سرزمین اعظم گڑھ – جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے

گہوارہ ٔ علم و دانش اور ایثار و  قربانی کی لازوال تاریخ کا حامل

ڈاکٹر عمیر منظر

(بٹلہ ہاؤس مبینہ مڈبھیڑ کے بعد یہ پہلا باقاعدہ مضمون تھا جس میں ضلع اعظم گڑھ اور وہاں کے باشندوں کا اصل چہرہ اور ان کی خدمات کے ہمہ جہت دائرہ کو پیش کیا گیا تھا۔ یہ مضمون اس وقت کے بیشتر روزناموں اور ماہناموں کی زینت بنا تھا۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا، سہ روزہ دعوت، بمبئی ٹائمز، ماہنامہ افکار ملی وغیرہ نے تو فی الفور اسے مضمون کو اہتمام کے ساتھ شائع کیا تھا بعد میں دیگر اخباروں نے اسے نقل کیا۔ ایک پرانا مضمون اس غرض سے بھی شائع کیا جارہاکہ اس سے ہم حالات کا مزید اندازہ لگا لیں )۔

اعظم گڑھ کا نام اُن دنوں ہر خاص و عام کی زبان پر تھا۔ میڈیا نے اس ضلع کی جو تصویر پیش کی تھی اور جو امیج بنائی تھی اس کو اگر سچ مان لیا جائے تو اس انسانی بستی پر وحشی درنددوں کا گمان ہوتا۔ مفتی ابو البشرکی گرفتاری سے بٹلہ ہاؤس مبینہ مڈبھیڑ تک پولس کی کارروائیوں کے دوران میڈیا نے ایک متوازی عدالت قائم کررکھی تھی اور تقریباً تمام ہی سماج دشمن عناصر کا تعلق کسی نہ کسی طر ح اعظم گڑھ سے قائم کرنے میں پوری طاقت جھونک رکھی تھی۔ اس دوران کسی لمحے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ میڈیا کی کوئی اخلاقیات بھی ہے  یا میڈیا جواب دہ بھی ہے۔ اس ضلع کو ’’دہشت گردوں کی نرسری‘‘ سے لے کرنہ جانے کیا کیا کہا گیا مگر کبھی یہ خیال نہ آیا کہ پنجاب، کشمیر اور شمال مشرق کی ریاستیں جہاں باقاعدہ علیحدگی پسندجماعتیں ایک عرصے تک سرگرم رہیں (او ر آج بھی ہیں )وہاں کے لیے کبھی یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ چند نوجوانوں کی گرفتاری کو ایسا ہوّا بنا کر پیش کیا گیا کہ گویا یہ ضلع دہشت گردی کے علاوہ کچھ جانتا ہی نہیں۔

گرچہ اعظم گڑھ کو ’’آتنگ گڑھ‘‘اور ’’دہشت گردوں کی نرسری ‘‘کہا اور لکھا جارہا ہے مگراس ضلع کی کبھی یہ پہچان نہیں رہی ہے۔ اسے ہم صحافتی مجبوری اور صارفی کلچر کہہ سکتے ہیں جو اس طرح کے الفاظ لکھنے اور بولنے پر لوگوں کو آمادہ کررہا ہے۔

اعظم گڑھ کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اسے ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اعظم گڑھ کی اصل شناخت تو ظلم و نا انصافی اوراستحصال  کے خلاف مستقل جدوجہد والے علاقے کی رہی ہے۔ اعظم گڑھ کو شرپسندوں کا اڈہ قرار دینے والے آخر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ سرزمین رشیوں، منیوں اور صوفیوں کا مسکن رہی ہے۔ اسی سرزمین نے بھگوان رام کے لیے ان کے بن باس کے زمانے میں اپنے دروازے وا کیے تھے۔ بن باس کے دوران ا نھوں نے آنوک (اعظم گڑھ)میں قیام کیا۔ مہابھارت کے تقریبا تین سو سال بعد ارجن کے پر پوتے اور ابھیمنو کے بیٹے راجہ پریکچھت نے ناگ راج سے بچنے کے لیے اس ضلع کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ گرچہ یہ ماقبل تاریخ کی باتیں ہیں لیکن ہیں تو اسی سرزمین سے متعلق۔ کیاوجہ ہے کہ اعظم گڑھ  کے اس تاریخی کردار پر لوگوں کی نظر نہیں جاتی۔ دراصل یہ علاقہ سیاسی حیثیت سے ہمیشہ متحرک اور فعال رہا ہے۔ تاریخ کے ہر موڑ پر یہاں کے باشندوں نے بیدار مغزی، سیاسی بصیرت اور جرآت و بہادری کی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ سرزمین ہر عہد میں ظلم و ناانصافی کے خلاف آہنی دیوار کا کام کرتی رہی ہے۔

1857میں برطانوی سامراج کے خلاف جب پورے ملک میں علم بغاوت بلندکیا جاچکا تھا تو اسی سرزمین کے ایک سپوت مولانا پیر علی نے پٹنہ میں برطانوی حکومت کی چولیں ہلادیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں انھیں ان کے پیروکاروں کے ساتھ گنگا ندی کے کنارے پھانسی دے دی گئی۔ بابو کنور سنگھ نے افغان پناہ گزینوں اور راجپوتوں کے ساتھ مل کر 1857ء میں برطانوی حکومت کو مختلف جگہوں پر شکست دی جس میں محمد پور(اعظم گڑھ)کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1857 ء کے تقریباًڈھائی سال بعد تک اعظم گڑھ سے غازی پورتک کا علاقہ برطانوی تسلط سے آزاد رہا۔ اپنی سرزمین اور وطن سے غیر معمولی محبت اور قربانی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ جرآت و بہادری اور جواں مردی کا یہی خون تھا جس نے آزاد ہندستان میں برگیڈیر عثمان اور حولدار عبدالحمید کی شکل میں اپنے تازہ اور گرم لہو سے شجاعت و جواں مردی کی تاریخ رقم کی۔ ایک محدود اندازے کے مطابق آزاد ہند فوج کے سپاہوں میں تیس سے چالیس فیصد جوان اعظم گڑھ سے تعلق رکھتے تھے۔ آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔ تاریخ میں ان کا نشان بھی نہیں ملتا، لیکن ان نوجوانوں کے ذہنوں میں قربانی اور سرفروشی کا جوجذبہ تھا تاریخ کے صفحات بھلے ہی گواہی نہ پیش کرسکیں لیکن وہ معاشرہ جس سے ان کاتعلق تھا وہاں آج بھی سینہ بہ سینہ ان کی قربانیاں یاد کی جاتی ہیں۔ اور ان کے بے مثال جذبے کو سلام کیا جاتا ہے۔

اعظم گڑھ میں 1857ء کے بطن سے وہ شخصیت بھی پیدا ہوئی جس کی دانش وری اور بصیرت کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا۔ یہ شخصیت علامہ شبلی نعمانی کی تھی۔ علامہ نے افکار و نظریات کی سطح پر ہر طرح کے ظلم، استحصال اور ناانصافی کا مقابلہ کیا، انھوں نے پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی روح پھونکی، سیاسی بصیرت کو عام کیا اور برطانوی استعمار کی چیرہ دستیوں، اس کے فریب اور ظلم کو دلائل و براہین سے بے وقعت ثابت کردیا۔ یہ شبلی کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ انھوں نے ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ظلم  و استحصال اور ناانصافی کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس کے خلاف نظمیں لکھیں، بیانات دیے اور بوقت ضرورت عملی اقدام بھی کیا۔ ان کی وفات کو ایک صدی ہونے کو ہے مگر اب تک برصغیر ان جیسا اسکالر نہیں پیدا کرسکا۔ علامہ شبلی نے تنہا جو علمی اور ادبی کام کیا ہے بڑی بڑی اکیڈمیاں بھی اسے نہیں کرسکیں۔ اس سے انداہ لگانا مشکل نہیں کہ سرزمین اعظم گڑھ نے ملک کو طاقت و قوت کے ساتھ ساتھ افکار و نظریات کی دنیا میں ہمیشہ سرخرو رکھا۔ علم و ادب کے حوالے سے اس سرزمین کے لوگوں نے جو خدمت انجام دی ہے اس کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی سطح پرجاری ہے۔

شبلی نعمانی کے علاوہ علم و ادب کے مختلف میدانوں میں یہاں سے ایسے ایسے اساطین پیدا ہوئے کہ جو تاریخ ساز کہلائے۔ ان کا ذکر علم و ادب کی تاریخ میں سنہری حروف کے ساتھ لکھا گیا۔ اور جن کی گراں قدر خدمات کا اعتراف اہل علم نے ہمیشہ کیا۔ ان جلیل القدر افراد کا نام ہی اگر شمار میں لایا جائے تو اس کے لیے بھی ایک دفتردرکار ہوگا۔ علم و فن کے تمام  ہی شعبوں میں جن کی غیر معمولی خدمات اور کارناموں کی وجہ سے بین الاقوامی اور قومی دونوں سطحوں پر مرجع خلائق کا شرف انھیں حاصل ہوا۔ چند نہایت معروف اور معتبر نام بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔ مولانا اسلم جیراج پوری، مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا حمید الدین فراہی، مہاپنڈت راہل سانسکرت باین، مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری، مولانا ابواللیث ندوی، مولانا امین احسن اصلاحی، ، قاضی اطہر مبارک پوری، ، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا مجیب اللہ ندوی، خلیل الرحمن اعظمی، شمس الرحمن فاروقی، سید احتشام حسین، عبداللطیف اعظمی، اقبال سہیل، کیفی اعظمی، شیام نارائن پانڈے، اجودھیاسنگھ اپادھیائے ہری اود، کملا کانت، اسرار نیوٹن، سرسلیمان، سر اقبال، شمیم جے راج پوری وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا جاچکا ہے کہ یہ فہرست بالکل سامنے کے ناموں پر مشتمل ہے یہاں صرف چند نہایت ممتاز نام ہی پیش کیے گئے ہیں۔

دلی کے بارے میں مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ بڑے بڑے علما اور دانش وروں کا مرکز رہی مگر اس بیان کا قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ بیشتر دہلوی ادیب اور دانش ور یہاں آکر آباد ہوئے تھے اصلاً وہ کہیں اور کے تھے مگر اعظم گڑھ کا معاملہ اس سے مختلف ہے یہاں کے علماء، دانش وروں، ادیبوں اور شاعروں نے ایک دنیا کی علمی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اپنے وطن کو خیر باد کہا۔ یہاں ارباب فکر ونظر کا ایک سیل رواں ہے جو محیط بیکراں بن کر اقصائے عالم میں پھیل گیا، ان کی علمی کارگزاریوں کا سلسلہ اٹھارہویں صدی سے بہت واضح ہوکر سامنے آنے لگتا ہے ہندستان کا کوئی بھی قابل ذکر ادارہ یا دانش گاہ نہیں ہے جہاں ’’اعظمی قدم‘‘ نہ پہنچے ہوں۔ ان علمی کارگزاریوں سے یہاں کے عمومی مزاج اور میلان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور بآسانی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اعظم گڑھ فرقہ پرستوں کی جولان گاہ نہیں ہے کہ یہاں صرف تلوار کارگر ہوگی بلکہ یہ تو صوفیوں، رشیوں، منیوں، علماء، دانش وروں اور ادیبوں کی سرز مین ہے۔ یہ اخوت و محبت کی پیغام بر رہی ہے۔ دنیا کو علم کی روشنی دی ہے۔ پیار بانٹا ہے، حوصلہ دیا ہے اور لوگوں کو ظلم و ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہونے کی تعلیم دی ہے۔ یہاں باہمی اخوت و محبت کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ اب تک یہ ضلع فرقہ وارانہ فساد ات سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ اعظم گڑھ میں مدارس بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اور ہندستانی مسلمانوں کے تقریباً تمام مکاتبِ فکر کے مذہبی ادارے یہاں موجود ہیں۔ یہاں کے مدارس کا ایک بڑا متیاز یہ ہے کہ وہ مذہبی تعلیم ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ ان کی اکثریت نے سماجی ضرورتوں کودیکھتے ہوئے اپنے یہاں دیگر عصری علوم بھی نصاب میں شامل کیے ہیں۔ متعدد مدارس ایسے بھی ہیں جن کے نصاب میں مذہبی علوم کے مقابلے سماجی اور سائنسی علوم کا تناسب زیادہ ہے۔ جامعۃ الفلاح، مدرسۃ الاصلاح اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اعظم گڑھ کے مسلمانوں پر یہ الزام بھی سراسر بہتان تراشی ہے کہ انھوں نے صرف مذہبی علوم کے ادارے کھولے ہیں، اسکول و کالج نہیں۔ حالانکہ سرسری نظرڈالنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہاں چھوٹے چھوٹے مقامات پر بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول موجود ہیں۔ صرف ایک شبلی کالج ہی نہیں بیناپارہ طبیہ کالج اور منگرواں نسواں کالج بھی یہاں کے مسلمانوں کی جدید تعلیم سے دلچسپی کا مظہر ہیں۔ جدید تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر ہی اعظم گڑھ کے بیشتر مدارس نے ہندستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے اپنے سرٹیفکٹ کی منظوری حاصل کی ہے جس کے تحت یہاں کے مدارس کے طلباء کی اکثریت (خصوصیت سے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے طلباء کی نوے فیصد تعداد) مدارس کی تعلیم کے بعد جدید تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد اورلکھنؤ یونیورسٹی میں اعظم گڑھ کے طلباء کی قابل ذکر موجودگی انہی مدارس کی مرہونِ منت ہے۔ ویسے بھی اعظم گڑھ میں مدارس کی ایک روشن تاریخ ہے۔ یہ علاقہ شیرازِ ہند جونپور کی شرقی حکومت کا حصہ رہا ہے جس کے علمی فیض سے ایک عالم سیراب ہوتا رہا ہے۔ شرقی حکومت کے بہت سے اہم علاقے آج اعظم گڑھ میں شامل ہیں اور اپنی تاریخ اور سماجی حیثیت کے سبب اس علاقے کے لوگوں پر گہری چھاپ رکھتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اعظم گڑھ کے مسلم سماج نے  ملک ملت کی تعمیر میں حکومتوں کی مسلسل عدم دلچسپی اور بے توجہی کے باوجود اپنا حصہ ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر رول ادا کیا ہے۔ اعظم گڑھ کے مسلمانوں کی تعلیم سے دلچسپی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج  یہاں کے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح تقریباًسو فیصد ہے۔ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور لڑکے جدید تعلیمی اداروں میں نئے کورسیز کا فائدہ اٹھانے کی طرف گامزن تھے کہ اچانک انھیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث دکھا کر اور اعظم گڑھ کو’’آتنک واد کی نرسری‘‘ بتا کر ان پر جیلوں اور قبرستانوں کے دروازے ہی نہیں کھولے گئے بلکہ ان پر امکانات کے نئے دروازوں کو پورے طور پر بند کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی گئی۔

یہاں کی سماجی زندگی اُن آلائشوں سے بہت حد تک پاک ہے جوکہ ملک کے بیشتر علاقوں کا مقدر بن چکی ہیں۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فرقہ وارانہ فضا کو سیاسی پارٹیوں نے جس انداز سے فروغ دیا ہے اور باہمی منافرت کی جو دیوار کھڑی کی ہے اور اسے سیاسی اقتدار کا جو زینہ بنایا ہے یہ ضلع اس سے اچھوتا نہیں رہا لیکن ان سب کے باوجود آپسی محبت اور یگانگت کا ایک قابل رشک ماحول ضرور ہے۔ آج بھی یہاں شادیوں اور دیگر سماجی تقریبات میں عام ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے یہاں شریک ہوتے ہیں۔ عید، بقرعید، ہولی اور دیوالی کے مواقع پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔ سیاست سے الگ اپنے طور پر ایک بہتر سماج کے بہت سے عوامل ابھی یہاں زندہ اور متحرک ہیں یہاں کے تمام ہی لوگ تلاش معاش کے لیے ہندستان کے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ممبئی، دلی کے علاوہ خلیجی ممالک اور ملیشیامیں بھی یہاں کے افراد کثیر تعدادمیں تلاش معاش کے لیے آباد ہیں۔ دیار غیر کے تجربات، عام انسانی میل ملاپ اور ہندستان کی عام سیاسی فضا سے قدرے دوری نے ان کے دلوں میں کشادگی، اخوت و محبت اور ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ دیار غیر سے لے کر اعظم گڑھ تک اس جذبے کی بھر پور کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کی بڑی اکثریت ہونے کے باوجود جذبہ منافرت کی لو مدھم ہے۔

بالکل ابتدائی سطح سے اعظم گڑھ کے لوگوں نے تلاش معاش کے لیے دوسرے شہروں اور ملکوں میں جاکر کام کیا۔ اور اپنی محبت اور لگن سے اعلی مناصب تک پہنچے۔ لیکن جہاں بھی رہے کبھی انتطامیہ یا اس سماج کے لیے پریشانی کا سبب نہیں ہوئے۔ دلی کے جامعہ نگر علاقہ کی تعمیر و تشکیل اور یہاں کی عام فضا میں اس سرزمین کا نمایاں کردار رہا ہے۔ جامعہ نگر کے آباد ہونے کے وقت سے ہی اعظم گڑھ کے بے شمار افراد اور خاندان یہاں آباد ہیں۔ آج تک انتظامیہ کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ عام انسانی مسائل اور پریشانیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں یہ تو انسانی نفسیات کا حصہ ہیں سوال صرف یہ ہے کہ آخر یہ اچانک کیا ہوگیا کہ ایک علاقہ جو غیر معمولی تہذیبی و ثقافتی شعور رکھتا ہے۔ مذہب جس کے خمیر میں رچا بسا ہے اور جہاں کی ایک بڑی تعداد وطن سے دور تلاش معاش کے لیے سرگرداں ہے، وحشت و درندگی کا بازار گرم کرنے لگے، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوجائے اور ملک کے لیے سنگین خطرے کی صورت اختیار کرلے۔

مگر جیسا کہ پہلے کہاجاچکا ہے اب بہت سے لفظ اپنی اصل تعبیر کے بجائے سیاسی تعبیر کے محتاج ہوگئے ہیں۔ راتوں رات نہ تو کوئی دہشت گرد بنتا ہے اور نہ ملک سے بغاوت کا منصوبہ تیار کرتا ہے۔ اب دہشت گردی، بغاوت اور سماج دشمن عناصر جیسے الفاظ سیاسی تعبیر اختیار کرچکے ہیں، اور اپنی معنویت کھوچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کی حرمت کی بحالی کے لیے بھی عدالت عالیہ پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ لیکن خواہ عدالت عالیہ ہو یا جمہوریت اور سیکولرزم جیسی ملک کی سیاسی اصطلاحیں، ہندستان کے موجودہ تناظر میں سب کے معنی بدل چکے ہیں۔ ان کی تشریح و تعبیر ایک خاص سیاق میں کی جارہی ہے۔ اور اس تعبیر کے پس پردہ نہایت منظم انداز سے اسی تحریک کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔

اس تحریک میں شدت 1857ء کے واقعہ کے بعد پیدا ہوئی انگریزوں نے جس طرح  صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور انھیں ملکی ترقی کی شاہراہ سے علیحدہ رکھنے کی منظم کوششیں کیں اسے اب تاریخی استناد حاصل ہوچکا ہے۔ ملک کی تقسیم اس سازش کی دوسری اہم اور بنیادی کڑی ہے۔ 1947ء اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کے سلسلوں نے جس انداز سے مسلمانوں کی کمر توڑی، اجنبیت اور خوف و دہشت کے سائے میں زندہ رہنے پر مجبور کیا اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جمہوریت، سیکولرزم، اورلبرل ازم کی مضبوط ترین تحریکوں نے مسلمانوں کے حواس بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تحریکوں میں مسلمانوں کے تئیں اخلاص کا جذبہ کارفرما کم ہی تھا بلکہ خود مسلمانوں نے ملک کے نظام سیاست اور سیاسی پارٹیوں کی باہمی حکمت عملیوں سے بتدریج یہ فائدہ کشید کیا ہے اور اگر غور کیجیے تو اس فائدے کے لیے مسلمانوں کو بڑی قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ ان قربانیوں میں ایک قربانی ایسی بھی ہے جس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ وہ یہ ہے کہ تقسیم ملک سے پیدا ہونے والے  خوف و دہشت کا پردہ چاک کرنے اور خود کو ترقی کی شاہراہ پر لانے کے لیے جس سیاسی نظام اور سیکولر اقدارکو انھوں نے اپنے لیے پلیٹ فارم بنایا، اس نے رفتہ رفتہ ان کی تہذیب، ثقافت اور روزمرہ کی عملی زندگی میں مذہب کا رنگ مدھم کردیا۔ مسلمانوں کی موجودہ نسل عملی طور پر مذہب سے بڑی حد تک بیگانہ ہوگئی ہے۔ اس کی تمام تر توجہ ملک اور ملکی ترقی میں اپنی شمولیت پر ہے۔ ظاہر ہے اس کاراستہ جمہوریت، سیکولرزم اور لبرل ازم جیسی گھاٹیوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ مسلمانوں کی موجود ہ نسل جس تیزی سے پروان چڑھ رہی  ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں جس انداز سے اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ اس منظم تحریک کے لیے جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، موت کا پروانہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نسل’گویہ نام کی ہی مسلمان ہے‘ ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ہے۔ دہشت گردی، بنیاد پرستی، بغاوت اور اس قسم کی دوسری اصطلاحیں در اصل وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر 1857۔ 1947 اور تقسیم ملک کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ سیاسی اکھاڑوں کو جنم دیتی ہے آج تمام سیاسی اکھاڑے مسلمانوں کے خلاف اپنا متحدہ محاذ بنا چکے ہیں۔

علم و فن کی غیر معمولی روایت اور اثیار وقربانی کی لازوال تاریخ رقم کرنے والا ضلع اعظم گڑھ اس سے اچھوتا نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔