اتر پردیش کا اسمبلی الیکشن اور مسلمان

عبدالعزیز

بھارتیہ جنتا پارٹی جس قوت اور طاقت کے ساتھ اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہی ہے اس کے مقابلے میں دوسری پارٹیاں بدقسمتی سے نہیں کر رہی ہیں اور مسلمان جن کو بی جے پی نشانہ بنا کر کمزور اور تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور جس کی انتخابی پالیسی اور حکمت عملی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈہ کرکے فرقہ پرستی کے زہر کو پھیلایا جائے اور Polarization کے ذریعہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی جائے ان کی کوئی واضح پالیسی اور حکمت عملی سب سے کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ بہار کا فارمولا مسلمانوں کو اتر پردیش میں بھی اپنانا چاہئے۔ ایسی طاقت یا ایسے اتحاد کے حق میں فیصلہ کرلینا چاہئے جو بی جے پی جیسی فرقہ پرست اور اقلیت دشمن پارٹی کو ہرا سکے۔
مسلمانوں کی جو ملائم سنگھ یا ان کی پارٹی سے امیدیں تھیں وہ ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ کوئی امید پوری نہیں ہوئی بلکہ سماج وادی پارٹی کی حکومت میں مسلمانوں کو وہی دن دیکھنے پڑے جو گجرات کے مسلمانوں یا فرقہ پرستوں کی دوسری ریاستوں میں دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کو کئی بار آزما لیا گیا ہے، اسے پھر آزمانا جہالت اور حماقت ہوگی۔ اس لئے ملائم اور ان کی پارٹی جو بہار میں بھاجپا کو کامیاب دیکھنا چاہتی تھی اور نتیش اور لالو کے اتحاد کو ناکام بنانے کیلئے کوشاں تھی وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اتر پردیش میں بھاجپا کے خلاف کوئی اتحاد وجود میں آئے اور فرقہ پرست پارٹی ناکام ہو۔ اس پارٹی پر خدا کا عذاب اور قہر شروع ہوچکا ہے اور اسے مظفر نگر اور اترپردیش کے دیگر فساد زدہ علاقوں کے مسلمانوں کی بد دعا لگ گئی ہے ، وہ شاید ہی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے بچ سکے۔ اب معاملہ کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کا ہے۔ مسلمانوں کو ان سے اتحاد کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔ مسلم سیاسی جماعتوں کے محاذ یا اتحاد سے بی جے پی کو دھچکا پہنچانا یا کمزور کرنا مشکل ہے۔ اگر اتحاد یا محاذ وجود میں آیا ہے تو اسے کسی اتحاد یا پارٹی سے مل کر کوئی قابل عمل پالیسی یا حکمت عملی طے کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کی پارٹیوں کے چند ایم ایل اے ہوجائیں تو اچھی بات ہے مگر مسلم اتحاد بی جے پی کیلئے سود مند ہوگا۔
دوسری بات یہ سننے میں آرہی ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اتر پردیش میں الیکشن لڑنا چاہتی ہے ، اس کا استقبال مسلمان کریں یا نہ کریں بھاجپا ضرور کرے گی کیونکہ اسد الدین اویسی یا ان کے لوگ جس طرح کی تقریریں کرتے ہیں اس سے بھاجپا کی فرقہ پرستی کو جلا ملتی ہے۔ بھاجپا مسلم فرقہ پرستی کو ہمیشہ خوش آمدید کہنے کیلئے تیار ہے کیونکہ اس سے انھیں ہندوؤں کو متحد کرنے میں مدد ملتی ہے۔ بہار کے مسلمانوں نے اویسی یا ان کی پارٹی کو گھاس نہیں ڈالا جس کی وجہ سے فرقہ پرستی کے خلاف اتحاد کو تقویت ملی اور مسلم فرقہ پرستی کو بڑھاوا نہیں ملا۔ فرقہ پرستی خواہ ہندوؤں ک طرف سے ہو یا مسلمانوں کی طرف سے، نہ ملک کیلئے اچھا ہے اور نہ ہی کسی فرقہ اور مذہب کیلئے سود مند ہے۔ فرقہ پرستی ایک لعنت ہے جس سے مسلمانوں کو بچنا چاہئے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اتحاد المسلمین اور بھاجپا میں درپردہ گٹھ جوٹ ہے۔ میں اسے تسلیم نہیں کرتا مگر اس حقیقت کو مانتا ہوں اور میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ بھاجپا کے لوگ ہر جگہ مجلس اتحاد المسلمین کے وجود کو Welecome (خوش آمدید) کرتے ہیں۔ کلکتہ میں ایک فورم ہے جس کے چیئرمین اوپی شاہ ہیں ۔ وہ ایک سمپوزیم بہت پہلے کر رہے تھے جس میں مغربی بنگال کے گورنر بھی مدعو تھے۔ شاہ صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں کس کو بلایا جائے۔ میں نے کہاکہ یہ آپ کا کام ہے جس کو چاہیں دعوت دیں، جس کو چاہیں دعوت نہ دیں۔ اس پر انھوں نے بھاجپا کے ایک ایم ایل اے کا نام لیا اور کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ اسد الدین اویسی کو بلایا جائے۔ یہ سن کر مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ بھاجپا کو فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکانے کیلئے مسلم فرقہ پرستی کا تیل ہی مطلوب ہے۔ مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ فرقہ پرستی سے نہیں کیا جاسکتا۔
برصغیر کی تاریخ کے تلخ تجربہ کو مسلمانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جن لوگوں نے فرقہ پرستی کے نام پر ملک حاصل کیاآج ان کے ملک کا حال کتنا برا ہے۔ وہاں نہ جمہوریت کی جڑ مضبوط ہوسکی اور نہ ہی جہالت اور غریبی کو ختم کیا جاسکا۔ اسلام یا حق پرستی اس ملک میں اتنا بھی نہیں ہے جتنا کہ اس نام نہاد سیکولر ملک میں ہے۔ پاکستان اپنے آپ کو بھی بچا نہ سکا۔ دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ پنجابی اور بنگالی، اردو اور بنگلہ زبان نے ان کے رسمی اسلام کو کھا لیا اور آج بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے، اس سے اللہ کی پناہ وہاں اسلام پسندوں کا جینا حرام ہے اردو زبان تو حرف غلط کی طرح مٹا دی گئی۔ پاکستان پورے طور پر دہشت گردی کے نرغے میں ہے دہشت گردوں کا ایک طبقہ پاکستانی فوج سے نبرد آزما ہے۔ اور فوج اپنے ملک پر کچھ اس طرح قابض ہے کہ جمہوریت کشی اس کا شیوہ بن چکا ہے۔ بہر حال فرقہ پرستی کسی مذہب، کسی ملک اور کسی گروپ یا جماعت کیلئے راس نہیں آتی ۔ بھاجپا فرقہ پرستی کے ذریعہ بر سر اقتدار آئی ہے۔ ہندستان اور ہندستان دونوں کو برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ دیریا سویر اگر اس سے ملک کے باشندوں کو اس سے نجات نہیں ملتی تو انسانیت کو زبردست خطرہ لاحق ہوگا اور ملک ایک بڑے خطرہ سے دو چار ہوگا۔ سب سے زیادہ نقصان ملک کے باشندوں کا ہوگا۔ اس فرقہ پرست پارٹی کو بھی ایک دن اپنے ظالمانہ کردار اور رویہ کا مزہ چکھنا ہوگا۔
اتر پردیش اس وقت بھاجپا کا نشانہ ہے۔ کبھی گائے، کبھی ہندوؤں کا انخلا، کبھی طلاق ثلاثہ، کبھی سرجیکل اسٹرائیک جیسے مسائل کو چھیڑ کر فرقہ پرستی کے دم پر الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کا ووٹ اگر تقسیم ہوا تو اس میں سراسر بھاجپا کو فائدہ ہوگا، لہٰذا ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ ہو اور ایسی پارٹی یا اتحاد کے حق میں مسلمانوں کے ووٹ پڑے جو بھاجپا کی فرقہ پرستی کو شکست فاش دے سکے۔ مایا وتی مسلم اور دلت کے اتحاد پر زور دے رہی ہیں۔ اگر اس اتحاد میں کوئی اور سیکولر پارٹی نہ بھی شامل ہو تو میرے خیال سے اس اتحاد کو کامیاب بنانے کی کوشش شروع کر دینا چاہئے۔ مایاوتی نے کچھ کام اپنی حکومت کے دور میں کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر لاقانونیت اور فرقہ وارانہ فساد کو برپا ہونے نہیں دیا۔ مسلمانوں کو کچھ ملے یا نہ ملے اگر وہ فساد اور تباہی و بربادی سے بچے رہیں۔ جب بھی وہ پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ اپنی فلاح اور ترقی کیلئے کچھ کام کرسکتے ہیں فساد نے تو مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں کو ختم کر دیا۔ اس کے نام و نشان کو مٹادیتا۔ مظفر نگر کے مسلمانوں کے تیس بتیس گاؤں بالکل ویران ہوگئے۔ آج وہاں مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ مظفر نگر کے 75 ہزار فساد زدگان آج بھی بے یارو مددگار ہیں۔ پریشان حال لوگوں کا کہیں صحیح طور پر ٹھکانہ نہیں ہے۔ مظفر نگر جیسا بڑا تو نہیں مگر دو ڈھائی سو فسادات اتر پردیش کے دیگر علاقوں یا اضلاع میں اکھلیش حکومت کے دوران ہوئے ہیں۔ وہاں کے لوگ بھی پریشان حال ہیں۔ ظالم یا ظالم حکومت کا ساتھ دینے والا ظالم ہوتا ہے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔