اترپردیش کا اسمبلی انتخاب اور مسلم قیادت!

اتر پردیش کا اسمبلی انتخاب ہندوستان کی سیاست میں  کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ملک بھرکے مسلمانوں  اور سیکولرلوگوں کیلئے بھی بڑی آزمائش کا مقام بھی رکھتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انکا ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہواور ذات ،پات اور کچھ ذاتی فائدے کے بنیاد پر انکے ووٹ نہ بٹنے پائے۔ غور طلب ہے کہ اترپردیش میں  مسلمانوں  کی تعدادسرکاری سروے کے مطابق تقریبا 19%اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق 22%ہے۔ یہاں  80 پارلیامانی حلقہ میں  سے53 اور403اسمبلی میں  سے 312 حلقہ ایسے ہیں،  جہاں  انکا اثر و رسو خ ہے اور ان میں  کم سے کم 209 اسمبلی ایسے ہیں  جہاں  مسلمان اپنے من کے مطابق زیادہ سے زیادہ مسلم ممبران اسمبلی میں  بھیج سکتے ہیں،  جس سے انکے من پسند حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے مسلمانوں  میں نیتا تو ضرور ہیں۔  لیکن ان میں  کوئی انکا لیڈر نہیں  بن پاتا ہے اس بنا پر پنچایت سے لیکر اسمبلی و پارلیا منٹ تک مسلم نمائندگی میں  کافی کمی آئی ہے۔ ا س مضمون میں  ہم نے 2014 کے لوک سبھا اور 2012 کے اسمبلی انتخاب کا جاٹزہ لینے کی کوشش کی ہے جس سے مسلم رہنمائوں  کو اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب کیلئے منصوبہ بنانے اور خاکہ تیار کرنے میں  آسانی ہوسکتی ہے۔

اتر پردیش کی اسمبلی انتخاب میں سماجوادی پارٹی ،بی ایس پی ،کانگریس اور بھاجپاکے ساتھ مسلم پارٹیاں  بھی زور آزمائی کریگی۔ بالعموم یہا ں  کے مسلمان بھا جپا کے مقابلے سیکولر امیدوار کوحمایت کرتے ہیں۔  وہ یہاں  کے53سیٹوں  کے نتائج کو متاثر کرتے ہیں  جبکہ کوئی خاکہ تیار کیا جائے تو یہاں  سے تقریبا 15-18مسلم پارلیامنٹ کی راہ دیکھ سکتے ہیں۔  تاہم مسلمانوں  کا ووٹ زیادہ ترسماجوا دی اور بہوجن پارٹی کو جاتا رہا ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں  مسلما نوں  نے کھل کر سماجوادی پارٹی کا ساتھ دیا تھااور اسی وجہ کر اسے 224 سیٹیں  حاصل کرنے میں  کامیابی ملی تھی۔ لیکن آج تک ان مسلمانوں  کے مسائل جوں  کے توں  ہیں۔ اکھلیش یادو فرقہ وارانہ فساد پر قابو پانے میں  ناکام ثابت ہوئے ہیں۔  اسکے علاوہ انکے بنیادی مسائل پر موجودہ حکومت نے بالکل ہی توجہ نہیں  دی ہے، جسکے وجہ کروہاں  کے مسلمانوں  کو سماجوادی پارٹی سے بے زار ہونا لازمی ہے۔ دو سری طرف بی ایس پی کے ماضی کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں  وہ بھاجپا کے ساتھ ساز باز نہ کرلے ۔حالانکہ گزشتہ کچھ سالوں  سے کئی مسلم پارٹیاں  بھی میدان میں  خم ٹھوک کر کھڑی ہوگئی ہیں۔  ان میں  نیشنل لوک تانترک پارٹی، پیس پارٹی(لیکن ڈاکٹرایوب اس پارٹی کو مسلم پارٹی نہیں  مانتے ہیں  اور نہ ہی وہ مسلمانوں  کے کوئی مسئلہ سے دلچسپی رکھتے ہیں ) ،علماء کونسل، مسلم مجلس، پرچم پارٹی ،اتحاد ملت پارٹی اور ویلفیر پارٹی کا نام اہم ہے ظاہر ہے عین الیکشن کے وقت منظر عام پر آنے والی ان پارٹیوں  سے مسلمانوں  کا کچھ بھلاہو یا نہ ہو لیکن بھاجپا کا بھلا ضرور ہوجائگا اسی وجہ کر اکثر مسلم رہنما ئوں  کا نام بھاجپا کے ایجنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قیادت اور خصوصی طور پر مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لاء کے قائدین ان پارٹیوں  کے درمیان اس بات پر مفاہمت کرا د یں  کہ وہ ان ہی سیٹوں  پر اپنی قسمت آزمائی کریں  جہاں  سے انکا جیتنا یقینی ہو۔

اگر 2012کے اسمبلی انتخاب کا جائزہ لیں  تو اس میں  کل 67مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والوں  میں  63 امیدوار مسلم تھے یعنی 130لوگ اسمبلی کے ریس میں  تھے جن میں کچھ ایسے امیدوار بھی تھے جو چند سو ووٹوں  سے ہی ناکام رہے تھے اگر مسلم ووٹراور قائدین کوئی حکمت کی راہ اختیار کر یں  توانہیں  ایسی ناکامی کا سامنا نہیں ہوگا اور اس طرح کم از کم 39اور مسلموں  کو ممبر اسمبلی بنا سکتے تھے یعنی اترپردیش اسمبلی میں  مسلمانوں  کی تعداد 105سے 115تک جاسکتی تھی واضح رہے کہ رامپور میں  مسلما ن 52%،میرٹھ میں  53 ،مرادآبادمیں 46 ،امروہہ میں  44 ، بجنورمیں  42 ، کیرانہ میں  39،  مظفر نگر میں  38، سنمبھل میں  36 ، بریلی میں  25 ،سرسوتی میں  23 ، جونپور میں  21 ، بدایوں ،علی گڑھ ،اعظم گڑھ ،سیتا پور،کھیری ، ڈومریا میں  20% ،جبکہ فروخ آباد ،سلطانپور، ورانسی ،غازی پور ،گھوسی ، میں   18-19% مسلمان بستے ہیں  لیکن مسلمانوں  کا ووٹ بٹ گیا اور وہ اپنی پسند کا امیدوار نہیں  چن سکے۔

 گزشتہ انتخاب میں سماجوادی پارٹی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس تینوں  پارٹیاں  مسلمانوں  کا ہمدرد اور بھاجپا کو انکا دشمن گردانتے ہیں  اور خود کو مسلمانوں  کے ووٹوں  کا سب سے زیادہ حقدار مانتی ہیں  اور انکا دعوی ہے کہ آج کی تاریخ میں  وہ مسلمانوں کے محافظ ہیں جس کے وجہ کر مسلمان اور سیکولر ووٹوں  کا اچھی طرح بٹوارہ ہوا جسکا فائدبھاجپاکو ملا تھا۔ اگر ایک نگاہ 2012 کے اسمبلی انتخاب کے نتائج پر ڈالی جائے تو67 مسلم اسمبلی میں  آسکے جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والوں  کی تعداد63تھی سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں  5 2مسلمان سماجوا دی سے 19بھاجپاسے، 8بہوجن سے اورایک مسلمان کانگریس سے ہار کر اسمبلی سے باہر رہنے پر مجبور ہوئے تھے اس سے ایک بات یہ اور بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی مسلمان کے مقابلہ میں  کوئی آزاد امیدوار مضبوط نظر آتا ہے تو وہ انہیں  اسمبلی میں  بھیجنا بہترسمجھتے ہیں  اوروہ کسی مسلم کے بدلے اپنی پارٹی سے بھی بغاوت کراسکتے ہیں۔

 2014کے انتخاب کا جائزہ لیں  تو بہ بانگ دہل کہا جا سکتا ہے کہ اگر انتخاب کے قبل سیکولر پارٹیوں  کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہو جا تا تو انہیں  وہاں  کی سبھی پارلیامانی سیٹ حاصل ہوسکتی تھی واضح رہے کہ اس پارلیامانی انتخاب میں  بھاجپا اور اسکے اتحادیوں کو محض 42% ووٹ ملے تھے جس کے وجہ کر بھاجپا کو 71 اور اسکے اتحادی اپنا دل کو دو 2سیٹیں  ملی تھی جبکہ سماجوادی پارٹی کو 22% ووٹ لیکر صرف پانچ 5سیٹ پر کامیابی ملی تھی  بہوجن سماجپارٹی  20%ووٹ لیکر ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں  ناکام رہی توکانگریس صرف 8%ووٹ لے کر رائے بریلی سے سونیا گاندھی اور امیٹھی سے راہل گاندھی کی سیٹ بچانے میں  کامیاب ہوئی تھی اگریہ پارٹیاں  متحد ہو جاتیں  تو 50% ووٹ حاصل کرنے کے بعد ساری سیٹیں  انہیں  کے حق میں  آجاتی یعنی بھاجپا کا صفایا ہوجاتا اگر 2014کے لوک سبھا انتخاب کے بنیاد پربہوجن سماج پارٹی ، کا نگریس اور دیگر پارٹیوں  کے ووٹ کو ملا دیا جات ہے تو 36%فیصد ووٹ آتا ہے جبکہ مسلمانوں  کا ووٹ آدھا ووٹ سماجودی پارٹی کو نہ مل کر صرف بہوجن و کانگریس میں  جاتا ہے تو 10%فیصد اور بڑھنے کے بعد یہ تناسب  46% فیصد ہوجاتا ہے اس طرح بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کو نہ صرف نقصان بلکہ انکا صفایا ہونا طے ہے اسی طرح 2012کے اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بنا پر بہوجن سماج پارٹی26%، کا نگریس کی 13.26%،پیس پارٹی کا 6.34%، قومی ایکتا دل کی 5.23%اتحاد ملت کی 2.35%اور آر ایل ڈی کے 2.33% ووٹوں  کو یکجا کر دیا جائے تو 55.5% فیصد ووٹ ہوجاتا ہے۔

بہار کے نقشہ قدم پر کانگریس ان پار ٹیو ں  کے ساتھ ملکر انتخاب کی تیاری کرے تو یوپی کا نقشہ کچھ اور ہی ہوگاایک بات تو طے ہے کہ اسکے بنا پر کم سے کم مسلمانوں  کا ووٹ صرف سیکولر کی جانب جائیگا تو اوران کا حشر ایسا نہیں  ہوگاظاہر سی بات ہے اس انتشار کا فائدہ بھاجپا اور اسکے اتحادیوں کو ہواتھا اور سیکولر پارٹیو ں  کی ہوا نکل گئی آئندہ اسمبلی انتخاب میں  بھی بھاجپا یہی چاہتی ہے کہ سیکولر اور مسلم ووٹوں  کو منتشر کیا جائے دوسری صورت یہ بھی ہے کہ مسلم پار ٹیوں  کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے اور انہیں  لیکر کانگریس اور بہوجن پارٹی کے ساتھ ایک مہا گٹھبند ھن کی تیاری کی جائے اس طرح مسلما نوں  کا ووٹ صد فی صد ایک طرف ہو جائے گا اسکی وجہ یہ ہے کہ اسوقت مسلمان ملائم سنگھ اور انکی حکومت سے بالکل ناراض ہیں  اور انکے ہمنوا یعنی لالو پرشاد یادو اور نیتش کمار بھی بہار کے انتخاب میں  انکے رویہ کو لیکر کافی ناراض ہیں  بلکہ کچھ تجزیہ نگاروں  کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتر پردیش میں  لالو پرشاد اپنے داماد تیج پرشاد یادو کو لیکر کہیں  راشٹریہ جنتا دل یا کسی سیکولر محاذ کی تیاری کر سکتے ہیں۔

جہاں  مسلمانوں  کی آبادی 20% سے 35% فیصد ہے لیکن وہ اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کرنے میں  ناکام رہے کیو نکہ انتخاب سے قبل انہوں  نے متحدہ حکمت عمل تیار کرنے میں  کوئی دلچسپی نہیں  لی تھی اور نہ ہی ووٹروں  کی رہنمائی کرنے کی طرف کوئی توجہ کی تھی اسکے علاوہ ٹکٹ لینے والے اور انکے حا می بھی صرف یہ نہ سوچیں  کہ انہیں  ذاتی طور پر جیتنا یا کسی کو جیتانا کافی اور لازمی ہے بلکہ یہ سوچیں  کہ ملت کی جیت کس لائحہ عمل میں  ہے اسکے ساتھ ہی ملک کے باقی صوبہ کے لوگوں  کو بھی اترپردیش کو اپنے حال پر چھوڑدینا ملک کیلئے بہتر نہیں  ہوگا بلکہ انہیں  بھی انکے درمیان جاکر اور کوئی راہ  ہموار کر کے انکے درمیان اتحاد کا کوئی راستہ نکالنا چاہئے اسی سے مثبت فرق پڑنے کی امید ہے جس طرح دہلی اور بہارکے مسلمانوں  نے متحد ہوکر بھاجپا کے خلاف زیادہ سے زیادہ ووٹ دیکر سیکولر پارٹیوں  کو کامیاب بنایا تھا اسی طرح کی مثال اترپردیش کے لوگوں  کو بھی قائم کرنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔