101حفاظ و علماء کی شہادت: آخرتماشہ کیا ہے؟

سید ابراہیم حسامی قاسمیؔ

دل اس وقت کانپ گیا ،جب بے قصور معصوم بچے بھی دشمن کے نشانے لگگئے ،یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ آخر ان معصوموں کا قصور کیا تھا؟ کیا انہوں نے کوئی باغیانہ قدم اٹھایا تھا، کیا ان معصوم کلیوں نے کوئی بم برسایا تھا، کیا ان کے ہاتھوں میں کوئی خنجر وبندوق تھا، ارے یہ تو وہ معصوم ہاتھ تھے ، جو خدا کے قرآن کو اور رسول اللہ ﷺکے مجموعۂ فرمان کو تھامنے والے تھے ، جن کے ہاتھوں میں امن ومحبت کا پیغام تھا، جو پڑھ رہے کہ خدائے کائنات زمین پر فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، وہ سیکھ رہے تھے کہ زمین پر اکڑ کر چلنا بھی برا ہے ، وہ سمجھ رہے تھے پڑوسیو ں کا ہم پر کتنا بڑا حق ہے ، وہ اپنے حقوق کو معاف کرکے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی تیاری کر رہے تھے، وہ فتح مکہ کی تاریخ پڑھ کراپنے ہر قصوروار کو وہ معاف کرنے پر آمادہ تھے،وہ انسانیت کا درد، مظلوموں کی آہ بن کر ابھرنے والے تھے ، وہ بے کسوں کے مسیحا اور ستم رسیدوں کے خیرخواہ بننے والے تھے کہ اچانک ان پر امریکی ڈرون حملہ کر دیا جاتا ہے ، ان کے ارمانوں کا خون کردیا جاتا ہے ، ان کے معصوم جسموں پر بمباری کر دی جاتی ہے ، ان کے کمل نما بدن کو چھلنی کردیا جاتا ہے ،آخر پتہ بھی تو چلے کہ ان کا قصور کیا ہے ؟

ارے ظالمو! تم نے ایسے معصوم گلابوں کو مسل کچل دیا ہے کہ جن کی مہک سے پورا ملک افغانستان معطر ہونے والا تھا، جن کی چہک سے سارے ماحول میں ایک سماں بندھنے والا تھا، جن کے نام پر لوگ رشک کناں تھے،جن کے چہروں کی  معصومیت پر ماہتاب بھی بلائیں لے رہا تھا، جن کے علم کی روشنی کے آگے آفتاب بھی متحیر تھا کہ آجچہارسو اتنا اجالا کیوں کر ہے؟ آج سارے ماحول میں اتنی پاکیزگی کیسے چھا گئی ؟تو پتہ چلا تھا کہ آج قندوز کے مدرسہ میں ایک سو ایک طلبہ کی دستار بندی ہونے والی ہے، حفاظ کے سروں پر دستار حفظ اور علماء کے سروں پر دستار فضیلت رکھی جانی والی ہے ، دیکھو !دستار باندھ دی گئی، ہاتھوں میں سند دے دی گئی،سارے پھولوں کو ایک صف میں مہکنے کے لیے بٹھا دیا گیا، ملک کا ملک امنڈکر آرہا ہے،نورانیت اپنے عروج پر تھی کہ اچانک پھولوں کی خوشبو کا انداز بدل جاتا ہے ، اب خوشبو پھولوں سے نہیں ؛ بلکہ خون سے آنے لگتی ہے ، جس قرآن مقدس کی تعظیم لازم تھی اب اسی قرآن کے پرخچے اڑا دئیے جاتے ہیں، قرآن مقدس خون میں لت پت نظر آرہے ہیں،سارا خوشی کا ماحول ماتم میں تبدیل ہوجاتا ہے ، جلسہ گاہ کی پوری زمین خون آلود ہوجاتی ہے ،وہ پیارے حفاظ جو ابھی زندگی کی بہار بھی نہ دیکھ سکے ،جو جوانی کی دہلیزکو بھی نہ چھو سکے، جن کی زندگی نے ابھی کروٹ بھی نہیں بدلی،جن کے لبوں پر مسکراہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں، جس کے ہاتھوں میں کلام الہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جن کے چہرے کی معصومیت پر سب کو رشک آرہاتھا، جن کے سروں کی دستار ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنارہی تھی، ہر انسان کی نگاہ ان پر رشک کر رہی تھی، آج وہ آسمان والوں کے لیے بھی چمک رہے تھے،کہ اچانک ان کے ارمان کا خون ہوجاتاہے اور ان کی زندگی کا سورج غروب کردیاجاتا ہے۔

آج مائیں انتظار میں تھیں کہ ہمارا بچہ اپنے مقصدکی تکمیل کر کے آرہا ہے، وہ اپنی منزل تک پہونچ چکا ہے ، روزآنہ کے سلام میں اور آج کے سلام میں بے حساب فرق ہوگا، گھر آنے اور بچوں کے سلام کرنے کی مائیں منتظر تھیں، دستار میں لپٹے سرکو دیکھنے کے لیے یہ مائیں کتنی راتیں اپنے سر کو بارگاہ ایزدی میں خم کی ہوئی تھیں، ان کی جبین ناز کو بوسہ دینے کے لیییہ مائیں بارگاہ الہی میں اپنی جبین نیازخم کئی ہوئی تھیں،ماؤں نے آج اپنے بچوں کو نہلایا تھا، نئے اور سفید لباس پہنائے تھے، کئی ماؤں نے مدرسہ میں مقیم اپنے لڑکوں کے لیے نئے سفید لباس بجھوائے تھے، انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کے بھیجے جانے اور پہنائے جانے والے یہ سفید لباس ان کے لیے کفن بن جائیں گے،اس لباس کے بعد انہیں دوسرا لباس پہننے کی نوبت ہی نہیں آئے گی، ان کے مسکراتے لبوں پر دوبارہ ایسی مسکان نہیں سج پائے گی،آج کا غسل ہی ان کے لیے آخری غسل ہوجائے گا، اور کئی مائیں تو یہ بھی نہ جانتی ہوں گی کہ آج کے بعد ہم اپنے معصوم لخت جگر کو دیکھ بھی نہیں سکیں گی،کہ ان کے لبوں کی مسکراہٹ چھین لی جائے گی، ان کے سر کبھی دستار کے لائق نہ رہ سکیں گے، ان کے بدن کبھی نئے لباس کے قابل نہیں رہ سکیں گے، آج سب کچھ لٹ جائے گا، ماؤں کی گود اجڑجائے گی،بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی اور انہیں ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سلا دیا جائے گا۔

ادھر باپ کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی کہ جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے بچے کی تعلیم وتربیت کی فکر کیا کرتا تھا، آج اس کے دل کی تمنا جاگ اٹھی تھی کہ اب میرا بچہ بھی مصلے پر امام بنے گا، دوسرے حفاظ کی طرح میرا بچہ بھی تراویح میں قرآن پڑھا ئے گا، میرے لیے میرا بچہ باعث افتخار بنے گا، میں سب کے سامنے بڑے عز وشرف کے ساتھ کہوں گا کہ آج میرا بچہ حافظ قرآن ہوچکا ہے ، میں ایک حافط قرآن کا والد ہوں، میرے بچہ نے بخاری پڑھ لی ہے، اسے سر پردستارفـضیلت سجادی گئی ہے ، میرا بچہ اب مدرس بنے گا، دین کا داعی بنے گا، اسلام کا سپاہی بنے گا، یہ تمنائیں یہ ارمانیں ایک باپ اپنے دل میں سجا کر جلسہ گاہ پہونچتا ہے ، تو کس کو پتہ ہوتا ہے کہ بچہ کا دیدار باپ کے لیے آخری ثابت ہوجائے گا، کتنے باپوں کی تمنا تھی ہوگی کہ وہ جلسہ کے اختتام کے بعد اپنے بچہ کو سینہ سے لگا کر اپنے کلیجہ کو ٹھنڈاکرے ، اس کے دل کی تمنا تھی ہوگی کہ میرے بچہ کی خوشی کا میںاب ہر سامان فراہم کروں گا؛ مگر کیا پتہ ایسی خوشی دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گی، اس خوشی کو دیکھنے کے دن ہی دل پرغم کی بدلی ہمیشہ کے لیے چھا جائے گی، اب دل ہمیشہ کے لیے ویران ہوجائے گا، دل اب کسی دوسری تمنا کے لائق نہیں رہ سکے گا، بچے کا دیدار بھی نم آنکھوں سے کیا تھا کہ آج میرے بچے نے میرا سراونچا کردیا ، میں اپنے بچہ کوکاندھے پر بٹھاؤں گا اور خوشی سے جھوم جاؤں گا ، کسے پتہ تھا اب کاندھے پر بٹھانے کا نہیں ، اٹھانے کا وقت آچکا ہے ،سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا، ظالم نے بزدلی کا وار کردیا ، اور معصوم کلیوں کو کھلنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا۔

اے خدا کے دشمنو! تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے بم سے یہ مدارس مٹ جائیں گے ، یہ قرآن ختم ہوجائے گا، یاد رکھو کہ جب تک مدارس میں قرآن پڑھے جاتے رہیں گے ، مدراس زندہ وتابندہ رہیں گے،کیوں کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے کیا ہے ، اور قاعدہ ہے کہ کوئی قیمتی چیز جس جگہ محفوظ ہوتی ہے ، اس جگہ کی بھی حفاظت کی جاتی ہے ، مدارس اللہ کی امانت میں رہیں گے، تم ایک مدرسہ کو جلا کر خوش نہیں ہوسکتے، چند حفاظ کو شہید کرکے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے قرآن کو مٹا دیا، مدارس کو مٹا دیا ، نہیں یہ تو تمہاری بزدلی کی علامت تھی ، ارے تم میں ہمت ہوتی یا تم میں کچھ مردانہ دم خم ہوتا تو آتے، ان افغانیوں سے زمینی جنگ لڑتے ، تب آسمان فیصلہ کرتا، زمین اپنے کرتب دکھاتی، فیصلہ ہاتھوں ہاتھ سامنے آجاتا، یہ بزدلی کی لڑائی لڑ کے تم کامیابی کا سہرا اپنے سر پر نہیں باندھ سکتے اور چند حفاظ کی شہادت اور ایک مدرسہ کی ہلاکت کو قرآن کریم اور مدارس اسلامیہ کا خاتمہ نہیں کہہ سکتے ، ارے یہ زندہ رہیں گے ، قرآن سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتا رہے گا، وہ مٹنے کے لیے نہیں آیا، اور مدارس ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ؎

 تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مئے کو تعلق نہیں پیمانے سے

اے حملہ آورو!تم اس بزدلانہ حملہ کے ذریعہ کیا پیغام دینا چاہتے ہو ، کیا اس کے ذریعہ اپنی شوکت ودبدبہ کا مظاہر ہ چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ تمہاری یہ حرکت نسوانیت سے بھی گئی گزری ہے ، احمقانہ اور بزدلانہ حماقت تم نے کی ہے ،اور اس کے ذریعہ تم مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے ہوتو یہ بھی ناممکن ہے ، اگر اس کے ذریعہ مسلمانوں میں رعب پیدا کرناچاہتے ہوتو یاد رکھو کہ مسلمان سوائے خدائے واحد کے کسیسے ڈرنے والا نہیں، اگر اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں مدارس سے بیزاری پیدا کرنا چاہتے ہوتو یادرکھو! تمہاری اس حرکت سے مداس سے بیزاری نہیں؛بلکہ قلب مسلم میں شوق شہادت جواں ہوتا ہے، جذبات انگڑائی لے چکے ہیں، رسول اللہ ﷺکی وراثت کو حاصل کرنے اور اس راہ میں تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے کئی قلب بے چین ہیں،یہ بات اچھی طرح ذہن کے دریچوں میں پیوست کرلو !کہ مسلمانوں نے دین خدا پر مرمٹنے کا عزم کربلا کے میدان ہی سے کر لیا ہے ، دین کی خاطر سختیاں جھیلنے کا ہنر ہم نے مکہ کے مشرکین ہی سے سیکھ لیا ہے ، صبر واستقلال کی دولت ہمیں شہنشاہ دوجہاں ، سرور کون ومکاں، حضرت بلال وعمارؓ، حضرت خبیب ویاسرؓسے ہم نے سیکھ لی ہے ، ہماری خواتین نے اسلام کی خاطر بچوں کو قربان کرنے کا حوصلہ اسلام کے اولین دور ہی سے حاصل کر رکھا ہے ، راہ خدا میں اولاد کی قربانی پر مسلمان مائیں نالاں نہیں؛ بلکہ فرحاں ہوتی ہیں، ارے تم کیا جانو! مسلم عورتیں تو اپنے بچوں کو لالا کر دربار رسالت میں پیش کرتی تھیں کہ انہیں لے جاؤ، شاید یہ راہ خدا میں شہید ہوجائے اورہم شہید کی ماں کہلائیں،تم کوحیرت ہوگی کہ ایک مرتبہ ایک خاتون نے اپنے گود کے بچہ کو لاکر سرکارﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو حضور ﷺ نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا: یہ معصوم بچہ کس کام کا؟ ہم اس کو لے کر کیا کریں گے ؟ کون اس کی دیکھ بھال کر سکے گا؟ ارے بزدل حملہ آورو، ظالمو! تمہارے منھ پراسصحابی خاتون کا یہ جملہ بڑا طماچہ ہے کہ اس نے کہا تھا : یارسول اللہ ! میں بھی جانتی ہوں کہ یہ کچھ کام کا نہیں، آپ قبول کریں گے تو آپ پر میدان جنگ میں بار ہوجائے گا، کوئی اس کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہوگا؛ مگراس کو اس لیے دے رہی ہوںکہ جن کے پاس مال تھا، انہوں نے مال دیا، جن کے پاس سواری تھی ، انہوں نے سواری دی ، جس کے پاس جوکچھ تھا، اس نے وہ دیا؛ مگرمیرے پاس سوائے اس معصوم کے کچھ بھی نہیں،میری خواہش یہ ہے کہ جب دشمن اسلام آپ کی جانب تیر چلائے اور آپ میرے اس گود کے بچے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرلیں تو شاید اس کا مقدر چمک جائے اور میری جھولی بھی شہادت سے بھر جائے،بزدلو! ذراان معصوم بچوں کوبھی دیکھ لو ! کہ جب ان کی صغر سنی کی وجہ سے ان کو واپس کیا جانے لگا تو انہوں نے اصرار کیا کہ ہم جانے والے نہیں ، یارسول اللہ ہمیں قبول فرمالیجیے، والد نے بھی گزارش کی کہ میرا بچہ بھی غزوہ میں شرکت کرلے تو اس کی تمنا بھی پوری ہوجائے گی اور بچے کی تمنا یہ تھی کہ میری شرکت ہوجائے تو میں جام شہادت نوش کرنے والا ہوجاؤں گا، ہم شوق شہادت اپنے سینوں میں رکھتے ہیں ، ہم موت سے گھبرانے والے نہیں ، ہم موت کو سینے سے لگانے والے ہیں، ہم موت کو وحشت کا سامان نہیں؛ بلکہ دخول جنت کا میزان گردانتے ہیں ، اسی لیے ہم کہتے ہیں؎

مقتل کی طرف اب جاتیہیں اے موت تیرے لب چوم کے ہم

لے جام شہادت پیتے ہیںساقی کی ادا پہ جھوم کے ہم

اس خطرناک اور کرب انگیز سانحہ پرمیڈیا کی خاموشی معنی خیز ہے ، جو ایک معمولی سی بات کو لے کر کئی کئی دنوں تک بحث ومباحثہ کرتا ہے، جس کو ایک سوئیبھی تیرنظر آجاتی ہے ،ایک پتھر بھی بم دکھائی دینے لگتا ہے، وہ کیوں خاموش ہے، کیا انہیں ان معصوموں کا خون ہولی کا تہوار نظر آتا ہے ، کیا انہیں اتنا بڑا سانحہ لائق تشہیر محسوس نہیں ہوتا، کیاسکیڑوں معصوم جانیںان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں، وہ اینکر کہا ں کھو گئے ہیں؟ کیا ان کے کیمرے ان مناظر کو قید کرنے سے عاری وعاجز آچکے ہیں، کیا ان کے رپورٹر وں کے پاس اس کو پیش کرنے کی ہمت وقوت نہیں ، ٹی وی پرآکر زور زور سے چیخنے والوں کی زبانیں کیا گنگ ہوچکی ہیں، بڑی بڑی تصویریں لا لا کر دکھا نے والے کہاںگم ہو گئے ، کیا ان کی بینائی مفقود ہوچکی ہے، کہاں ہیں وہ بڑیبڑے انٹرنیشنل چینل کہ جو کہ گلی گلی کی خبروں کو اور کتے بلیوں کی حرکتوں کو نشر کرتے ہیں ، کیا انہیں اتنا بڑا حادثہ نظر نہیں آیا؟

جب ضمیر بِک جاتا ہے تو دل بھی بک جاتے ہیں ، دلوں پر مردنی چھا جاتی ہے ، کیا ان میڈیا والوں کو ان معصوم ماؤں کی آہیں نظر نہیں آتیں، کیا بلکتے سسکتے معصوم بھائی دکھائی نہیں پڑتے ، کیا روتا چلاتا غموں سے نڈھال باپ نظر نہیں آتا، کیا جنازوں کی طویل قطار ان کی نگاہوں سے نہیں ٹکراتی،یہ خاموش اس لیے ہیںکہ کہیں ہمارا آقا امریکہ ہم سے ناراض نہ ہوجائے، کہیں ہمارے سوداگر یہود ہم سے خفا نہ ہوجائیں، کہیں ہمارے پالنہاریورپی ہم سے جدا نہ ہوجائیں، یاد رکھو کہ جب اللہ کی مار پڑے گی تو اچھے اچھوں کی نیاں غرق ہوجائے گی،خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، جب پڑتی ہے تو اگلا پچھلا سب چکتا کردیتی ہے ، خدا کی ڈھیل کواپنی کامیابی کی دلیل نہ سمجھو ، بلکہ یہ نکیل ہے ،اس کا فاصلہ کبھی قلیل ہوسکتا ہے ، تمہاری حرکتوں سے وہ تمہیں ذلیل کرسکتا ہے اور تمہارا انجام مثل اصحاب الفیل کرسکتا ہے۔

حیرت تو ہمیں ان اسلامی پیشواؤں سے بھی ہے ، جو مملکت اسلامی پر قابض ہو بیٹھے ہیں، کیا انہیں اللہ کے بندے اور اپنے رسولﷺ کے مرتے ، کٹتے ،تڑپتے ، سسکتے ، بلکتے اور کپکپاتے امتی نہیں دکھائی دیتے ، کیا کلام پاک کے وہ معصوم شہیدحفاظ ان کے دلوں کو نرم نہیں کرتے، کیا وہ بخاری کی آخری حدیث پڑھنے والے شہزادے ان شرزادوں کو دکھائی نہیں دیتے،کیا انہیں بھی بے حسی کا سانپ سونگھ گیا ہے ؟ ان کے دل بھی مردہ ہوچکے ہیں؟کیا ان کی بھی غیرت اسلامی ختم ہوچکی ہے ؟ کہاں ہیںوہ مملکت اسلامی کے ٹھیکیدار؟ کہاں ہیں وہ اسلامی سلطنت کے چوکیدار؟وہ کب تک پورپ واحمر قوم کی غلامی کریں گے ، کب تک ان کے تھوکے ہوئے لعاب سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے،کیا انہیںاپنے نبی کے معصوم وارث نہیں رلاتے ، کیا انہیں اپنی قوم کی حالت زار نہیں تڑپاتی،آخر کیوں ان کے دل اتنے سفاک ہوچکے ہیں؟کیوں اب تک امریکی سفارت خانہ کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا؟ کہاں  ہیںوہ اقوام متحدہ کے ذمہ دار؟ کہاں ہے وہ المؤتمر العالمی الاسلامی کے قائدین؟کہاں ہیں وہ عالمی امن وانصاف کے علمبردار؟کہاں ہیں وہ دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والے مکار؟کیا تم نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں، کیا تم میں انسانیت کا کوئی احساس نہیں، آخر تم بھی تو کسی کے باپ ہو، تمہاری بھی تو معصوم اولاد ہوگی، آخر تمہارے گھر میں بھی کوئی نسوانی دل ہوگا؟ کیوں اتنی ضد؟کیوں اتناعناد؟ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں؟ وہ حفاظ قرآن ہیں؟ وہ رسول اللہﷺ کے علم کے نگہبان ہیں؟ ارے وہ بیٹھ کر کوئی بم تو نہیں بنا رہے تھے، وہ امن کے خلاف کوئی سازش تو نہیں رچ رہے تھے ، وہ تو امن کے داعی بن رہے تھے ، انصاف کے علمبردار بن رہے تھے، وہ فساد ودہشت سے نفرت پیدا کررہے تھے، ان کی نگاہوں میں دنیا کے چند ٹھیکرے نہیں تھے،  وہ آخرت کے شیدائی تھے ، حق پر فدائی تھے، سارے عالم میں امن کے ندائی تھے ، آخر تم نے ان معصوموں کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟

تمہاری اس حرکت سے تمہیں وقتی خوشی تو مل گئی ہوگی مگر یا د رکھو کہ تم نے ان حفاظ وعلماء کو مارا نہیں ہے؛ بلکہ انہیں ہمیشہ کی زندگی دے دی ہے ، ہمارا یقین کامل ہے کہ راہ خدا میں شہادت پانے والے مرتے نہیں ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ؛ بلکہ قرآن تو اورآگے کی خوشخبری سناتا ہے کہ انہیں روزی بھی اللہ کی طرف سے دی جاتی ہے ، یاد رکھو!مسلمان زندہ رہتا ہے تو بھی اللہ کے انعامات کے ساتھ اور مرتا بھی ہے اللہ کی جانب سے ملنے والے اعزازات کے ساتھ۔

ہاں آج جنت میں خوب چہل پہل ہوگی، قرآن کی دھوم دھام ہوگی، شہداء کا اژدحام ہوگا، ہر طرف تلاوت کے نغمے چل رہے ہوں گے، حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے ارد گرد بھی بڑا ہجوم ہوگا، پورے معصوم بچے ان کے دائیں بائیں گھوم رہے ہوں گے، وہ بھی شاداں وفرحاں ہوں گے ، اے شہیدو! تم نے بھی کیا موت پائی ہے کہ مدرسہ کی پاکیزہ چہار دیواری ہی سے جنت کا راستہ ہموار کرلیا ہے ، کسی قسم کا کوئی گناہ، کسی طرح کا کوئی دنیوی شغل تم نے نہیں اپنایا ، خدا تمہیں مبارک کرے اور تمہارے طفیل ہمیں بھی شوق شہادت عطا کرے۔

اے اسلام دشمنو! ؒتم اچھی طرح سمجھ لو کہ مسلمانوں کو نہ تم مٹا سکتے ہو، نہ دبا سکتے ہواور نہ ہی جھکا سکتے ہو، یہ خدا کا وعدہ ہے ، منظر بھوپالی نے سچی ترجمانی کی تھی کہ؎

کیا ہے ثابت کہ کربلانے کہ مومنوکو     

 سوا خدا کے جھکانے والا کوئی نہیں ہے

خدا نے وعدہ کیا ہے تم سے اے حق پرستو تمہیں زمیں پر مٹانے والا کوئی نہیں ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ریاستی دہشت گردی کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہو گی کہ قندوز میں افغان حکومت نے مدرسے کے ننھے بچے مار دیے ، جن بچوں کے سر پر دستار سجنا تھی ان سروں پر بمباری کر دی گئی ، کیا کسی حملے کو اس لیے سند جواز فراہم کی جا سکتی ہے کہ یہاں طالبان کے موجود ہونے کا اندیشہ تھا ؟
    کیا اس حملے کے بعد اس لیے بھی چپ رہا جا سکتا ہے کہ مرنے والے مدرسہ میں پڑھتے تھے ؟ کیا اقوام متحدہ معصوم شہریوں پر بمباری کا نوٹس لے گی ؟

    آخر یہ ظلم کیوں اور کب تک ؟

    کبھی کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا ہے یہ کس دور میں پیدا ہو گیا ہوں ؟ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال جنگ دیکھنے میں گزار دیے، یہ آنکھیں امن کو ترس گئی ہیں ، میرا جرم کیا ہے ؟ مجھے امن کیوں نہیں مل سکا ؟ میں بچوں کے مسکراتے چہرے کیوں نہیں دیکھ پایا ؟ ماؤں کو ہنستے ہوئے کب دیکھوں گا ؟ لوگ بچوں کی تصاویر اور ماؤں کے دوپٹے لہرا کر مزید جنگ کو ہوا دیتے ہیں مگر میں یہ منظر دیکھ کر کرچی کرچی ہو جاتا ہوں ،

    اندر ایک وحشت سی ہے ، جنگ سے بیزار آدمی اس ماحول میں زندگی بسر نہیں کرتا زندگی گزارتا ہے ، ہم زندگی گزار رہے ہیں اور زندگی گزر رہی ہے _

    کوئی آگے بڑھے اور امن کا پرچم لہرا دے ، روٹی جنگ سے وابستہ ہو گئی ہے کوئی لوگوں کو روٹی دے تاکہ انسان بچ سکیں ، انسان مر رہے ہیں انسانوں کو بچایا جائے ، آخر بے بس لوگ اذیتی زندگی سے کب نکلیں گے ؟ میں اذیت میں اور اذیت مقدر بن چکی ہے ، میں نے اذیت تو نہیں چاہی تھی پھر اذیت کیوں مل رہی ہے ؟ افسوس کہ میری جائز خواہش بھی پوری نہیں ہو رہی ، میں امن مانگ رہا ہوں کوٹھی بنگلہ کار نہیں ، مجھے امن دے دیا جائے بارود کی بو بہت سونگھ لی ہے ، کیا کہوں ؟ کیا لکھوں ؟

    دکھ ہے اور بیان سے باہر ہے _

تبصرے بند ہیں۔