6 دسمبر یومِ سیاہ ، یومِ پیغام

محمد فراز احمد

1992 کے بعد سے مسلمان 6 ڈسمبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار مختلف انداز میں کرتے ہیں، یقیناً اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنا چاہئے، کیونکہ بابری مسجد کی شہادت کا مسئلہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی جمہوری اور سیکولر ساکھ کا مسئلہ ہے۔

بابری مسجد کی شہادت درحقیقت اس ملک میں سیکولر ازم کا قتل ہے، اور اس کے قاتل وہی لوگ ہیں جو آج ملک کے اندرون میں دیش بھکتی کا سرٹیفیکٹ تقسیم کرتے ہوئے کھلے عام غنڈہ گردی کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ہم سال میں کتنے یومِ سیاہ منائیں گے؟ کیونکہ محض بابری مسجد کی شہادت کا ایک ہی واقعہ نہیں ہے جسے ہم اس ملک کی سیکولرشناخت پر سیاہ دھبہ سمجھیں ، بلکہ کئی ایسے واقعات ہیں جو اس ملک کے اندر ہندوتوا ذہنیت کے فروغ کا کھلا ثبوت ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے بعد سے تو ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے ، گویا بابری سے دادری تک اور اب دادری سے نجیب تک ۔ ایسے کتنے واقعات ہیں جن پر ہم یوم سیاہ منائیں گے ؟ اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہیکہ آیا صرف سیاہ دن منالینے سے انصاف مل جائے گا؟ زخموں کی بھرپائی ہوجائےگی؟ ایک ماں کو اس کا بیٹا واپس مل جائےگا؟ اگر ہاں تو پورا زور ایسے ایام منانے میں ہی لگا دیں ، اور اگر ناں ۔ تو پھر یہ بھی جان لیجئے کہ نرم گوشوں اور گرم توشوں سے کچھ نہیں ملنے والا۔

6 دسمبر آئےگا مسلمان سیاہ دن منالین گے اورپھر زندگی معمول کے مطابق آجائےگی۔ مسئلہ بابری مسجد بننے یا نہ بننے کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ تو یہ ہیکہ کیا بابری مسجد کی شہادت نے مسلمانوں کے لئے عبادت کی جگہ میں کمی کردی ہے؟ بابری مسجد کے علاوہ کوئی اور مقام نہیں بچا عبادت کے لئے؟ ہمارا ایمان ہیکہ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیرانشاء اللہ ضرور ہوگی، لیکن کیا بابری مسجد کی تعمیر سے مسلمان سو فیصد اسلام میں داخل ہوجائینگے؟ اگر ایسا ہوا تو بہت اچھا ہوگا۔ لیکن ہمارا یہ غم و غصہ اگر اسلام کی ترویج و اشاعت میں لگ جائے تو بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ ہرسال چھ ڈسمبر یہی سبق دیتا ہیکہ ہم اپنے دین کی طرف دوڑتے چلے آئیں اور اس کو مضبوطی سے تھام لیں۔ تاکہ ہمارا مضبوط ایمان،اللہ کی مددونصرت کے حصول کا ذریعہ بن سکے۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے ، قطار اندر قطار اب بھی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔