مغربی بنگال فرقہ پرستوں کی زد میں: اسے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

مغربی بنگال پر اب سنگھ پریوار کی پورے طور پر نظر ہے کہ اسے کیسے زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے۔ اس پریوار کے پاس صرف ایک ہی حکمت عملی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے جائیں جن سے پولرائزیشن ہو اور بھاجپا کو ہندو قوم پرستی کے نام پر ووٹ ملیں۔ رام نومی ہندوؤں کا ایک مذہبی قسم کا تہوار ہے مگر اسے بھی بھاجپا نے اچک لیا ہے اور اس تہوار  کو فرقہ وارانہ رنگ ہی نہیں دیا بلکہ کلکتہ کے مضافات میں جہاں بھی یوپی، بہار کے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں وہاں فساد برپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ کھردا، تیلنی پاڑہ میں فرقہ پرستوں کو کامیابی بھی ملی۔ مسلمانوں کے کئی گھر لوٹ لئے گئے اور کئی دکانوں کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔ ہندی بولنے والوں کے علاقہ میں کامیابی کی ایک وجہ تو ان کی اکثریت اور دوسری بڑی وجہ بھاجپا کو پولس محکمہ کو بھی فرقہ پرست بنانے میں کامیابی۔ گزشتہ محرم کے موقع پر بارکپور کے کئی علاقے میں بڑے پیمانے پر فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پولس تماشائی بنی رہی۔ نئی ہٹی اور دیگر علاقوں سے تقریباً پانچ سو افراد ڈراور خوف سے اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ مغربی بنگال کی حکومت غیر فرقہ پرست حکومت ہے مگر پولس اگر فرقہ پرست ہوگئی تو حکومت بے دست و پا ہوجائے گی۔ فرقہ وارانہ فساد کو روکنے میں ناکام ہوجائے گی۔ جیسے بارکپور میں ہوا۔ اندازہ تھا کہ ممتا حکومت فساد کی جلد انکوائری کرائے گی اور قصور وار خواہ وردی والے ہوں یا غیر وردی والے انہیں سخت سے سخت سزا دلوانے کی کوشش کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔

یوپی میں بھاجپا کی جیت سے پورے ملک میں فرقہ پرستی کی لہر تیز سے تیز تر ہوگئی۔ مغربی بنگال میں وہ لہر پورے طورپر بہنے لگی ہے۔ ہندی بلٹ میں پولس کو بھی فرقہ پرستوں نے اپنا ہم نوا بنالیا ہے جو لوگ فساد کے مارے ہوتے ہیں جن کا سر و سامان لوٹ لیاجاتا ہے۔ تھانہ میں جب وہ جاتے ہیں تو ان کا شکایت نامہ نہ صرف پھاڑ دیا جاتا ہے بلکہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کو جیل کا ڈر دکھایا جاتا ہے۔ دوسرے لوگ جو ہمت کرکے تھانہ جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی ڈرجاتے ہیں۔

ترنمول کانگریس کی سربراہ محترمہ ممتا بنرجی ہیں وہ یقینا فرقہ پرستی کے خلاف ہیں مگر ان کی پارٹی کے اندر فرقہ پرستوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جو آر ایس ایس اور بھاجپا سے ترنمول میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ان کی ایک ہی کوشش ہے کہ ترنمول کو کمزور کیا جائے اور بھاجپا کو طاقتور بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس میں کچھ کونسلر، ایم ایل اے اور ایم پی شامل ہیں۔ بعض وزراء میں بھی فرقہ پرستی پائی جاتی ہے، اس لئے اگر محترمہ ممتا بنرجی مغربی بنگال کو فرقہ پرستی سے بچانا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے اپنی پارٹی کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی ہوگی کیونکہ ایسے لوگ ہی پولس محکمہ کو بھی فرقہ پرست آسانی سے بنا لیتے ہیں۔ ترنمول کانگریس کو دوسرا اہم کام یہ کرنا ہوگا کہ پولس پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ اوپر سے نیچے تک کے لوگوں میں اگر کسی قسم کی فرقہ پرستی پائی جائے تو اسے حکومت کسی قیمت پر برداشت نہ کرے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ترنمول کانگریس جس طرح سے بھاجپا سے پیش آرہی ہے اس سے بھاجپا کو اپوزیشن کی جگہ بنانے میں آسانی ہورہی ہے ۔ ترنمول بمقابلہ بھاجپا ہوتا نظر آرہا ہے جو ریاست کے حق میں بہت نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اپنے آپ کو متبادل کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

اتر پردیش میں مایا وتی کی حکومت اکھلیش حکومت سے پہلے تھی وہ حکومت اپنی بدعنوانی اور ہریجنوں کی برتری اور جانبداری کی وجہ سے بدنام تھی۔ اکھلیش حکومت فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے بدنام زمانہ ہوگئی۔ مایا وتی اور اکھلیش کی کمزوریوں نے بھاجپا کو آگے آنے کا موقع دیا۔ ٹھیک یہاں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ مارکسی حکومت کے 34سالہ دور کو لوگ بھول نہیں پارہے ہیں۔ دوسری طرف ترنمول کانگریس کے لیڈروں کا شاردا اور ناردا کا معاملہ ایسا آگیا ہے کہ ترنمول کے بیشتر لیڈران بدعنوانی میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ کئی ایسے لیڈر ہیں جو ابھی جیلوں میں ہیں۔ کئی جیل کی ہوا کھاکر باہر آگئے ہیں اور کئی پر سی بی آئی کی نظر ہے۔ اس سے ترنمول کانگریس کی داغ داری ثابت ہورہی ہے۔ ترنمول کانگریس اگر داغ دار ہوجاتی ہے تو حکومت کا اخلاقی چہرہ باقی نہیں رہتا ہے اور جس حکومت کی اخلاقی جرأت ختم ہوجاتی ہے اس کی اخلاقی اور فکری شکست ہوجاتی ہے۔ وہ اندر سے بیحد کمزور ہوجاتی ہے۔ اگر ترنمول کانگریس کو بھاجپا سے مقابلہ کرنا ہے تو اپنی اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنا پڑے گا اور اپنے اندر کے دشمنوں کو پارٹی سے نکالنا ہوگا اور پولس محکمہ کو بھی فرقہ پرستی سے پاک کرنا ہوگا۔ جب ہی فرقہ پرستوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور فرقہ پرستوں کی سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

موبائل: 9831439068azizabdul03@gmail.com

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔