نریندر مودی: ملک کو تقسیم کرنے والا سربراہ

تحریر: این۔ اے۔ کوچر

ترجمہ: مبین احمد اعظمی

امریکہ کا مشہور و معروف اور پوری دنیا میں قابل اعتماد سمجھا جانے والا میگزین ’’ٹائم‘‘ جس نے سال 2014ء میں ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز‘ نریندر دامودر داس مودی کو ایک ابھرتے ہوئے ’’ورلڈ لیڈر‘‘ کے طور پر پیش کیا تھا اور میگزین کے ٹائٹل کور پر ان کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا (Modi Means Business)۔ وہی ٹائم میگزین اگر پانچ سال بعد مودی کو (India’s Divider In Chief) لکھ رہا ہے تو یہ مودی اور ان کی پارٹی کے لئے ہی نہیں ، بلکہ ہندوستان کے لئے بھی بے حد شرمناک بات ہے۔ میگزین کے بقول مودی کی شبیہ جو 2014ء میں ’’ترقی پسند انسان‘‘ کی شکل میں ظاہر ہورہی تھی، آج لوگوں کو بانٹنے اور لڑانے والے ایک ہوشیار سیاستدان کی بن چکی ہے۔ پانچ سال تک دنیا بھر کا دورہ کرکے ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے مودی کی اس شبیہ نے بلاشبہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ کو دھندلا کیا ہے۔

ہندوستان میں ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنا کر حکومت کرنے کی تہمت انگریزوں پر لگی تھی اور آزادی کے ستر سال بعد وہ ’’کالا تاج‘‘ آج مودی کے سر پر ہے۔ ’’ٹائم‘‘ نے مودی کے بیتے پانچ سال کی کارکردگی کا پورا کچاچٹھا سامنے لاتے ہوئے واضح طور پر ملک کو بانٹنے والا خاص سرغنہ بتایا ہے۔ لوک سبھا انتخاب کے دوران میگزین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ مودی سرکار کو پھر پانچ سال کے لئے بھگتے گی؟

غورطلب ہے کہ بین الاقوامی میگزین ’’ٹائم‘‘ نے سال 2012 میں بھی نریندر مودی کو ایک متنازعہ شخصیت اور انتہائی چالاک سیاستداں بتایا تھا، جو اپنے مفاد کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، مگر 2014 میں مودی کے ’’وکاس‘‘ کے وعدوں اور کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کے دعوئوں نے عوام میں ایک امید کی کرن جگائی اور مودی کی شبیہ کو بدل ڈالا۔ سال 2014 میں مودی ’’ترقی پسند انسان‘‘ کے طور پر ابھرے، تو سال 2014-15 میں ’’ٹائم‘‘ نے بھی مودی کو دنیا کے 100 متاثر کن شخصیتوں کی فہرست میں شامل کیا، مگر گذشتہ پانچ سال میں سارا پانی اتر گیا۔ سارے مکھوٹے اتر گئے اور مودی کا اصلی چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے ہے۔

میگزین لکھتا ہے کہ 2014ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسے ’’خاموش وزیر اعظم‘‘ کے سامنے جب ایک ’’دہاڑتا وزیراعظم‘‘ آیا تو لوگوں کا حوصلہ عروج پر پہنچ گیا۔ یو پی اے دور حکومت میں ہوئے کرپشن کی وجہ سے لوگوں کے درمیان اس وقت جو غصہ تھا، نریندر مودی نے اس غصے کو اقتصادی وعدے میں بدلا۔ انہوں نے نوجوانوں کو نوکری دینے اور ملک کی ترقی کی باتیں کیں ، لیکن اب یہ بھروسہ کرنا مشکل لگتا ہے کہ 2014ء کا انتخاب نئی امنگوں کا انتخاب تھا۔ مودی کے ذریعہ اقتصادی انقلاب لانے کے سارے وعدے فیل ہوگئے۔ لوگوں کو ایک بہتر ہندوستان کی توقع تھی، لیکن مودی حکومت کی مدت کارکردگی میں مایوسی کا دور شروع ہوا۔ مودی نے بے شمار مسائل میں الجھی عوام کے مسائل کو دور کرنے کے بجائے ان کے درمیان مذہبی تفریق اور جھوٹی قوم پرستی کا جذبہ پیدا کرکے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر بھر دیا۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان بہت تیزی سے عدم تعاون کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ میگزین لکھتا ہے کہ مودی نے کبھی بھی امن و اتحاد کی بات نہیں کی۔ انہوں نے ہندو مسلم تنائو کو بڑھاوا دیا ہے اور پانچ سال میں ہندوستان ایسا آتش فشاں بن گیا ، جہاں کچھ لوگ ہاتھ میں مشعل لے کر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ میگزین نے 2002ء کے گجرات فسادات کو انڈرلائن کرتے ہوئے نریندر مودی پر ’’فسادیوں کا دوست‘‘ ثابت ہونے کی بات کہتے ہوئے ملک میں فسادات اور مذہبی منافرت کے وقت ان کے ’’چپ سادھنے‘‘ پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

’’ٹائم‘‘ کے اس مضمون میں 1984ء کے سکھ فسادات اور 2002ء کے گجرات فسادات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ کانگریس قیادت بھی 1984ء￿  کے فسادات کے الزام سے بری نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس نے فسادات کے دوران پاگل اور بے ہنگم بھیڑ کو خود سے دور رکھا۔ لیکن نریندر مودی 2002ء کے فسادات کے دوران اپنی معنی خیز خاموشی سے ’’فسادیوں کے دوست‘‘ ثابت ہوئے۔ میگزین آگے لکھتا ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں ملک کے وزیر اعظم کے طور پر مودی دور حکومت میں ملک بھر میں گجرات فسادات جیسے ہی پرتشدد ماحول کا تکرار ہوا۔ گئو رکھشا کی آڑ میں ہوئے موب لنچنگ میں ایک مخصوص طبقے کو ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے میگزین لکھتا ہے کہ بھارت میں گائیوں کو لے کر مسلمانوں پر بار بار حملے ہوئے اور ان کے قتل ہوئے۔ ایک بھی ایسا مہینہ نہیں گزرا جب لوگوں کے اسمارٹ فون پر وہ تصویریں نہ آئیں جس میں غصے سے بھری ہوئی ہندو بھیڑ کسی مسلم کو پیٹ نہ رہی ہو۔ گائے کے نام پر سرعام مسلمانوں کو کاٹا گیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت نے اس پر کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا۔

ٹائم میگزین نے واضح طور پر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کو جمہوریت کے لئے خطرہ بتایا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ بھارت میں مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے درمیان عدم رواداری کی کھائی کے ساتھ طبقاتی خلیج تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ 2017ء میں اترپردیش میں جب بی جے پی نے اسمبلی انتخاب جیتا تو بھگوا پہننے والے اور نفرت پھیلانے والے ایک مہنت کو چیف منسٹر بنا دیا گیا، جو کھلے عام ہندو مسلم کے درمیان تقسیم کی بات کرتا ہے۔

میگزین لکھتا ہے کہ بی جے پی کی مخالف پارٹی کانگریس چاہے کتنی ہی دقیانوسی اور کرپٹکیوں نہ ہو، لیکن وہ معصوم لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑاتی نہیں ہے۔ راہل گاندھی اگرچہ موروثی سیاست کے نمائندے ہیں ، لیکن انہوں نے کانگریس کو جدید بنایا ہے۔ غورطلب ہے کہ راہل گاندھی اور کانگریس کی تائید میں یہ برٹش میگزین پہلی بار نہیں لکھ رہا ہے۔ پچھلے لوک سبھا انتخاب میں بھی اس نے نریندر مودی کے مقابلے میں راہل گاندھی کو زیادہ صلاحیت مند اور سیکولرازم کے پیمانے پر کھرا بتایا تھا۔

’ٹائم‘ میگزین ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے سیکولرنظریہ اور مودی کے دور حکومت میں رائج سماجی کشیدگی کا موازنہ بھی کرتا ہے۔ میگزین لکھتا ہے کہ 1947ء  میں برٹش انڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوا اور پاکستان کا جنم ہوا، لیکن کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فیصلہ کیا کہ بھارت صرف ہندوئوں کا گھر نہیں ہوگا، بلکہ ہر دھرم و مذہب کے لوگوں کے لئے یہاں جگہ ہوگی۔ نہرو کا نظریہ سیکولر تھا، جہاں سبھی مذاہب کی یکساں طور پر عزت تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کو شریعت کے مطابق فیملی لاء ماننے کا حق دیا گیا، جس میں طلاق دینے کا ان کا طریقہ تین بار طلاق بول کر طلاق لینا بھی شامل تھا، جسے نریندر مودی نے 2018ء میں ایک حکم جاری کرکے اسے غیر قانونی قرار دے دیا۔ کسی مذہب کے پرسنل لاء میں تبدیلی کا یہ طریقہ انتہائی غلط اور بدقسمتی سے مامور تھا۔ تین طلاق کو ختم کرکے انہوں نے مسلم خواتین کا مسیحا بننے کی کوشش تو کی لیکن تصویر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین کے تحفظ کے معاملے میں ہندوستان آج بھی سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔ ’’ٹائم‘‘ اپنے مضمون میں مودی دور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آزاد ہندوستان کا سیکولرزم، آزادی اور صحافت کی بے باکی کا خاتمہ ‘ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی سازش کا حصہ ہوں۔

مودی کے پانچ سالہ ’’سیاہ حکومت‘‘ کو دیکھ کر میگزین مودی پر حملہ آور ہے۔ وہ پانچ سال میں ’’ورلڈ لیڈر‘‘ سے ’’نیشن ڈیوائڈنگ کیٹلسٹ‘‘ کے طور پر معروف ہو چکے مودی پر الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے بی جے پی کی ہندوتوا کی سیاست کی وجہ سے ووٹروں کے پولرائزیشن کے لئے گھٹیا اور مذموم طریقے استعمال کیے ہیں۔ نریندر مودی نے ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے جذبات کو بڑھانے پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی اس کی خواہش ظاہر کی۔ دنیا بھر کے اسٹیجوں پر آکر وہ بھارت کی جس نام نہاد لبرل ثقافت کا ذکر کرتے تھے،دراصل اس کے برعکس وہاں مذہبی قوم پرستی، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور نسلی بنیاد پرستی ہی پروان چڑھ رہی تھی۔

 میگزین کا ماننا ہے کہ 2014ء میں لوگوں کو اقتصادی اصلاحات کے بڑے بڑے خواب دکھانے والے مودی اب اس بارے میں بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اب ان کا سارا زور ہر ناکامی کے لئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرا کر لوگوں کے درمیان قوم پرستی کے جذبات کو پھیلانا ہے۔ اپنی ناکامیوں کے لئے اکثر کانگریس قائدین کو نشانہ بنانے والے مودی عوام کی نبض کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اپنے آپ کو پھنسا محسوس کرتے ہیں تو خود کو غریب کا بیٹا بتانے سے نہیں چوکتے۔ مودی نے ہمیشہ سیاست کو اپنے اردگرد گھمانے کی کوشش کی ہے۔ تبھی تو ان کی پارٹی کے ایک نوجوان لیڈر تیجسوی سوریا کہتے ہیں کہ اگر آپ مودی کے ساتھ نہیں ہیں تو آپ دیش کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ مودی کو لگتا ہے کہ اقتدار پر جمے رہنے کے لئے قوم پرستی ہی سب سے بہتر راستہ ہے۔ اپنی جھوٹی قوم پرستی کی آڑ میں ہند۔ پاک کے درمیان چل رہے تنائو کا فائدہ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔ انہیں جوڑ توڑ کرکے کسی طرح اقتدار پرواپسی چاہیے، اور اسی لئے اقتصادی ترقی پر وہ قوم پرستی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مودی نے تقریباً ہر میدان میں اپنے من پسند فیصلے لئے۔ ہندوتوا کے پرزور حامی سوامی ناتھن گرومورتی کو ریزرو بینک آف انڈیا کے بورڈ میں شامل کیا۔ ان کے بارے میں کولمبیا کے ماہر معاشیات نے کہا تھا کہ ’’اگر وہ ماہر معاشیات ہیں تو میں بھرت ناٹیئم ڈانسر‘‘۔ میگزین کا کہنا ہے کہ گرومورتی نے ہی کالے دھن سے لڑنے کے لئے نوٹ بندی کا مشورہ دیا تھا۔ اس کی مار سے بھارت آج بھی نہیں اٹھ سکا ہے۔ میگزین کا کہنا ہے کہ بیشک مودی پھر سے انتخاب جیت کر سرکار بنا سکتے ہیں لیکن اب ان میں 2014ء  والا کرشمہ نہیں ہے۔ اس وقت وہ مسیحا تھے، لوگوں کی امیدوں کا مرکز تھے۔ ایک طرف انہیں ہندئوں کا سب سے بڑا نمائندہ مانا جاتا تھا تو دوسری طرف لوگ ان سے سائوتھ کوریا جیسے ترقی کی امید کررہے تھے۔ اس کے برعکس اب وہ صرف ایک سیاست داں ہیں جو اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

میگزین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس ہندوستانیوں کے ووٹ کی زیادہ حقدار ہے۔ غور طلب ہے کہ سال 2014ء میں بھی ٹائم نے مودی کے مقابلے میں راہل گاندھی کو زیادہ صلاحیت مند اور سیکولرازم کے پیمانے پر کھرا بتایا تھا، مگر اس وقت یو پی اے پر کرپشن کے کئی الزامات لگ چکے تھے۔ اس وقت منموہن سنگھ جیسے ’’خاموش وزیر اعظم‘‘ کے آگے ’’بڑبولے‘‘ مودی لوگوں کے دلوں پر چھا گئے تھے۔ مگر پانچ سال میں مودی کا اصلی چہرہ ملک نے بھی دیکھ لیا اور ’’ٹائم‘‘ کے ذریعہ دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ بھارت میں لوک سبھا انتخاب کے دوران ’’ٹائم‘‘ کی اس رپورٹ سے سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے۔ کانگریسیوں کے ٹوئٹر اکائونٹس، فیس بک، ویب سائٹس، واٹس اپ گروپوں پر میگزین کا کور ٹرینڈ کررہا ہے۔ انتخابی ماحول میں ایک طرف وزیر اعظم دیش بھکتی کے نام پر انتخابی بیان بازی میں جٹے ہیں اور دوسری طرف دنیا کی مشہور میگزین کے کور پیج پر انہیں بھارت کو بانٹنے والا شخص کہا جارہا ہے۔ وہ بھی ان کی خوفناک تصویر کے ساتھ۔

٭٭٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔