2019 کی تیاریاں!

تبسم فاطمہ

2019 میں کیا ہوگا؟ یہ سوال ابھی سے سر اٹھانے لگا ہے۔ جہاں کانگریس پریشان ہے۔ وہاں علاقائی سطح کی سیاسی پارٹیوں کو بھی مستقبل کے لیے خطرہ نظر آنے لگا ہے۔ وقت کے ساتھ بی جے پی کی بڑھتی ہوئی طاقت نے ان تمام پارٹیوں کو حاشیہ پر ڈال دیا ہے۔ ان پارٹیوں کی مجبوری یہ ہے کہ یہ آپس میں اتحاد کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ کیونکہ ماضی میں یہ پارٹیاں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ لیتی آئی ہیں ۔ اس لیے ووٹرس کا مسئلہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے— ووٹرس نے اس اتحاد کو تماشہ سمجھا تو 2019 میں ان پارٹیوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اس وقت تماشہ کا عالم یہ ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام مظلوم سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھانے کی خواہشمند بھی ہیں اور شک میں گرفتار بھی۔

ان سیاسی پارٹیوں کے سامنے مودی کسی قداور بت کی طرح نظر آتے ہیں جو آج کی تاریخ میں آر ایس ایس اور بھاجپا سے بھی کہیں زیادہ اپنے قد کو بلند کرچکے ہیں ۔ ان تین برسوں میں مودی نے فتح کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ مودی نے کسی کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس طرح اپنے سیاسی رتھ کو جنگ کے میدان میں اتارا، وہاں ان کے مقابل سیاسی پارٹی کا رویہ یہ ہے کہ دن میں آسمان میں تارے نظر آرہے ہیں ۔ مودی نے سیاست، سازش، زور زبردستی، الٹ پھیر، اے وی ایم مشین، یہاں تک کہ ہر اس دائوں کو آزما لیا جہاں حزب مخالف زمین دوز نظر آئے۔ مودی کے سامنے کوئی بھی دوسری سیاسی پارٹی مقابلہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ سیاسی پارٹیوں میں خلفشار وانتشار اس بات سے بھی ہے کہ ان کے  اپنے گھر میں بغاوت کی لہر تیز ہے۔ اور اس بغاوت کو روکنا آسان نہیں ۔

بی ایس پی کو ہی لیجئے۔ ما یاوتی نے ہار کا ذمہ دار نسیم الدین صدیقی کو بتایا۔ صدیقی صاحب نے باغی تیور اپنایا۔ بیان دے ڈالا کہ مایاوتی مسلمانوں کو برا بھلا کہتی رہی ہیں ۔ صدیقی صاحب جب تک مایاوتی خیمے میں رہے، مسلمانوں سے زیادہ مایاوتی کی وفادار ی نبھاتے رہے۔ اب نکال باہر ہوئے تو مسلمان یاد آرہے ہیں ۔ اپنی پارٹی بنا ڈالی۔ لیکن یہ طے ہے کہ صدیقی صاحب کا رویہ نہیں بدلا تو 2019 میں اس کا نقصان مایاوتی کو اٹھانا پڑے گا۔ مایاوتی کی دوسری جنگ اب بھیم آرمی سے ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہاں پوری دال ہی کالی ہے۔ بھیم آرمی کپتان چند شیکھر بی جے پی کے لیے کام کررہے ہیں اور بی ایس پی کو نقصان پہنچا رہے ہیں — یہ مایاوتی کا بیان ہے۔

مایاوتی کے ہاتھ سے مسلمان بھی گئے، اور دلت بھی۔ دلتوں کا معاملہ یہ کہ انتخاب آتے آتے بی جے پی کے بھی ہوجاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آگے ناراض اور باغی دلت بی ایس پی کا ساتھ چھوڑ کر بھیم آرمی پر توجہ کریں ۔ اب بی ایس پی سپریمو کے پاس سیددھا سادا ایک ہی راستہ بچا ہے۔ ایس پی سے ہاتھ ملایا جائے۔ ایس پی کا معاملہ یہ ہے کہ باپ بیٹے اور چچا شیوپال مل کر الگ پارٹی بنانے پر زور دے رہے ہیں تو اکھیلیش ابھی بھی کانگریس اورمایاوتی کے ساتھ مل کر 2019 کی جنگ کو جیتنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ آر جے ڈی سربراہ لالو یادو کی پہل پر 23 برس بعد اتحاد کی یہ کوشش کتنی ثمر آور ہوگی، یہ یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی نہ صرف کٹر مخالف رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو پھوٹی آنکھ بھی دیکھنا برداشت نہیں کرتیں ۔

تیسری طرف مردہ کانگریس بھی ہے جو پارٹی میں جان پھوکنے کے لیے دلتوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی مہم تیز کرنے میں لگی ہے۔ کانگریس ابھی بھی سمجھتی ہے کہ مسلمانوں پر اس کا پہلا حق ہے۔ مودی، آر ایس ایس اور بی جے پی سے ستا ئے گئے مسلمانوں کے پاس کانگریس کو چھوڑ کر دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔ دراصل یہ کانگریس کا مغالطہ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے پاس ان تین، قیامت کے برسوں میں کانگریس کے پاس جانے کی ایک بھی وجہ نہیں ہے۔ کانگریس کی سب سے غلطی یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی کے دبائو میں آکر اس نے سیکولرزم کے نعرے کو خیر باد کہہ دیا۔ ان تین برسوں میں مسلمانوں اور دلتوں پر مسلسل ظلم ہوتے رہے لیکن کانگریس کسی بھی عملی کارروائی کے لیے سامنے نہیں آئی۔ سامنے اس لیے نہیں آئی کہ اسے ہندو ووٹ کھو دینے کا خطرہ اب بھی نظر آرہاہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کانگریسیوں کو صلاح کون دیتا ہے۔ راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کو یہ بتانا چاہیے کہ کانگریس کا مسلمان ووٹ اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ کیونکہ ماضی میں کانگریس نے سوائے خوفزدہ کرنے والی سیاست کے، مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے کاحل نہیں نکالا اور اب ان تین برسوں میں ہندو ووٹوں کے چھن جانے کے خوف سے مسلمانوں کے زخم پر مرحم پاشی کے لیے بھی خود کو تیار نہیں کرسکی۔ ابھی دو برس باقی ہیں ، کانگریس کو سیاسی تجزیہ کی شدید ضرورت ہے کہ اس سے غلطیاں کہاں ہورہی ہیں ۔؟

موجودہ وقت میں مسلمانوں اوردلتوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھتے ہوئے کانگریس پورے ملک میں بی جے پی کے خلاف ماحول بنانے کا کام بہ آسانی کرسکتی تھی۔ گئو رکشکوں کے ظلم، سلاٹر ہائوس کو بند کرنے، طلاق ثلاثہ، ہزاروں مدعے تھے، جسے کانگریس اٹھاکر زمین وآسمان ایک کرسکتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا پر مودی کا قبضہ ہے۔ لیکن کیا میڈیا کانگریس کی بڑی بڑی ریلیوں کو نظرانداز کرسکتی ۔ کانگریس کی ایک آواز پر دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اس ماحول میں اس کا ساتھ دینے کو تیار ہوجاتیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس برے وقت میں بھی کانگریس کے پاس کوئی اسٹریٹجی نہیں ہے۔ راہل اور سونیا سے ناراض کانگریسی بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑ رہے ہیں ۔

مودی اور بی جے پی کو 2019 کے لیے تیاریاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مودی نے اس بار مسلمانوں کو راغب کرنے کے لیے رمضان کی مبارکباد بھی سلیقے سے دی ہے۔ بی جے پی کا مسلم مورچہ عام مسلمانوں کو قریب لانے کے لیے مسلسل اپنی مہم تیز کررہا ہے۔ مودی نے ہندو راشٹر کا ہندو کارڈ کھیلا اور اس وقت ملک کی فضا ایسی ہے کہ عام ہندو مودی کی مخالفت میں کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہے۔ مودی اکیلے تمام سیاسی پارٹیوں پر بھاری پڑ سکتے ہیں ۔ کانگریس کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیاں بھی یہ جانتی ہیں کہ دو سال بعد بھی، 2019 کے انتخاب میں مودی سے مقابلہ آسان نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود مقابلہ کے لیے جو تیاری چاہیے تھی، وہ تیاری کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس نہیں ہے۔

2014 میں کانگریس پہلے سے ہی سپر ڈال چکی تھی۔ 2019 کے لیے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے وہ اپنی شکست تسلیم کرچکی ہو۔اس وقت ملک کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی بساط پر اس وقت تمام مہرے پٹے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ یہ جنگ ملک کی سالمیت، جمہوری اقدار کے تحفظ اور انسانیت کی جنگ بھی ہے۔ اس جنگ میں شکست تب تک قائم ہے، جب تک میڈیا کی حمایت حاصل نہیں کی جاتی۔ مودی کی جنگ کو میڈیا نے ہی کامیاب بنایا ہے۔ اور آج ہندوستانی میڈیا حکومت کے ہر غلط قدم اور ہر نا جائز عمل کو صحیح اور جائز ٹھہرانے کا کام کررہا ہے۔

کیا کانگریس، ایس پی، بی ایس پی اور دیگر سیکولر پارٹیاں کیا ایک بھی میڈیا یا ٹی وی چینل کی حمایت حاصل نہیں کرسکتیں ؟ ایک کا مطلب ہے، آہستہ آہستہ کئی چینلس ان کے ساتھ آجائیں گے۔ طاقتور اتحادی مورچہ بننے کے باوجود میڈیا کو نظر انداز کرکے ہندوستانی عوام تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 2019 میں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہی کانگریس کی ڈوبتی نیا کو بچا سکتا ہے۔ 2019 میں دو برس باقی ہیں ، لیکن سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ جنگ آر پار کی جنگ ہونی چالیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔