اسرائیلی ریاست:تاریخی نشان عبرت – (15مئی: قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

کوئی ہمارے گھر کے ایک حصے میں آن بیٹھے اور کچھ عرصے بعد اس حصے کی ملکیت کا دعوی کرے اور ہمیں ہمارے گھر سے نکل جانے کو کہے تو ہم اسے کبھی اپنا ہمسایہ تسلیم نہ کریں گے اور اسے کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے۔اسرائیل کا رویہ اس سے بھی شاید بدترین ہے کہ یہودی ایک زمانے تک فلسطین میں ہجرت کر کے وارد ہوتے رہے اور پھر انہوں نے اس علاقے کو بزور وبسازش اپنی ریاست بناکر فلسطینیوں کو وہاں سے نکالنا شروع کر دیا۔ اور تب سے اب تک یہودی بضد ہیں کہ انہیں جائز ریاست تسلیم کیا جائے، ان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوارکیے جائیں اورانہیں اچھا پڑوسی گردانا جائے۔ ﷲ تعالی کی ناشکری، انبیاء علیھم السلام کے قتل اورکتاب اﷲ میں تحریف سمیت بے شمارجرائم کے باعث اﷲ تعالی نے ان یہودیوں کو دنیا کی امامت سے برخواست کر کے توذلت و رسوائی ان پر مسلط کر دی تھی۔ کم و بیش دو ہزار سالوں تک یہ دنیا میں نیست و نابود ہوتے رہے اور کہیں انہیں جائے پناہ میسر نہ آئی۔ جتنی خجالت و خرابی اس قوم نے دیکھی ہے کسی اور قوم کو اتنی غریب الدیاری کی مشقت میں نہیں ڈالاگیا۔ پوری دنیا میں سے ایک جگہ سے نکالے جاتے تو دوسری جگہ ان پر پھٹکار پڑنا شروع ہو جاتی، ہر قوم ان سے تنگ اور ہر ملک ان کی سازشوں سے نالاں تھا یہاں تک کہ ان کا وجود دنیاس کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا اور گزشتہ صدی کے نصف میں پوری دنیا سے ان کا نام و نشان مٹانے کی مہم کا آغاز ہوا جسے ’’ہالوکاسٹ‘‘کہتے ہیں، اس کے بعد قریب تھا کہ یہ دنیا سے نابود ہو جائیں لیکن اﷲ تعالی کی قدرت میں شاید اس نشان عبرت کو قیامت تک باقی رکھنا منظور ہے اس لیے ان کی بچی کھچی نسل کو اسرائیل جیسی جگہ کچھ عرصے کے لیے عطا ہوئی تاکہ یہ اپنی نسل کو دنیا میں پھر مستحکم کر سکیں۔
مشرق وسطی میں بحیرہ روم کے آخری مشرقی کونے کے کنارے یہ ناجائز ریاست قائم ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں مملکت شام، مشرق اور جنوب مشرق میں اردن، جنوب مغرب میں مصر اور مغرب میں بحیرہ روم کاساحل ہے۔ اسرائیل کا کل رقبہ تقریباََ آٹھ ہزار مربع میل ہے اور اس کے مرکزی دفاتر یروشلم میں واقع ہیں۔ یہ چھوٹی سی فتنہ پرور ریاست لمبائی کے رخ شمال سے جنوب کی طرف کل 290میل ہے اور چوڑائی میں مشرق سے مغرب تک کل 85میل ہے۔ اسی کی پشت پر ’’کوہ صہیون‘‘بھی ہے جس کی نسبت سے اس کو صہیونی ریاست کہاجاتاہے۔ یہ خالصتاََ مذہبی بنیادوں پر قائم یہودی ریاست ہے جو اس علاقے پر اپنا مذہبی اور نسلی حق بھی جتاتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہودی کثرت سے فلسطین میں آباد ہونے لگے، بہت بڑی تعدادکی آمد کے بعد اپنی ناپاک فطرت کے باعث انہوں نے مقامی باشندوں سے چھیڑچھاڑشروع کر دی۔ برطانوی سامراج اس وقت یہاں مسلط تھا جس نے اس بڑھتی ہوئی کشمکش میں اقوام متحدہ جیسے درباری ادارے اور مسلمان غداروں کے ذریعے 14 مئی1948 کواسرائیلی ریاست کے قیام کا باقائدہ اعلان کر دیا، کم و بیش ایک صدی کی صہیونی تحریک کایہ نتیجہ تھا۔ سامراج چاہتا تھاکہ بڑھتی ہوئی اسلامی قوت اس سے ٹکرانے کی بجائے یہودیوں سے ہی نبردآزما رہے کیونکہ سامراج اپنی کل قوت جنگ عظیم میں ٹھکانے لگاچکا تھا اور اب اس میں مزید ہمت و حوصلہ عنقاتھا۔ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی پڑوسیوں سے مسلسل سرحدی جنگیں جاری ہو گئیں اور نوبت دوبڑی بڑی عرب اسرائیل جنگوں تک بھی پہنچی۔عرب قیادت اگرچہ پسپا ہو گئی اورمصر نے تو اسرائیل کو تسلیم کر لینے جیسی قبیح حرکت کا بھی ارتکاب کیا لیکن فلسطینی مجاہدین آج بھی اس طاغوت سے نبردآزما ہیں۔
اس ریاست کا درجہ حرارت عرب کے دیگر علاقوں کی طرح گرم ہے، لکڑی، پوٹاشیم، قدرتی گیس اور فاسفیٹ کے ذخائر سمیت ریت کے میدان اس ریاست میں قدرتی تحفے ہیں۔ کل آبادی بہتر لاکھ کے لگ بھگ ہے، آبادی میں اضافے کی شرح 1.67% ہے اور شرح پیدائش0.020%ہے۔ آبادی میں 76%یہودی ہیں جبکہ بقیہ غیریہودی مذاہب کے لوگ آباد ہیں، دنیاکے مذاہب میں صرف ’’بہائی‘‘ہیں جن کا مرکز اسرائیل میں قائم ہے۔دفتری زبان ’’عبرانی‘‘ہے جبکہ عرب کثرتی علاقوں میں عربی بھی بطور دفتری زبان کے استعمال ہوتی ہے لیکن چونکہ آبادی کابہت بڑا حصہ باہر سے آیا ہواہے اس لیے انگریزی بھی وسیع پیمانے پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔یہودیوں کی اکثر آبادی یورپ،مشرق وسطی،افریقہ اور کم و بیش دنیاکے سبھی ممالک سے آئی ہے اور سب اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں اس لیے اسرائیلیوں کی کوشش ہے کہ صدیوں کی گرد تلے دبی ہوئی عبرانی زبان کو زندہ کر کے تو اسے پھر سے یہودیوں کی ایک زبان بنادیاجائے۔شرح خواندگی 97%فیصدہے اور قومی آمدنی کا سات فیصد تعلیم پر خرچ کیاجاتاہے۔ پانچ سے پندرہ سال کی عمر میں تعلیم عام اور مفت ہے اور حکومت حصول تعلیم پر سختی بھی کرتی ہے۔ جو بچے ابتدائی عمر میں تعلیم سے نابلد رہ جاتے ہیں ان کے لیے بعد میں حکومت کی طرف سے تعلیم بالغاں کا انتظام کیاجاتاہے۔وہاں کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی تعلیمی نشریات کے دوران طلبہ و طالبات کے لیے تدریسی پروگرام نشر کرتے ہیں۔یہودیوں کے لیے عبرانی زبان اور عربوں کے لیے عربی میں کتابیں تصنیف کی جاتی ہیں۔ اسرائیل کی جامعات میں تعلیمی آزادی کو باقائدہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔
یہاں پارلیمانی جمہوریت کا سیاسی نظام رائج ہے لیکن ریاست کا کوئی تحریری آئین نہیں ہے تب بھی اسرائیل کا شماردنیا کی بہترین جمہوریتوں میں ہوتاہے، قانون کے طور پر کچھ بنیادی ضابطے، جملہ انتظامی احکامات اورکچھ روایات ہی ہیں۔ ریاست کو چھ ضلعوں میں تقسیم کیا ہوا ہے، مرکزی ضلع، یروشلم، حیفہ، شمالی ضلع، جنوبی ضلع اور تل ابیب، جبکہ پندرہ کی تعداد میں مزید چھوٹی انتظامی اکائیاں ہیں جہاں ہر پانچ سالوں بعد مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم صرف اسرائیل کے یہودی علاقوں کے تحت ہے، عرب مقبوضہ علاقوں میں جن میں غزہ،مغربی کنارہ، اردن کے سرحدی علاقے وغیرہ شامل ہیں،ان علاقوں کو براہ راست فوج کے کنٹرول میں دیاہوا ہے کیا خوب تقسیم ہے حکومت کی اپنے لیے میٹھا میٹھا اور دوسروں کے لیے کڑوا کڑوا، فوج آئے دن وہاں خون کی ہولی کھیلتی ہے اور پورے اسرائیل سمیت انسانی حقوق کی دعوے دار ساری دنیا تماشا دیکھ کر تالیاں پیٹتی ہے۔ برطانوی قوانین میں ضروری ترامیم کے بعد یہاں انہیں رائج کیاہوا ہے، سپریم کورٹ یہاں کی اعلی عدالت ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی طرح یہاں کی عدلیہ بھی سیاسی دباؤ سے قطعاََ آزاد ہے۔ ریاست کا سربراہ صدر کہلاتا ہے، صدر کے پاس کوئی بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے معمول کے فرائض کے علاوہ ججزکی تقرری، محتسب کا تقرراور بنک آف اسرائیل کے گورنرکا تقررسمیت اہم اداروں کے سربراہوں کی تقرری صدر کے صوابدیدی اختیارات میں شامل ہے۔ جب کہ وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہوتاہے، وزیراعظم کا انتخاب پوری قوم براہ راست رائے دہی سے کرتی ہے۔ وزیراعظم اپنی کابینہ بناتا ہے جو اسمبلی کے اراکین پر اور غیر اراکین اسمبلی پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔ ایک ہی نمائدہ قانون ساز ادارہ ہے جسے عرف عام میں اسمبلی کہتے ہیں، اسمبلی کی 120نشستیں ہیں اور مدت انتخابات چار سال ہے۔ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں یعنی جو پارٹی جتنے فی صد ووٹ لیتی ہے اتنے فیصد اس کے نمائدے اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں۔ ووٹر کی عمر اٹھارہ سال اور امیدوار کی کم سے کم عمر اکیس سال مقرر ہے۔
مختصر سی مملکت میں 47ہوائی اڈے ہیں۔ اسرائیلی ریاست نے سڑکوں کا جال بچھانے پر خصوصی توجہ دی ہے اور اب پورے اسرائیل میں ہر شہر سے ہر ہر شہر تک بسوں کی بہترین سروس مہیارہتی ہے، سڑکوں کے اس بہترین نظام کے باعث ریلوے سروس کی اہمیت کافی کم ہو گئی ہے۔’’رابی‘‘یہودیوں کے مذہبی راہنما ہوتے ہیں جنہیں عائلی قوانین کے تحت فیصلے کا اختیار بھی حاصل ہے، فوج میں بھی ایک بہت بڑا عالم دین بریگیڈیرجنرل کے عہدے پر فائز ہوتا ہے جو فوج کے ساتھ متحرک رہتا ہے۔ نیشنل ہیلتھ انشورنش پروگرام کے تحت سرکاری اور نیم سرکاری ادارے قوم کوبہترین طبی سہولیات مہیاکرتے ہیں۔بہت سے نجی ادارے بچوں کو اور زخمیوں کوابتدائی طبی امداد مفت فراہم کرتے ہیں۔ تل ابیب یہاں کا عالمی شہرت یافتہ شہر ہے جہاں سے بے پناہ اخبارات شائع ہوتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے تک اخبارات کا ملک میں پھیلی ہوئی کئی سیاسی جماعتوں سے الحاق ہوا کرتا تھا لیکن اب اخبارات نے وہاں پر آزادانہ پالیسی اپنانا شروع کر دی ہے۔ دنیا کی تقریباََ تمام بڑی زبانوں میں یہاں سے اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں لیکن نصف سے زائد عبرانی زبان میں ہی ہوتے ہیں۔اسرائیل ڈیفنس فورسزکے نام سے بری، بحری اور فضائی افواج نہتے فلسطینیوں پر خوب خوب گولہ باری کرتی ہیں۔ ان افواج نے پورے فلسطین کامحاصرہ کررکھا ہے، مسلمان ملاح بھی اگر کبھی مچھلی کے شکار کے لیے سمندر کچھ آگے تک چلے جائیں تو اسرائیلی بحریہ انہیں گولیوں پر رکھ لیتی ہے۔ فلسطینی مجاہدین عام طور پر اورحماس کے نوجوان خاص طور پر محض پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، شیخ احمد یاسین اور استاد حماد کے یہ جانشین شہبازکی طرح موت پر جھپٹتے ہیں لیکن موت ان سے خوف کے مارے دور ہٹ جاتی ہے اور شہادت کی دلہن انہیں اپنی باہوں میں سمیٹ لیتی ہے، بس کوئی دن اورکہ سورج ابھرنے والا ہے جب اسرائیل کی ریاست بحیرہ روم میں غرق ہوکرقصہ پارینہ بن چکے گی انشاء اﷲ تعالی۔

تبصرے بند ہیں۔