خدا کشمیر کو نظر بد سے بچائے

حفیظ نعمانی

کشمیر کے حالات جتنے دنوں سے ناقابل برداشت ہیں اتنے دنوں تک تو ملک کے ان شہروں میں بھی سوائے مرادآباد کے نہیں رہے جہاں ہزاروں مسلمان شہید کردئے گئے۔ وہ ساتویں دہائی میں جمشید پور ہو، روڈ کیلا ہو یا کلکتہ ہو اور اس کے بعد بھاگل پور ہو یا دوسرے اضلاغ ہوں۔ مراد آباد میں بلا شبہ ایک سال تک ایسی حالت رہی کہ چند روز کے لیے کرفیو کھلتا تھا اور شرپسند طبقہ شرارت کرتا تھا اور پھر کرفیو لگ جاتا تھا، جس کا وہاں کے ذمہ دار لوگوں نے یہ سبب بتایا تھا کہ براس کے برتنوں کی صنعت جو ملک اور بیرون ملک میں مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور وہی ایکسپورٹر بھی ہیں اور وہی بناتے اور بنواتے بھی ہیں، وہ صنعت ان کے ہاتھ سے لینے کے لیے یہ خونی کھیل کھیلا جارہا ہے اور آخر کار اسے اس میں کامیابی مل گئی اور مراد آباد پیتل نگری بن کر پیلے ہاتھوں میں چلا گیا۔

مراد آباد میں ایک سال اس لیے تھا کہ مراد آباد کی ایک تاریخ اور اس کا اپنا ایک مزاج تھا۔ یہی معاملہ کشمیر کا ہے کہ اس کابھی ایک اپنا مزاج اور تاریخ ہے۔ 25؍ دسمبر 2015ء کو میری نواسی کا نکاح تھا جو اپنی ز ندگی کے روز اول سے جدہ (سعودی عرب) میں رہتی ہے، اس کے ماں باپ نے ہر اس عزیز اور دوست کی دل کھول کر خدمت کی ہے جو حج کے لیے گئے یا عمرہ کے لیے گیا۔ اسی محبت کے جواب میں ہر کوئی شریک ہوا۔ سری نگر کا ایک خاندان باپ ماں اور بیٹا بیٹی بھی میرے بچوں کی محبت کی وجہ سے آئے۔ یہاں سے واپس جانے کے بجائے انھوں نے فرمائش کی کہ کسی ایجنسی سے انتظام کرادو ہم چاروں عمرہ کرنے کے بعد واپس جانا چاہتے ہیں۔ میاں ذو النون نے ا یک دوست کی ایجنسی سے انتظام کرادیا۔ وہ جس فلائٹ سے جانے والے تھے اسی سے میرے وہ بیٹے بھی جانے والے تھے جو نکاح میں شرکت کرنے کے لیے مدینہ سے آئے تھے۔

جدہ میں جیسے ہی جہاز اترتا ہے اس کے منتظم ان کو الگ کردیتے ہیں جو سعودی عرب میں ہی کام کرتے ہیں اور ان کو الگ کردیتے ہیں جو عمرہ کے لیے آئے ہیں۔ جدہ میں سب الگ الگ ہوگئے، جیسے ہی عمرہ کا ارادہ کرنے والوں نے کائونٹر کی خانہ پری کے بعد باہر قدم رکھا ،…کے کارکنوں نے عمرہ والوں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لئے اور بس میں بٹھا دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب واپس جاؤ گے تو مکہ میں فلاں آدمی سے پاسپورٹ لے لینا جس کا نمبر یہ ہے، یہ سن کر سب تو خاموش رہے کشمیری خاتون نے کہا کہ ہم اپنے پاسپورٹ نہیں دیںگے، ہم اپنے پاس ہی رکھیں گے، بات بڑھی تو انھوں نے کہا کہ یہ تو ہم تمہارے کسی افسر کو بھی نہیں دیں گے۔ ہم نوکری کرنے نہیں آئے ہیں، عمرہ کرنیںگے اور کمشیر واپس جائیںگے، لیکن وہ کسی طرح نہیں ماے تو خاتون نے چیل کی جھپٹا مار کر وہ 14 پاسپورٹ جو دوسروں کے تھے چھین لئے، اور دھمکی دی کہ اگر ہمارے چاروں پاسپورٹ واپس نہیں کروگے تو میں یہ سب پاسپورٹ پھاڑ دوںگی۔ صورت حال نازک ہوگئی مقابلہ ایک کشمیری خاتون سے تھا، جو بوڑھی بھی نہیں تھی، کوئی غیرمرد اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔

اتفاق سے ڈرائیور پاکستانی تھا اور برسوں سے وہاں رہتا تھا، اس نے کارندے سے کہا کہ ان کے پاسپورپ واپس کردو، یہ جو کہہ رہی ہیں وہ کردیںگی۔ یہ کشمیری ہیں جو آزادی کے بعد سے نہیں ہمیشہ سے راجہ اور اس کی فوج سے لڑتے رہے ہیں۔ یہ ڈرنا نہیں جانتے اس لیے ان کی مان لو اور انھوں نے چاروں پاسپورٹ واپس لے گئے۔ کل پھر ایک 12 برس کے معصوم بچہ کی موت پر کرفیو لگا دیا گیا ہے اور حالت یہ ہوئی کہ عیدالاضحی کی نماز بھی نہیں ہوئی اور اب خبریں آرہی ہیں کہ محرم کے جلوس بھی نہیں نکل رہے ہیں۔ ستمبر جو بارش کا آخری مہینہ ہے وہ بھی گذر چکا ہے اور اکتوبر وہ مہینہ ہے جب سیاوں س کشمیر کا چپہ چپہ بھرا ہوا ہوتا ہے، لیکن کشمیری جان دے دیں گے لیکن ’’توبہ ہماری توبہ‘‘ نہیں کریںگے۔ اس لیے کہ ان کا ایک مزاج ہے ا ور ان کی ایک تاریخ ہے۔

ایک مہینہ میں دوسری بار جب وزیر داخلہ سری نگر گئے تھے تو انھوں نے بار بار کہا تھا کہ کوئی وزیر داخلہ ایک مہینہ میں دو بار ایک جگہ نہیں جاتا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم جنت کو جہنم نہیں بننے دیں گے لیکن جہنم تو اسے وہ بنا رہے ہیں جو گولی چلا رہے ہیں۔ صرف دو سال پرانی بات ہے کہ لندن میں عوام بھڑک گئے تھے۔ احتجاج نے آخری شکل اختیار کرلی تھی۔ مار کاٹ بھی ہونے لگی اور لوٹ مار بھی۔ لیکن پولیس کو لاٹھیاںبھی نہیں دی گئیں۔پولیس کے تمام بڑے افسروں نے درخواست کی کہ اگر سختی سے نہیں روکا گیا تو لندن تباہ ہوجائے گا، تب جا کر وزیر اعظم نے ربڑ کی گولی چلانے کی اجازت دی تھی، صرف اس لیے کہ ا حتجاج کرنے والے بھی حکوت کے بیٹے تھے۔

ہندوستان میں کون ہے جو یہ نہیں کہتا کہ کشمیر اٹوٹ حصہ ہے۔ یعنی جسم و جاں کا ایک ٹکڑا ہے، پھر یہ کیا ہورہا کہ 91لاشیں گرچکی ہیں اور خبرہے کہ ہزاروں زخمی پڑے ہیں جن میں وہ بھی ہیں جن کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ کشمیریوں کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔ جگموہن نام کے گورنر نے بھی ایسے ہی قبرستان کی آبادی بڑھائی تھی۔ پنڈت نہرو سے لیکر راجیو گاندھی تک سب نے اپنی اپنی کرلی، لیکن کشمیری پنڈت ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ آزادی۔ یہ حقیقت ہے کہ مٹھی بھر لوگ پاکستا ن سے محبت کرتے ہیں لیکن اس سے زیادہ ہندوستان سے محبت کرتے ہیں لیکن اکثریت آج بھی ان کی ہی ہے کہ ’’ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کو‘‘۔ جس پر نہ ہندوستان تیار ہوا ہے اور نہ ہوگا اور جب شیخ عبداللہ نے گردن ڈال دی اور مفتی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے تو کون ہے جو ان ذہنیت کو تبدیلی کردے۔

ہم جانتے ہیں کہ کشمیری اپنا مطالبہ نہیں چھوڑیں گے لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ مصلحت کے تحت اپنا رویہ نرم کردیں اور جیسے تیسے 2019گذار دیں۔ اس کے بعد جو حکومت آئے اسے دیکھیں، یہ کیا ضروری ہے کہ 2016میں ہی موت اور زندگی کا فیصلہ کرلیا جائے۔ صرف ایک کو دہشت گرد کہنے نہ کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ کیا وہ نہیں دیکھ رہے ہندوستان کے ہر صوبہ میں علماء کرام اور مفتیان عظام بھی دہشت گرد قرار دے کر بند کئے جارہے ہیں اورمولانا ارشد میاں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ بے قصور ثابت کرکے باعزت بری کرائیں، صبر اور دعاؤں کی طاقت پر ایمان والوں کو اس پر عمل بھی کرنا چاہیے، اس لیے کہ صرف یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے پہاڑ بھی ہل سکتے ہیں۔ سو (100) دن تک کام بند رکھنا تو اقتصادی خود کشی ہے۔ خدا کے لیے جنت کو جہنم نہ بننے دو۔’’ ان اﷲمع الصابرین‘ ‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔