دین اور درگاہ کا معنی و مفہوم  اور بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کا مقصد

                عام طور پر غیر مسلم تو غیر مسلم عام مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام دنیا کے مذہبوں میں سے ایک مذہب ہے۔ یہ علم اور معلومات کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسلام دنیا کے مذہبوں میں سے ایک مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے۔ دین کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ مذہب جن معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ دین بالکل اسی معنی میں استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ یہ وہی لوگ استعمال کرتے ہیں جو دین سے کما حقہ واقف نہیں ہوتے۔

                صاحب تدبر قرآن سورہ فاتحہ کی تیسری آیت مالک یوم الدین کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

                ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ: دین کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔

                ۱)  دین و شریعت کے معنی کیلئے مثلاً اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ (آل عمران:83)۔ کیا خدا کے اتارے ہوئے دین کے سوا وہ کسی اور دین کے طالب ہیں)۔

                ۲) قانونِ ملکی کیلئے مثلاً مَاکَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ (یوسف:76)۔ (اس کو بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو روک سکے)۔

                ۳)  اطاعت کے معنی کیلئے مثلاً وَلَہٗ مَافِیْ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنَ وَاصِبًا (سورہ نحل:52)۔ (اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے)۔

                ۴)  جزا کے معنی کیلئے مثلاً انما توعدون لصادق و ان الدین لواقع (سورہ ذاریات:6)۔ (جس چیز کی تمہیں دھمکی سنائی جارہی ہے وہ سچ ہے اور جزا و سزا واقع ہوکر رہے گی)۔

                جزا سے مراد اس کے دنوں پہلو ہیں۔ نیک اعمال کا صلہ بھی اور برے کاموں کی سزا بھی۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمہ میں جزا کے ساتھ سزا کا لفظ بھی بڑھا دیا ہے۔

                جزا و سزا کے دن کا تنہا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز سارا زور اور سارا اختیار اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے آگے سب عاجز و سرفگندہ ہوں گے۔ کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے۔ سارے معاملات کا فیصلہ تنہا وہی کرے گا جس کو چاہے گا سز ادے گا، جس کو چاہے کا انعام دے گا۔ جیسا کہ ہے اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ (سورہ حج: 56)۔ (اس دن سارا اختیار اللہ ہی کو ہوگا، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا)۔ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ (سورہ غافر:16)۔ (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے؟ صرف خدائے واحد و قہار کی)۔

                اس آیت کے تین لفظوں میں جو بات پوشیدہ ہے وہ اگر پھیلا دی جائے تو پوری بات یوں ہوگی کہ ایک دن جزا اور سزا کا آنے والا ہے۔ اس دن سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہوگا اور اس کے آنے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہوگی، لیکن کلام کے دعائیہ اسلوب میں یہ بات اس طرح لپیٹ دی گئی ہے کہ دعا کرنے والا ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت سے ان سب باتوں کا اعتراف کر جاتا ہے۔ گویا خدا کی ربوبیت و رحمت اور اس کے عدل و انصاف کے ان آثار و دلائل کے بعد جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ایک ہٹ دھرم کے سوا کون ہے جو اس حقیقت کے کسی جزو کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرسکے‘‘۔

                صاحب ’ترجمان القرآن‘ نے مالک یوم الدین کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کی ہے جو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے:

                ربوبیت اور رحمت کے بعد سورہ الفاتحہ میںجس صفت کا ذکر کیا گیا ہے وہ عدالت ہے اس کیلئے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس سے بہتر کوئی اور تعبیر ممکن نہیں۔ یہ تعبیر اس لئے اختیار کی گئی ہے کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا تھا اس کیلئے یہی تعبیرسب سے زیادہ موزوں اور بہتر تھی۔ وہ جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔

                ’’نزول قرآن کے وقت پیروانِ مذاہب کا عالمگیر اعتقادیہ تھا کہ جزا محض خوشنودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کو اس میں دخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابۂ تمام مذہبی تصورات کی طرح، اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہوکر انعام اکرام دینے لگتا ہے، کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے۔ اس لئے خیال کرتے تھے کہ خدا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے ۔ کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھادوں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کیلئے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کیلئے نذریں چڑھاتے۔

                یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیو بانی تصورات سے بلند ہوگیا تھا، لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ، ان کے تصور نے بھی کوئی وقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے۔ لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہوکر انہیں اپنی چہیتی قوم بنالیتا کبھی جوش انتقام میں آکر بربادی و ہلاکت کے حوالے کردیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم ؑ کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہوگئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت انبیت کو بشکل مسیح ؑقربان نہیں کردیا، اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت نہ ہوسکا۔

لیکن قرآن نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو، بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات ہستی کا عالمگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شئے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و نتائج کے سلسلہ سے باہرہو۔ پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھے ہیں۔ اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں، اسی طرح روح انسانی کیلئے بھی قدرتی انفعلات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔ معنوی مؤثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرتی خواص و نتائج ہیں جنہیں جزا و سزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کانتیجہ اچھائی ہے، اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کانتیجہ برائی ہے اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ وحی الٰہی نے ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کانقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کاہے۔ ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کیلئے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کیلئے ہیں جن کے اعمال دو زخی ہوں گے۔

’’اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں) یکسا ںنہیں ہوسکتے ۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں!‘‘(20:59)

                وہ کہتا ہے، تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشۂ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے۔ ممکن نہیں کہ اس میں تعبیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جلا لے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہوگئی جو ہر اس انسان کیلئے ہے جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے گا۔ ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے؛ یعنی ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کردی ہے اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو، اور اس مکافات سے بچ جاؤ۔ پھر جو فطرت ، کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میںمکافات رکھتی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ انسان کے اعمال کیلئے مکافات نہ رکھے؟ یہی مکافات جزا و سزا ہے۔

                آگ جلاتی ہے، پانی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، سنکھیا کھانے سے موت، دودھ سے طاقت آتی ہے۔ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیاء کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیںہوتا کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں، تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ افسوس تم پر، تم اپنے فیصلوں میں کتنے ناہموار ہو۔

                تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے ، گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے، تو تم اسے پاگل سمجھو گے کیوں؟ اس لئے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبیعت میں راسخ ہوگیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گذرسکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دے گی۔ اتناہی نہیں۔ بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی۔ تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پھر بتاؤ، جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟

                ’’جو لوگ برائیاں کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں، ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے اعمال اچھے ہیں؟ دونوں برابر ہوجائیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی؟ اگر ان لوگوں کی فہم و دانش کا یہی فیصلہ ہے تو افسوس ان کے فیصلے پر! اور اللہ نے آسمان و زمین کو بیکار اور عبث نہیں بنایا ہے بلکہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہے، اور اس لئے بنایا ہے کہ ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ ملے، اور یہ بدلہ ٹھیک ٹھیک ملے گا۔ کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘(22-23:45)۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جزا و سزا کیلئے الدین کا لفظ اختیار کیا، کیونکہ مکافات عمل کا مفہوم ادا کرے کیلئے سب سے زیادہ موزوں لفظ یہی تھا ‘‘۔

                صاحب ’دعوت القرآن‘ نے دین کی پوری وضاحت آیت مذکور کے تحت نہیں کی مگر عدل کے تعلق سے جو باتیں کہی ہیں اس سے دین کے معنی و مفہوم سمجھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اس کی ضرورت پر ایمان اور یقین آجاتا ہے۔

                قرآن میں جابجا اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت اور صفت عدل و حکمت سے آخرت پر استدلال کیا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پرورش اور ربوبیت کا جو سامان کیا ہے اس کو انسان جب کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو ربوبیت کا تقاضا ابھر کر سامنے آجاتا ہے کہ جزا و سزا کا ایک دن ہونا چاہئے، تاکہ نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں کا بھر پور صلہ اور بدکاروں کو ان کے کئے کی منصفانہ سزا ملے۔ قرآن کہتا ہے کہ جس ہستی نے تہارے لئے زمین کا فرش بچھایاِ آسمان کو محفوظ چھت بنایا، تمہاری روشنی کیلئے سورج اور چاند چمکائے، تمہارے جمالیاتی ذوق کیلئے ستاروں کی پُر رونق بزم سجائی، ہوا کو تمہاری خدمت میں لگایا اور بارش کے ذریعہ پانی کا حیرت انگیز انتظام کیا، قسم قسم کے پھل پھول اور میوے پیدا کئے، نباتات اور اناج پیدا کرکے تمہارے رزق کا سامان مہیا کیا، جانوروں کو تمہارے لئے مسخر کیا اور پوشش و زیبائش کیلئے لباس مہیا کیا۔ غرضیکہ جس نے اس بزم کائنات کو سجاکر تم پر اپنی نعمتوں کی بارش کی۔ اس ہستی کے بارے میں کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ اس نے یہ کارخانہ محض کھیل کے طور پر بنایا ہے اور اس کے پیچھے کوئی مقصد کار فرما نہیں ہے؟ اور کیا ان نعمتوں کے سلسلے میں تم پر کوئی ذمہد داری عائد نہیں ہوتی کہ جس کی باز پرس ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ جزا و سزا سے انکار وہی کرسکتا ہے جو خواہش نفس سے مغلوب ہوگیا ہو کیونکہ خواہشات کا غلبہ اسے اس بات پر آمادہ نہیں کرتا کہ وہ ذمہ دارانہ زندگی گزارے بلکہ اس کی نظروں میں ایسی زندگی کو خوش آئند بناکر پیش کرتا ہے جس میں کسی کے حضور جواب دہی کا تصور نہ ہو اور اس پر نہ ذمہ داریوں کا بوجھ ہو اور نہ اس کی آزادی محدود کر دی گئی ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ ہر انسان ذمہ دار ہے اور اس سے لازماً اس کے اعمال کے بارے میں باز پرس ہونی ہے اور فیصلہ کا ایک دن مقرر ہے، جس نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوں گی، وہ کامیاب ہوگا اور جس نے ان کو نظر انداز کیا ہوگا وہ ناکام رہے گا‘‘۔

                درگاہ: درگاہ کی اصطلاح دو لفظوں سے مرکب ہے۔ دونوں لفظ فارسی زبان کا ہے۔ در کے معنی ہوتے ہیں اندر، بیچ اور دروازہ۔ گاہ کے معنی جگہ ہوتے ہیں۔ جب ہم عبادت گاہ کہتے ہیں تو اس کے معنی عبادت کی جگہ لیکن جب درگاہ کہا جاتا ہے تو یہ معنی نہیں لیا جاتا ہے کہ دروازے کی جگہ بلکہ فارسی ڈکشنری میں درگاہ کے معنی دربار، کچہری اور مقبرہ ہے۔ اردو لغت میں چوکھٹ، آستانہ، دربار شاہی، خانقاہ، کسی بزرگ کا مزار یا روضہ۔

                میری تحقیق سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ روضہ، مزار اور مقبرہ یہ سارے الفاظ ایران اور فارسی زبان سے تعلق رکھتے ہیں ۔

                مزار عربی لفظ ہے مگر لگتا ہے کہ اس کا بھی جنم ایران ہی میں ہوا ہے۔ جس کے معنی زیارت کرنے کی جگہ، آستانہ، قبر۔ وہ جگہ جہاں دعا قبول ہوتی ہے یعنی مستجاب الدعوات۔

                مذکورہ باتیں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ مزار کو روضہ بھی کہا جاتا ہے۔ روضہ خوانی کے معنی ہوتے ہیں اہل بیت کے مصائب اور واقعہ کربلا کا پڑھنا۔ روضہ خواں کے معنی ہیں معرکۂ کربلا اور مصائب کا ذکر کرنا۔

                جو لوگ مزاروں، درگاہوں یا صاحب قبر سے دعا کرنے کے قائل ہیں ان جگہوں کو مستجاب الدعوات کہتے ہیں یعنی جن کی دعا قبول ہو یا جن کی دعا بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پائے۔ لیکن جو لوگ درگاہوں اور مزاروں یا صاحب قبر سے دعا کرنے کے قائل نہیں ہیں وہ کسی قبر یا قبرستان جانے کے بارے میں حدیث کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب قبرستان میں جاؤ تو کہو یا دعا کرو:

                اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلْفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثْرِ‘‘ (ترمذی) ۔ (اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو اور اللہ ہم کو اور تم کو بخش دے۔ تم ہم سے پہلے آگئے ہو ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں)۔

                قبرستان جانے کی یہ بھی غرض و غایت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ وہاں کثرت سے موت یاد آئے۔ حدیث میں موت کو یاد کرنا بھی کارِ ثواب بتایا گیا ہے۔

                بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ : بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ بہت سے مندروں میں بڑی ذات کے لوگ یا برہمن یا پروہت وغیرہ نے جسے وہ چھوٹی ذات یا دلت کہتے ہیں ان کیلئے دروازہ بند کر کھا ہے۔ یہ لڑائی ایک زمانے سے چھوٹی اور بڑی ذات کے درمیان جاری ہے کہ مندرکا دروازہ سب کیلئے کھلا رہنا چاہئے۔ کچھ مہینوں سے ٹی وی نیوز چینل میں خاص طور سے انگریزی نیوز چینل ’’ٹائمز ناؤ‘‘ زور شور سے ایک خاص مقصد کیلئے اٹھایا ہے۔ اور پھر درگاہوں میں جہاں عورتوں کے جانے پر پابندی ہے اسے بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ ایک نام نہاد مسلم خاتون نے بمبئی ہائی کورٹ میں عرضی پیش کی کہ عورتوں کیلئے حضرت حاجی علیؒ درگاہ میں جو پابندی عائد ہے وہ دستور ہند کے قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ دستور ہند میں کسی معاملے میں عورت اور مرد میں تفریق جائز نہیں ہے۔ جج صاحبان کو یہ نظر آیا کہ ایک عبادت گاہ گھر یا مزار یا درگاہ کا دروازہ مرد کیلئے کھلا ہے مگر عورتوں کیلئے بند ہے اس لئے از روئے دستور ہند یہ چیز غلط ہے۔ غالباً اسی نقطہ نظر سے جج صاحبان کا فیصلہ ہے کہ دونوں صنفوں کو یعنی مرد عورت کیلئے دروازہ کھلا رہنا چاہئے۔ یہ بحث تو سامنے نہیں آئی ہے کہ حاجی علیؒ درگاہ کے ٹرسٹیوں کے وکلاء نے کیا دلیلیں پیش کی ہیں۔ بہر حال اس وقت یہ موضوع بحث ہے کہ مسلمان بھی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں۔

                اگر دین اسلام سے جج صاحبان یا غیر مسلم بھائی جو صاف ذہن کے ہوتے ہیں اگر واقف ہوتے تو شاید مندر اور درگاہ کا موازنہ نہیں کرتے، کیونکہ مندر ہندو بھائیوں کیلئے پوجا پاٹ کی جگہ ہے جبکہ درگاہ یا کسی کی قبر خواہ وہ کتنا بڑا ولی یا بزرگ کی ہو وہ نہ پوجا پاٹ کی جگہ ہے نہ عبادت کی جگہ ہے۔ آج غیر مسلموں کو بھی اور ایسے مسلمانوں کو بھی جو درگاہ یا مزار کو غلطی سے عبادت گاہ کا مقام دیتے ہیں بتانے کا وقت آگیا ہے کہ درگاہ کیا ہے اور قبر کسے کہتے ہیں؟ اسلام کی ابتدا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عورتوں کو قبرستان جانے کی ممانعت نہیں تھی لیکن بعد میں عورتوں اور بچوں پر قبرستان جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں یا بچے رقیق القلب ہوتے ہیں، قبرستان جانے سے ان کے دل پر گہرا اثر پڑسکتا ہے۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ درگاہ یا مزار کوئی عبادت گاہ یا عبادت کی جگہ نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کے متعلق سختی سے ہدایت و نصیحت کی ہے کہ ’’دوسرے مذاہب کے پیروؤں کی طرح میری قبر کو عبادت گاہ نہ بنانا‘‘۔

                سورہ الکہف میں اصحاب کہف کے متعلق بتایا گیا ہے کہ توحید پرست تھے اور شرک کے سخت مخالف تھے اور اپنے ایمان کو ہر قیمت پر بچانا چاہتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ ایمان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور عقیدۂ آخرت کی صحت کی بھی نہ صرف وضاحت ہوتی ہے بلکہ عقیدۂ آخرت کی بین ثبوت ہے۔ خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدتِ دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد اٹھایا۔ جب ان میں سے ایک شخص کھانا خریدنے کیلئے گیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ بت پرست روم کو عیسائی ہونے کی ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان، تہذیب، تمدن، لباس اور ہر چیز میں نمایان فرق آگیا تھا۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج لباس اور زبان ہر چیز کے اعتبار سے تماشہ بن گیا۔ جب اس نے ڈیسس کے وقت کا سکہ خریدنے کیلئے پیش کیا تو دکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سریانی روایت کی روسے دکاندار کو اس پر شبہ ہوا کہ یہ شاید پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے، چنانچہ آس پاس سے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور بالآخر اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں جاگر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کیلئے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دو سو برس سوکر اٹھے تو اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ قرآن مجید نے اس وقت کا منظر سورہ کہف میں کھینچا ہے: ’’اس طرح ہم نے اہل شہر کو مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ قیامت کی گھڑی بیشک آکر رہے گی (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان اصحاب کہف کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’ان پر دیوار چن دو۔ ان کا رب ان کے معاملے میں بہتر جانتا ہے‘‘۔ مگر جولوگ ان کے معاملے پر غالب تھے انھوں نے کہا ’’ہم ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے‘‘ (سورہ کہف، آیت: 21)۔

                سورہ کہف کی آیت نمبر 21کی تشریح کرتے ہوئے صاحب تفہیم القرآن نے درج ذیل تشریح کی ہے:

                ’’مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھہراکر مقابرِ صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکانِ آخرت کا یقین دلانے کیلئے دکھائی گئی تھی اسے انھوں نے ارتکابِ شرک کیلئے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور دلی پوجا پاٹ کیلئے ہاتھ آگئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبورِ صالحین پر مسجدیں بنانے کیلئے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں:

                ’’اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر‘‘ (نسائی، ابن ماجہ)۔

                ’’خبر دار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں‘‘ (مسلم)۔

                ’’اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بناہ لیا‘‘ (نسائی)۔

                ’’ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بدترین مخلوق ہوں‘‘ (احمد، بخاری، مسلم، نسائی)۔

                نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کرسکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایتہ ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کیلئے دلیل و حجت ٹھہرائے؟

                اس موقع پر یہ ذکر دینا بھی خالی از فائدہ نہیں کہ 1834ء میں ریورنڈٹی اَرنڈیل نے ’’ایشیائے کوچک کے اکتشافات‘‘ (Discoveries in Asia Minor) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کئے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ’’سات لڑکوں‘‘ (یعنی اصحاب کہف) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔

                مولانا الطاف حسین حالی نے ’’مسدس حالی‘‘ میں ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کے متعلق جو منظر کشی کی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔

کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر

جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر

کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر

کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر

مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں

پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں

اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں

مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں

شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں

 ہوا جلوہ گر حق زمیں و زماں میں

رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں

 وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں

ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں

وہ دولت کھو بیٹھے آخر مسلماں

موبائل: 9831439068           azizabdul03@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔