول نے ہائوس آف لارڈ میں یہ امید ظاہر کی تھی کہ جب تجربہ کی روشنی میں تقسیم کے نقصانات نمایاں ہوجائیں گے تو دونوں ڈومینینس کی صورت میں پھر متحد ہونے کا بہ رضا و رغبت فیصلہ کریں گی، اور یہ واحد انڈین ڈومینینس اقوام عالم میں وہ مقام حاصل کریں گی جس کی وہ اپنے علاقہ اور وسائل کے لحاظ سے مستحق ہیں۔

            مائونٹ بیٹن جس نے پاکستان کے لیے ’’یہ پاگل پاکستان‘‘ کے الفاظ استعمال کیے، اس کے بارے میں ہوڈسن لکھتا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے بر صغیر کی تقسیم کو طوعاً و کرہاً منظور تو کرلیا تھا تاہم وہ اپنے آپ کو اس خیال سے چھٹکارہ نہیں دلا سکا تھا کہ تقسیم کے سبب دوستی ومصالحت کا جذبہ کار فرما ہوگا اور مشترکہ ضروریات کی منطق دونوں ڈومینٹوں کو رفتہ رفتہ پھر یکجا ہوجانے پر مجبور کردیں گے، اسے امید تھی کہ مشترکہ دفاعی کونسل سے اتحاد و تعاون کے درخت کی نمود ہوگی، لیکن پنجاب کے فسادات اور جوناگڑھ اور کشمیر کے تنازعات نے یہ امید خاک میں ملادی۔

            بقول مہاتما گاندھی یہ تقسیم انگریزوں نے نہیں کی تھی بلکہ خود ہندوستان نے کی تھی، کیوں کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا تھا، جیسا کہ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے بارہا یہ کہا تھا کہ کانگریس بر صغیر کی تقسیم پر اس امید کے تحت رضامند ہوئی تھی کہ پاکستان زیادہ دیر تو قائم نہیں رہے گا، اور وہ بہت جلد ہندوستان سے آملے گا، ظفر اللہ خاں کی اطلاع کے مطابق بھی کانگریس اور برطانیہ نے برصغیر کی تقسیم بدنیتی سے قبول کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ایک کانگریسی لیڈر نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو مشورہ دیا کہ بر صغیر کی تقسیم کے بارے میں مطالبہ بظاہر منظور کرلیا جائے لیکن بنگال اور پنجاب کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ پاکستان ایک علیحدہ آزاد ملک کی صورت میں زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے، اور مسلم لیگ مجبور ہو کر خود انڈین یونین میں شامل ہونا منظور کرلے، لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہ تجویز بڑی دانش مندانہ معلوم ہوئی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی اور اس نے اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن سامراجی مفادات کے اس نگہبان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ بر صغیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا تضاد اپنے مادّی عوامل کی وجہ سے اتنا شدید ہوچکا تھا کہ خواہ کتنا ہی کٹا پھٹا اور کمزور پاکستان وجود میں لایا جاتا وہ متحد نہیں ہوسکتا تھا۔

            لیکن صرف 18 مہینے کے بعد جب مسٹر جناح کے اعصاب ڈھیلے ہوئے اور ان کی پرانی ٹی بی نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا تو انھوں نے بستر علالت سے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو بلایا اور کہا کہ میں اچھا ہوجائوں تو نہرو کے پاس جائوں گا اور ان سے بات کروں گا، یہ سن کر وزیر اعظم باہر آئے اور انھوں نے موجود حضرات سے کہا کہ، اب آئی عقل بڑے میاں کو، اور یہ حقیقت ہے کہ اس کٹے پھٹے پاکستان کو مسلم لیگ کی قیادت کے بڑوں میں کوئی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا، لیکن مسٹر جناح نے پاکستان کے حصول کو ایک مقدمہ کی طرح لڑا جس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کامیاب ہونا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ مؤکل کا مفاد کس میں ہے؟ انھوں نے جاہل اور جذباتی مسلمانوں کے دلوں میں ہندو سے نفرت کی اتنی آگ بھر دی تھی کہ بعد میں وہ قبول کرنے کے بجائے متحد رہنے پر تیار ہوجاتے تو مسلمان ان کے ساتھ وہ سلوک کرتے جو لیبیا والوں نے معمر القذافی کے ساتھ کیا تھا۔

            یہ بات تو بعد کی ہے کہ عالم اسلام میں تیل کے چشمے ابل پڑے ا ور ہر مسلم ملک نے پاکستان کو اپنا بڑا بھائی مان کر اس کے لیے خزانوں کا منہ کھول دیا اور آج جو آدھا رہنے کے باوجود وہ ایٹم بم بنائے بیٹھا ہے، وہ عربوں کا ہی طفیل ہے، اور پنڈت جواہر لال نہرو نے جو گردن جھکا کر شیخ عبداللہ کو رہا کرکے پاکستان بھیجا تھا وہ بھی اس کا ثبوت تھا کہ پاکستان تو بھوک سے پریشان ہو کرہندوستان کی گود میں نہیں آیا، ہندوستان نے فیصلہ کیا کہ چھوٹے بھائی کو منا کر لے آئے تاکہ وہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے، لیکن تقدیر نے جو فیصلہ کردیا تھا اس کوتبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا، اور اب چین نے اسے گود لے لیا ہے، اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل میں کون کہاں کھڑا ملے گا؟ یہ اس آزادی کے جشن کا پس منظر ہے جو آج 14؍ کو پاکستان میں منایا جارہا ہوگا، اور کل ہم اپنے ملک میں منائیں گے، مگر اس طرح کہ ملک کی ہر حساس جگہ پر کیمرے لگے ہوں گے اور ہر طرف چوکیداروں کی آواز جاگتے رہو کی صدا آرہی ہوگی، اس لیے کہ دشمنی کے جو جراثیم 23؍ مارچ 1940ء کو لاہور میں پھیلائے گئے تھے اب ان کی عمر 76سال ہوگئی ہے۔

 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔