اتر پردیش کے مسلمان کیا کریں؟

ہندوستانی سیاست مسلمانوں  کی شرکت کے بغیر بے معنی ہے، ملک میں  25 کروڑ عوام کو نظر انداز کر کے ترقی کی بات کرنا بیو قوفی ہے، ہندوستان میں  ساری سیاسی پارٹیاں  مسلمانوں  کے ووٹ بینک کو اپنے لئے سب سے بڑا ہتھیار سمجھتی ہیں ، حقیقت یہی ہے کہ جنگ آزادی سے لے کر اب تک تمام پارٹیوں  نے مسلمانوں  کے ووٹ حاصل کر کے حکومت کی ہے، مگر مسلمانوں  کو ملا کیا ؟ یہی سب سے بڑا سوال ہے، 70 برس تک ہمیں  استعمال کیا گیا، سرکاری محکموں  سے چن چن کر نکالا گیا، یہی حالت ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بتایا کہ مسلمانوں  کی حالت دلتوں  سے بھی بدتر ہو گئی ہے، اتر پردیش کے حالیہ الیکشن میں  سب کی نظریں  مسلمانوں  کے ووٹ بینک پر ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس طرف کروٹ لیتا ہے، اتر پردیش کے پچھلے الیکشن میں  سماج وادی پارٹی نے اپنے بل بوتے پر حکومت بنائی تھی، مگر اس بار کانگریس کے اتحاد سے الیکشن میں  جیت حاصل کرنا چاہتی ہے.

اتر پردیش کے اس الیکشن میں  دیکھا جائے تو سب سے خراب حالت سماج وادی پارٹی کی ہے، کیونکہ اس کی 5 سالہ مدت اچھی نہیں  رہی، جس کی وجہ سے عوام، سماج وادی پارٹی کو ہار کا مزہ چکهانا چاہتی ہے، اسی ڈر سے اکهلیش نے راہل گاندھی سے مل کر اتحاد کر لیا، یعنی اکهلیش پهر سے اقتدار میں  آنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں ، اکهلیش کی مدد کے لئے کانگریس ہے، تو دوسری طرف اکهلیش کی بیوی اور اس کا گھرانہ، یادو خاندان بهی جی جان سے اکهلیش کے ساتھ لگ گیا ہے، تو دوسری طرف مایاوتی ہیں ، جو مسلمانوں  کی طرف امید بهری نظروں  سے دیکھ رہی ہیں  اور ان کو پورا یقین ہے کہ اگر مسلمانوں  نے متحدہ طور پر ہمارے حق میں  فیصلہ کیا، تو ہمیں  اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے سے کوئی بھی نہیں  روک سکے گا۔

اتر پردیش کی حکومت نے اپنے پچھلے الیکشن میں  مسلمانوں  سے کئی وعدے کئے تھے، مگر ایک بهی وعدہ پورا نہیں  کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ جامع مسجد، نئی دہلی کے شاہی امام، احمد بخاری، یوپی حکومت کو بار بار یقین دہانی کراتے رہے کہ مسلمانوں  کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں ، یہی نہیں  بلکہ شاہی امام نے یوپی حکومت کو خطوط بهی لکھے، مگر نتیجہ ندارد، یہ بات بھی سچ ہے کہ یوپی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں  یوپی کو دنگوں  سے بھر دیا، جس کے نتیجے میں  مظفر نگر بهیناک طریقے سے جل اٹھا، مگر یوپی حکومت بے خبر رہی اور سیفی میلہ کا انعقاد کر کے جشن بهی منایا، ابھی آج کی تازہ خبر اردو انقلاب میں  مظفر نگر کے بارے میں  چھپی ہے، جس میں  کہا گیا ہے کہ مظفر نگر کے فساد زدگان کو ہراساں  کرنے میں  ریاستی میکانزم بهی شامل ہے، اور ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے میں  یوپی حکومت ناکام رہی ہے، غرض کہ ملائم سنگھ جیسے بڑے نیتا اور مسلمانوں  کے ہمدرد کہے جانے والے عین الیکشن کے وقت بیان دے رہے ہیں  کہ ” اکهلیش مسلم مخالف ہے”، اگر ملائم سنگھ نے اس طرح کی بات کہی ہے تو سچائی تو ضرور ہے، اس کی مثال راجہ بھیا بهی ہے، جو مجرم ہونے کے بعد بهی اکهلیش حکومت کا داہنا ہاتھ ہے۔

اتر پردیش کے مسلمانوں  کی حالت تشویشناک ہے، سیاسی پارٹیوں  نے 18 فیصد ووٹ لے لے کر ان کی ترقی کے لئے ٹھوس قدم نہیں  اٹھایا، تمام سیاسی پارٹیوں  نے ان کے ساتھ غداری کی، حیرت تو یہ ہے کہ قاتلوں  کو 15 لاکھ روپےء دےء جاتے ہیں  اور سرکاری اعزازات کے ساتھ کفن دفن کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، ان تمام باتوں  سے پتہ یہی چلا کہ تمام پارٹیوں  نے مسلمانوں  کے ووٹ پر اقتدار حاصل کیا، مگر ان کی فلاح و بہبود کے لئے کبهی سنجیدہ قدم نہیں  اٹھایا گیا، کانگریس، بی جے پی، سماج وادی پارٹی، اور بہوجن سماج پارٹی نے بهی ہمیں  نقصان پہنچایا ہے، مگر کسی کے دور اقتدار میں  اگر امن و سکون کی فضا قائم رہتی ہے تو وہ مایاوتی ہیں ، ان کے دور میں  غنڈے سڑکوں  پر دندناتے ہوئے دکھائی نہیں  دیتے، اسی وجہ سے اس بار مختلف تنظیموں  اور شخصیات نے مایاوتی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جامع مسجد، نئی دہلی کے شاہی امام، احمد بخاری نے مسلمانوں  سے مایاوتی کی حمایت کا اعلان، تعلیم، تحفظ اور روزگار کی بنیاد پر کیا ہے، اس کے علاوہ راشٹریہ علماء کونسل، مجلسِ علماء ہند وغیرہ نے بهی مایاوتی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

قارئینِ کرام ! یہ مختلف سیاسی پارٹیوں  کی ایک جھلک تھی، ہم نے یوپی حکومت کا 5 سالہ دنگوں  کا دور بهی دیکھا ہے، مظفر نگر کی تصویریں  آج بھی ہمیں  جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں ، اخلاق کی تصویر آج بھی ہمیں  غمزدہ کر دیتی ہے، 5 سالہ دور میں  ہم نے ترقی تو نہیں  دیکھی البتہ غنڈہ راج ضرور دیکھا، ماءوں  اور بہنوں  کی عزتیں  لٹتے ہوےء دیکھیں ، بچوں  کو آگ میں  جلتے ہوئے دیکھا، اس کے بعد بھی ہم بے بس ہیں ، جب کہ ہم 18 فیصد ہیں  اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھا شخص جس طبقے کا ہے وہ محض 8 فیصد ہیں ، اس کے بعد بھی اتر پردیش کے مسلمان نہیں  سوچتے کہ کیا کریں  ؟ یہ وقت بڑا ہی نازک ہے، مسلمانوں  کو سوجھ بوجھ کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا، تاکہ کم سے کم ہم امن و سکون کی فضا میں  تو سانس لے سکیں ، اور اس طرف توجہ دینی ہوگی کہ ہم 18 فیصد ہیں  اگر متحدہ طور پر فیصلہ کر لیں  تو ملک کی ساری بڑی پارٹیاں  ہمارے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں  گی.. ان شاء اللہ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔