8 سالہ پاکسانی لڑکی زینب کے ساتھ بربریت

محمد وسیم

 پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں 10 جنوری 2018 یعنی سال کے شروع ہی میں انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے، اس واقعے نے دنیاےء انسانیت کو جهنجهوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر اس کے باوجود بھی لبرل اور سیاسی شیطانوں کی ضمیریں ابھی بهی مردہ پنی کا ثبوت دے رہی ہیں، اقوامِ متحدہ، عالمی میڈیا، عالمی طاقتیں اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اندهی اور گونگی بنی ہوئی ہیں، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، جہاں پر مسلمانوں کا تناسب 97 فیصد ہے، مگر اس ملک میں بهی زانیوں، بدمعاشوں وغیرہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے اقوامِ متحدہ اور لادینیت کے قانون کا سہارا لینا پڑتا ہے، جب کہ ملک پاکستان میں اسلامی سزائیں نافذ کر کے ظالموں اور غنڈوں کو کیفر کردار تک پہونچانا چاہئے تھا، تو ممکن تھا کہ جرائم کے خاتمے میں پاکستان کو کامیابی ضرور ملتی

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک ضلع قصور میں 8 سالہ زینب جو ٹیوشن پڑھنے کے لئے گهر سے جا رہی تھی اغوا کر لیا گیا، زینب کی گمشدگی پر اہل خانہ نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرائی مگر اس کے بعد اس کی لاش کچرے کے ڈھیر میں ملی، معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کر کے اسے کچرے میں پھینک دیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا کہ اس کے ساتھ کئی بار زیادتی کی گئی، اس خبر نے دنیا کے تمام لوگوں کو جهنجهوڑ کر رکھ دیا ہے، پاکستان کے تمام ادارے بشمول فوج اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بهی انصاف کے لئے حرکت میں آ گئے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا زینب کے قاتل کو مملکتِ خداداد پاکستان میں انصاف ملے گا اور اسے سر عام پھانسی دی جائے گی…؟؟

زینب کے ساتھ ہوئی زیادتی اور قتل پر میں پوچھنا چاہتا ہوں انسانیت کے ان ٹهیکیداروں سے جو پانی کے باہر نکلی ہوئی مچھلیوں پر بھی تڑپ اٹھتے ہیں، ان پر آنسو بہاتے ہیں، مگر زینب کے معاملے میں ان کی آنکھیں نم کیوں نہیں ہوئیں ؟ کیا حقوقِ انسانی کی تنظیمیں مردہ ہو چکی ہیں ؟ کیا اقوامِ متحدہ میں بیٹھے ہوئے انسان سوروں اور کتوں کے حقوق کے لئے قانون سازی میں مصروف ہیں ؟ مجهے معلوم ہے کہ زینب کے معاملے میں انسانیت کے دعویدار خاموش رہیں گے، میں نے با رہا ان انسانیت کے ٹهیکیداروں کے دوہرے انصاف کا خوب خوب مشاہدہ کیا ہے، زینب کے ساتھ بربریت میں وہ افراد بهی ذمہ دار ہیں جو الیکشن میں اپنے نمائندے انتخاب کر کے بے ضمیروں کو پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں- اپنی تحریر کے آخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جو معاشرہ زینب جیسی معصوم بچی کی بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا، خود اس معاشرے کی اپنی بقا کی بهی کوئی ضرورت یا اہمیت نہیں رہ جاتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    میری قوم کے اکثر مسلمان جنسی گھٹن کا شکار ہیں.
    جب ملا ممبر پر بیٹھ کر ستر لباسوں میں ملبوس مگر ننگی حوروں کے قصے مزے لے لے کر سنائے گا، مرد کو ستر مردوں جتنی طاقت کے خواب دکھائے گا تو سامع کا جنسی اشتعال تو بھڑکے گا،پھ وہ بھلا کب دیکھے گا کہ سامنے والی زینب ہے یا فرخندہ؟

تبصرے بند ہیں۔