یہ وقت اتصالِ دل و جاں کا وقت ہے!

حفیظ نعمانی

اسے اقبال کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو گوا اور منی پور دونوں ریاستوں میں شکست ہوجائے اور اس کے بعد بھی وہی حکومت بنالے۔ مقابلہ مودی اور راہل کے درمیان ہے۔ اس وقت مودی کے اقبال کا یہ حال ہے کہ وہ مٹی کو اٹھا لیں تو وہ سونا ہوجائے اور راہل کا یہ حال ہے کہ اگر ان کے ہاتھ میں سونا آجائے تو مٹی ہوجائے۔ 2012میں اترپردیش کے الیکشن میں جب راہل گا ندھی تقریر کرتے تھے تو ڈائس کے سامنے Dبنتی تھی تاکہ کوئی کچھ پھینک کر نہ مار سکے۔ اور اکھلیش کے منچ سے ملے ہوئے عوام بیٹھے ہوتے تھے۔اور وہ ان کے ساتھ سائیکل چلاتے ہوئے دوسرے پڑائو پر جاتے تھے۔

نتیجہ آیا تو راہل کو کل 38 سیٹوں پر کامیابی ملی اور اکھلیش کو 228 پر۔ اتنے بڑے فرق کے باوجود راہل گاندھی نیشنل لیڈر رہے اور اکھلیش یادو علا قائی۔ رفتہ رفتہ وزیر اعظم نے راہل سے ان کے حلقے چھیننے شروع کیے اور انہیں اتنا کمزور کردیا کہ 2017میں اکھلیش یادو نے راہل کو 105سیٹیں دیں اور راہل کو قبول کرنا پڑیں اور خود 2 کم 3 سو سیٹوں پر لڑے۔ انجام جو بھی ہوا لیکن راہل کی حیثیت اتنی کم ہوگئی کہ وہ گوا اور منی پور میں جیتنے کے بعد بھی اس لیے حکومت نہ بنا سکے کہ گوا کے اور منی پور کے ممبروں کے  اوپر سے ان کا وہ رعب ختم ہوچکا تھا جس کے بل پر وہ جسے کہتے سب اسے وزیر اعلیٰ بنا دیتے۔ گوا میں پانچ ایم ایل اے وزیر اعلیٰ کے دعویدار تھے۔  اگر کسی ایک کو بنادیا جاتا تو خطرہ تھا کہ وہ مزید ۵ ساتھیوں کو لے کر بی جے پی میں چلا جاتا۔

دوسری طرف مودی تھے جن کے اقبال کا یہ حال ہے کہ انھوں نے وزیر دفاع منوہر پاریکر کو جن کی پگڑی میں سرجیکل اسٹرائک کا تمغہ بھی لگا ہے انہیں حکم دیا کہ جائو اور سب سے چھوٹی ریاست گوا کے راجہ بن جائو اور ان کے پیچھے پیچھے اپنے دوسرے وزیر گڈکری کو خزانہ لے کر بھیج دیا کہ ہر ممبر کے حلق تک نئے نوٹ بھر دو تاکہ آواز نہ نکل سکے اور بی جے پی کا صرف ایک ممبر وزیر بن سکا باقی وزیر وہ ہیں جنھیں گڈکری نے خریدا ۔ صرف گوا اور منی پور کے  ڈرامہ میں ہی نہیں بلکہ اترپردیش ، اتراکھنڈ اور پنجاب میں بھی مسز سونیا نظر نہیں آئیں ۔ وہ پردہ میں کیوں ہیں ؟یہ ان کا خاندان جانے لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ کانگریس کا بوجھ راہل کے کاندھے برداشت نہ کر پائیں گے۔

پنجاب اور گوا میں اروند کجریوال پوری طاقت سے اترے ہوئے تھے ان کی طبعی عمر تو راہل گا ندھی سے زیادہ ہوگی لیکن سیاسی عمر بہت کم ہے۔ پنجاب کے الیکشن میں مسلسل یہ خبر آتی رہی کہ مقابلہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہے۔ پچھلی گرمیوں سے اب تک برابر یہ خبر آتی رہی کہ پنجاب میں صرف اور صرف عام آدمی پارٹی ہے لیکن وہ صرف 22 سیٹوں پر رہ گئی۔ یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔

ہمارے نزدیک ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے اس کشمکش سے پردہ نہیں اٹھایا کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ لوگ الزام لگاتے رہے کہ اگر پارٹی جیت جائے گی تو کجریوال دہلی کو چھوڑ کر خود وزیر اعلیٰ بن جائیں گے، کیوں کہ وہ دہلی میں لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کی وجہ سے وہ نہیں کر پارہے جو کرنا چاہتے ہیں اور کرکے ملک کو دکھانا چاہتے ہیں کہ حکومت ایسے کی جاتی ہے۔ پنجاب میں وہ پورے اختیارات کے ساتھ وہ سب کریں گے جو ان کا منصوبہ ہے۔ اور کجریوال یہ بھول گئے کہ پنجاب میں منڈا وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتا جب بھی بنے گا سکھ بنے گا۔ وہ خود ہریانہ کے رہنے والے ہیں اور یہ بھول گئے کہ ہریانہ الگ ہی زبان اور باتوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اگر وہ اپنے بھروسہ کے کسی سکھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کردیتے تو شاید حکومت بنتی یا وہ حکومت میں شریک ہوتے۔ وزیر اعلیٰ بادل اور بی جے پی کے بارے میں تو ہر کسی نے یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں ہیں اور نریندر مودی یہ جانتے تھے کہ حکومت سکھ کو ہی کرنا ہے اس لیے انھوں نے پنجاب کا الیکشن اترپردیش کی طرح نہیں لڑایا۔

اروند کجریوال اگر پنجاب فتح کرلیتے تو گجرات پر حملہ میں انہیں بہت طاقت مل جاتی۔ مودی جی کے لیے گجرات ان کی ناک کی طرح ہے۔ گجرات کے پٹیل لیڈر ہاردک پٹیل نے شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے سے ہاتھ ملایا اور ان سے وعدہ لے لیاکہ وہ گجرات آکر پٹیل کی مدد کریں گے تو مودی نے ممبئی میں میئر کے مسئلہ میں گھٹنے ٹیک دئے تاکہ ٹھاکرے ہاردک پٹیل کی مدد کے لیے نہ جائیں اور ممبئی شیوسینا کو دے دیا۔ کجریوال کو یاد ہوگا کہ وہ جب احمدآباد گئے تھے تو ۵ کلومیٹر پہلے انہیں روک دیا تھا اور پھر جو کیا وہ شریفانہ نہیں تھا۔ گجرات بھی وہی ہے  اور مودی بھی وہی۔ اب اگر کجریوال وہاں قدم جمانا چاہتے ہیں تو ہارد ک پٹیل کو ساتھ لے لیں ورنہ وہاں مودی کانگریس پٹیل اور کسی علاقائی پارٹی سے سامنا ہوگا اور وہ گجرات میں اپنا پرچم نہ لہرا سکیں گے۔

کجریوال انا ہزارے کی انگلی پکڑ کر سیاست میں آئے ہیں اور اپنے بل پر انھوں نے اپنی دنیا بنائی ہے۔ وہ آندھی کی طرح چھا جانے کے بجائے بادِ صبا کی طرح چلیں اور رفتہ رفتہ پائوں پھیلائیں تو وہ بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔ ان کے سامنے اب دہلی کارپوریشن کا الیکشن ہے۔ بی جے پی اسے صوبہ کے الیکشن کی طرح امت شاہ سے لڑوائے گی۔ جن کا دماغ اس وقت ۷ویں آسمان پر ہے۔ کجریوال یہ نہ بھولیں کہ انہیں 2015میں جو ووٹ ملا تھا وہ کانگریس کا تھا اور اس وقت کانگریس سے دہلی ناراض تھی۔ عوام کا مزاج ہے کہ وہ ایک بار سزا دے کر معاف کردیتے ہیں ۔ اب اگر بی جے پی سے مقابلہ کرنا ہے تو کانگریس سے آدھی آدھی سیٹوں پر سودا کرلیں ۔ اگر وہ آئینہ میں اپنی ہی تصویر دیکھتے رہے تو ان کا حال بھی اکھلیش جیسا ہوگایا مایا وتی جیسا ۔ عقلمند وہ ہے جو دوسرے کے انجام سے سبق لے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔