یہ سیاسی انتقام حسینہ کوکہیں لے نا ڈوبے؟

  کچھ سالوں سے بنگلہ دیش میں اسلامی نظریاتی لوگوں پھانسی دیئے جانے کا ایک رواج چل پڑا ہے، ابھی تازہ ترین دردناک واقعہ کےنتیجہ میں جماعت اسلامی کے73 سالہ امیر مطیع الرحمان نظامی کوبدھ کی صبح 12:10 بجے ڈھاکہ سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔ ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت کےسربراہ کوجنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل نےگذشتہ برس نسل کشی، قتل، تشدد اورریپ کے سولہ الزامات کے تحت سزائےموت دینے کا حکم دیا تھا،ان پر الزام تھاکہ انھوں نے’البدر‘ نامی ملیشیا کے کمانڈر کےحیثیت میں آزادی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔ سنہ 2010 میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹریبونل نےاس سے پہلے جماعت اسلامی کے راہنماؤں عبدالقادر ملا اور قمر الزماں سمیت کئی افرادکو پھانسی کی سزا دی ہے،ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی بین الاقوامی ادارے ٹرائل کو ناقص قرار دیتے ہیں جبکہ عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ ملک کے ماضی کو دفن کرنے کے لیےجنگی جرائم کی تفتیش ضروری ہے۔
اٹھائیس اگست 1973 کو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ تینوں ملک اپنے پاس موجود جنگی قیدیوں اور ان افسران و شہریوں کوواپس اپنے اپنے ملک جانےکی اجازت دےدیں جو کہ قید کی زندگی گزار رہے تھے،اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان سےتقریباًایک لاکھ بائیس ہزار بنگالیوں کوبنگلہ دیش بھیجا گیا،ایک لاکھ دس ہزار کے قریب غیر بنگالی سرکاری افسران اورشہریوں کو پاکستان بھیجا گیا جبکہ بھارت نے ساڑھے چھے ہزار کے قریب پاکستانیوں کو رہا کیا۔ لیکن بنگلہ دیش نے بھارت میں قید 195 پاکستانی فوجیوں کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ان پر نسل کشی اور جنگی جرائم کامقدمہ چلاناچاہتاتھا، پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگلہ دیش کو دھمکی دی کہ اگر اس نےایسا کیاتو وہ پاکستان میں قید بنگالی افسران پر بھی مقدمہ چلائے گا،مزید گفت و شنید کے بعد نو اپریل 1974 کو دہلی میں ایک اورمعاہدےپردستخط کئےگئے،اس معاہدے میں درج ہےکہ پاکستانی وزیراعظم کی بنگلہ دیشی عوام سے اپیل کے بعد،جس میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ ماضی کی غلطیوں کو معاف کر دیا جائے اور بھلا دیا جائے، بنگلہ دیش کی حکومت نے ان 195 افسران کو معاف کرتےہوئے ان پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو دیگر قیدیوں کی طرح پاکستان بھیجا جا سکتاہے۔معاہدے میں لکھا گیا تھاکہ تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نےاس بات پرزوردیا کہ ان معاملات کو تینوں ملکوں کی طرف سے صلح جوئی کی کوشش کےتناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ پاکستانی وزیراعظم بھٹو نےبنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعدیہ کہاتھا کہ وہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان کی دعوت پر بنگلہ دیش کا دورہ کریں گےاور انہوں نےبنگالی عوام سے ماضی کی غلطیوں کو معاف کرنے اور بھلا دینے کی درخواست کی تھی،جبکہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان نے 1971 کی جنگ میں ہونےوالی قتل وغارت اور تباہی کے متعلق یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ عوام ماضی کو بھول جائیں اور ایک نئی شروعات کریں۔ شیخ مجیب الرحمان نے یہ کہا تھا کہ بنگالی عوام معاف کر دینا جانتے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہی شیخ مجیب الرحمان کی اپنی بیٹی شیخ حسینہ واجد معاف کردینا نہیں جانتی ہیں اور گڑےمردے اکھاڑ رہی ہیں،اگران کو اسلامی نظریات سےدشمنی تھی ان کوچاہئے تھاکہ  جماعت اسلامی وغیرہ جماعتوں پر، پابندی لگاتیں. اسےغیر قانونی قرار دے دیتیں،کئی دوسرے مسلم ممالک کی طرح یہ پابندی لگادیتیں کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں کی جا سکتی ہے،لیکن ناقص عدالتی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے جس طرح ان اسی نوے سالہ افراد کو پھانسی پرچڑھایا جا رہا ہے،وہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے،بلاشبہ اس جنگ میں بنگالیوں پربہت ظلم ہوا،آپریشن سرچ لائٹ میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہونے والی قتل و غارت خاص طور پر قابل ندامت ہے،پچیس مارچ 1971 کو وہاں پروفیسروں اورطلبا کو قتل کیا گیا، اور پھر جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے سے محض دو دن پہلے 14 دسمبر 1971 کوبنگالی صحافیوں،پروفیسروں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور آرٹسٹوں کو جس طرح مارا گیا، اس اقدام پربین الاقوامی سطح پرمعافی ہی مانگی جاسکتی ہے،اس کا دفاع کرناممکن نہیں ہے۔لیکن کیا شیخ حسینہ واجد کی نگاہ میں وہ غیر بنگالی انسان نہیں تھے جن کو اس عرصےمیں بربریت کا نشانہ بنایا گیا؟ کتنے غیربنگالی قتل ہوئے؟ کتنی بہیمیت ان کےساتھ بھی ہوئی،کیا شیخ حسینہ واجد انصاف کے تقاضے پورےکرتے ہوئے غیر بنگالیوں کی نسل کشی، قتل، تشدد اورریپ کےمجرم عوامی لیگ کے ان بزرگ لیڈروں پر بھی ایسے ہی مقدمات چلائیں گی جیسے کہ وہ جماعت اسلامی کے لیڈروں پر چلا رہی ہیں؟یہ انصاف نہیں، محض جماعت اسلامی سےسیاسی انتقام لیاجانا دکھائی دے رہا ہے۔
ایک طرف بنگلہ دیشی حکومت عدم برداشت کےنئے پیمانےرقم کر رہی ہے، تو دوسری طرف یہی عدم برداشت ملک بھر میں سیکولرزم،لبلرزم،اورپیپلزم کے نام پر بڑھ رہاہے، اسلام پسندوں کےلئے بنگلہ دیش کی سرزمین کوتنگ کیاجارہاہے،دوسری طرف اسی ناسور کی وجہ سے داعش اور دیگر شدت پسند تنظیمیں سرابھاررہی ہیں،پورے ملک کودہشت گردی اور انارکی میں ڈھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے، اپوزیشن جو کسی بھی جمہوری ملک کااساس ہواکرتاہے، حسینہ حکومت نےاس کاوجود ہی مٹادیاہے،خالدہ ضیاءاور ان کی پارٹی کےسینئر لیڈروں کے لئےبھی عرصہ حیات تنگ کردیاہے،علاوہ ازیں حسینہ حکومت اسلام پسندوں کودبانے کے لئےعدالت کاسہارا لےکر  ایسی چال چل رہی ہے جس پر بین الاقوامی تنظیمیں، انسانی حقوق کے گروپ اور عالمی قانونی ماہرین اعتراضات کرچکے ہیں۔ 2010 میں قائم کردہ ٹریبونل کےذریعہ اب تک ملک کے سواد اعظم کوپھانسی لے پھندہ پرلٹکادیاہے،مطیع الرحمان نظامی جوناصرف ایک عظیم اسلامی راہنما بلکہ ایک مضبوط سیاسی لیڈر بھی تھے، وہ سن 2000 سے جماعت اسلامی کے امیر ہیں اور 2001 سے 2006 تک حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ ایسی بزرگ شخصیت کوبھی پھانسی کےپھندے پر لٹکاتے وقت شیخ حسینہ واجد شاید یہ بھول گئیں کہ ان کا ستارہ بھی کبھی ناکبھی غروب ہوگا، مطیع الرحمان نظامی اوراس طرح کے راہنماؤوں کی پھانسی  ناصرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی بلکہ بانی بنگلہ دیش مجیب الرحمان کےنظریات کےبھی عین خلاف ہے۔ شیخ مجیب کےبقول بنگالی معاف کرناجانتے ہیں لیکن حسینہ آج تک شاید1971 کوبھلانہیں پائی ہیں اور اس مرتبہ جس طرح ڈکٹیٹرانہ طریقہ سےانہوں نےحکومت بنائی تھی تمام تردستوری وآئینی نیز بین الاقوامی اصولوں کوبالائےطاق رکھ کرحسینہ آج ایک نئی آئرن لیڈی بنناچاہتی ہیں،ایسے میں وہ حکومت کرنےکااخلاقی حق بھی کھوچکی ہیں، بار بار کریک ڈاؤن  سےگزررہا بنگلہ دیش عالمی سطح پراگر اپنی شناخت نابناسکا یا بنتی پہچان بگڑگئی تو اس کی واحد ذمہ داری حسینہ واجد کےکاندھوں پرہوگی، اس لئے اب بھی وقت ھیکہ شیخ حسینہ  اپنی اسلام دشمنی اورسیاسی انتقام سے باز آجائیں اور عوامی طور پراب تک کی ان سیاسی غلطیوں پرمعافی مانگیں،جماعت اسلامی ودیگرمذھبی تنظیموں و شخصیات  کےساتھ ہوئی ناانصافیوں کاازالہ کریں نیزبنگلہ دیش کو طاقت کے بل پرنہیں بلکہ  حکمت عملی اورباہمی مفاہمت و معاونت کےذریعہ تشدد سے پاک کرنے کی کوشش کریں،ورنہ وہ دن دور نہیں کہ تاریخ خود کو دہرائے اورحسینہ کو بھی پھانسی کےپھندے پر لٹکادیاجائے۔
علاوہ ازیں بندہ کی نظرمیں حسینہ واجد کی یہ انتقامی سرگرمیاں کہیں ناکہیں ان قائدین کی پاکستان سےلگاؤبھی ہے، لیکن پاکستان کوشایداحساس نہیں،نیز بھارت نےانصاف وحقوق انسانی کی رعایت کے لئےروز اول سے بنگلہ دیش میں مداخلت کی ہے۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور
پاکستان اپنےاپنےطورپراقوام متحدہ کی قوانین کےرو سے بنگلہ دیش پراس ظالمانہ رویہ کی وجہ سےدباؤبنائیں۔ نیز ترکی کےطرز پرسبھی امن پسند ممالک کےحکمران بنگلہ دیش سے سفارتی تعلقات منقطع کردیں اور مل کرحسینہ واجد کومجبورکریں کہ وہ یا تو اخلاقی طورپرحکومت سےاستعفی دیں یا
پھربین الاقوامی برادری کےسامنے بنگلہ دیشی عوام اورجماعت کےکارکنان سےمعافی مانگیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔