اردو میں جدیدیت کا تصور اور فکری پس منظر

ڈاکٹرمحمد اقبال خان

(ہند وارہ، کپوارہ، جموں وکشمیر)

جدیدیت سے کیا مراد ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں نئے عہد کے ان اساسی عناصر کا جائزہ لینا ہوگا جو اس کے تشکیلی عناصرکہلائے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ادبی حیثیت اپنی مخصوص خصوصیات کی بنا ء پر ایک واضح انفرادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ ہر دور میں ادیبوں اور شاعروں نے اپنے عہد کے حالات کے شعور کو اپنی تخلیقات میں ظاہر کیا ہے۔ مثلاً انیسویں صدی میں ہنگامہ غدر کے بعد ہندوستان میں مغربی اقتدار کے مستحکم ہونے کے نتیجے میں نئے حالات کے شعور کا اظہار آزاد ؔ، حالی ؔ اور سرسید کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اسی طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی اثرات کے زیر اثر پرانی اور نئی قدروں کے کرب انگیز کشمکش کا اظہار اقبال ؔ کے یہاں موجود ہے۔ لیکن جب ہم عہدِجدیدیت کے شعور اور اس کے مختلف تخلیقی اظہارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کی خصوصیات نہ صرف اس کی انفرادیت کو واضح کرتی ہیں بلکہ ماقبل کے ادوار کے شعور سے فرق کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔

جدید عہد سائنسی عقلیت کا عہد ہے۔ سائنسی عقلیت زندگی اور کائنا ت کے بارے میں ایک ایسے رویئے کی غماز ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انسان کے مزاج، رویے اور شعور میں گہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔ جدید انسان جو نئی نسلوں کا نمائندہ ہے ذہنی اور جذباتی طور پر اتنا مختلف غیر روایتی اور جدید ہوگیا ہے کہ پرانی نسلوں سے بالکل مختلف ہوگیا ہے۔

سائنسی ترقی نے زمان و مکان کی دیواروں کو ڈھادیا ہے اور ساری دنیا ایک خطے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ آج سائنسی انقلاب نے بین الاقوامی حیثیت حاصل کی ہے اور نئے عہد کے کلچر کا تصوّر سائنس کے بغیر ناتمام رہ جاتا ہے۔ ہندوستان کی تہذیبی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط ہی سے انگریزوں کے و اردِہند ہونے کے بعد یہاں کے روایتی تہذیبی تصورات جیسے ذات پات، مشترکہ خاندان، پردہ سسٹم، توہم پرستی اخلاقی نظریے اور روحانیت مغربی علوم و فکر سے متاثر ہونے لگے اور بیسویں صدی کی آمد پر ملک میں سماجی تبدیلیوں کا عمل تیز تر ہو گیا۔

بیسویں صدی کے آغاز سے سائنس کی برق رفتار ترقی نے ملکوں کے درمیان وقت اور فاصلہ کی دیواروں کو گرانا شروع کیا اور اس صدی کے نصف تک پہنچتے پہنچتے دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ یورپی ممالک میں سائنس اور تکنالوجی کی پیش قدمی نے ایشیا کے ممالک کو تیزی سے متاثر کرنا شروع کیا۔ ہندوستان بھی اسی تبدیلی کے زد میں آگیا۔ فن کا راجتماعی تصور ات سے مایوس ہو کر اپنی ذات کی طرف دیکھنے لگا اور یہاں بھی اسے محرومی اور کرب و انتشار کے سوا کچھ نہیں ملا۔ صبر، توکل، تہذیب، شرافت اورانسان دوستی کے تصورات پارہ پارہ ہونے لگے۔ سائنسی نقطہ نظر عام ہونے لگا۔ سیاسی عدم استحکام۔ لاقانونیت، لوٹ کھسوٹ اور اقتدار پرستی کی لعنتوں نے انسانی زندگی کو کافی متاثر کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر نیا فن کار شدت کے ساتھ بے چارگی اور بے بسی کا سامنا کرنے لگا۔ وہ ہجوم میں تنہائی محسوس کرنے لگا۔ جس کی وجہ سے تنہائی کا احساس نئے ادب کا بنیادی احساس بن گیاہے۔

بین الاقوامی سطح پر جدید عہد میں سائنس کی برق رفتار ترقی کی بدولت فطرت کی پرُ اسرار قوتوں پر قابوں پانے کا عمل جاری ہے زندگی، موت، کائنات خلاء اور چاند ستاروں کے بارے میں ادراک کی سرحدیں وسیع ہورہی ہیں۔ پرانے توہمات ختم ہو رہے ہیں۔ سائنسی ترقی کے نتیجے میں عقلیت کا رویہ انیسویں کے وسط سے ہی نمایاں ہونے لگا تھالیکن جدید دور میں یہ سائنسی رویہ گہراہی اور شدت اختیار کرگیا ہے۔ یہ فکر و نظر کا ایک نیا انقلاب ہے جو انسان کے ترقی پذیر شعور کا آزادانہ اظہار ہے۔ یہ ذہنی انقلاب اور کائنات کی معنویت کی عقلی اور تجزیاتی تشریح پر مبنی ہے۔

فلسفیانہ سطح پر انسان حیات و کائنات کے اسرار کو مذہبی عقیدوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن جدیدیت کی انفرادی خصوصیات یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات نے فلسفیانہ  تصورات کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا ہے۔ آج کا فنکار آگہی کی ایک ایسی منزل پر آچکا ہے جہاں کائنات کی پر ُ اسراریت اس کے لیے کھلا چلینج بن چکی ہے۔ وہ تنہا فرد ہے جو زندگی اور کائنات کی بے معنویت کا کرب جھیل رہا ہے۔ ادھر فلکیات نے زمینی سیارے کو حقیر اور بے مایہ ثابت کیا ہے۔ نفسیاتی سطح پر انسانی شعور کا تجزیہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر اپنی خواہشوں کے حوالے سے قدیم وحشی انسان یاجنگلی جانور سے الگ نہیں۔ تہذیبی روایات سے انسان انفرادی سطح پر عداوت، عیب جوئی اور قتل کاا رتقاب کرتا ہے اور اجتماعی سطح پر تباہ کن جنگوں یا قتل عام کرتا ہے۔ ان حالات میں جدیدیت کے تصور کی تشکیل ہوئی ہے۔ جدیدیت کی رو سے انسان حیات وکائنات، معاشرتی رشتوں اور موت کے مسائل کے بارے میں غیر روایتی انداز سے سوچتا ہے۔ اس سلسلے میں جدیدیت سے وابستہ اردو ادب کے نمائندہ نقادوں نے جدیدیت کی تعریف مختلف انداز میں بیان کی ہے۔ ذیل میں چند تعریفیں پیش ہیں :

وحید اختر نے جدیدیت کی تعریف میں لکھا ہے کہ:

’’ جدیدیت کی مختصر ترین تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ یہ اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنے اور اسے تمام خطرات و امکانات کے ساتھ برتنے کا نام ہے۔ ۔ ۔ جدیدیت ایک ایسا مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے ہر عہد میں ان لوگوں نے جو حقیقی طور پر زندہ رہے ہیں اس عمل میں حصہ لیا ہے۔ انھوں نے فکر و فن کی سطح پرفرسودہ اقدار کے خلاف جنگ کرکے نئی قدروں کی پرورش کی اور عملی زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھالا ہے۔ ‘‘  ۱؎

قاضی سلیم کی نظر میں جدیدیت کی تعریف یہ ہے:

’’جدیدیت ایک ادبی رویہ بھی ہے اور ادیبوں کا ایک مسلک بھی ‘‘۲؎

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے جدیدیت کی تعریف کے بارے میں اپنے خیالات کا بیان اس طرح پیش کیاہے :

’’ جدت کا تصور ادبی تنقید کی اصطلاح میں صرف تاریخ تک محدود نہیں وہ تو ایک زندگی اور اس کے بدلے ہوئے معملات ومسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘ ۳؎

جدیدیت پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لطیف الرحمن لکھتے ہیں :

’’ جدیدیت لفظ جدید سے مشتق ایک ادبی اصطلاح ہے جس نے ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد اردو میں ایک ہمہ گیر ادبی تحریک کی حیثیت حاصل کی۔ ترقی پسند تحریک کی سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے خلاف ایک اجتمائی بغاوت تھی۔ جدیدیت سماج اور میناکی جبریت کے خلاف ایک باغیانہ رد عمل ہے۔ جدیدیت فرد کی داخلی جلاوطنی، موضوعی بے پناہی کی ترجمانی و تنقید ہے جس کے نتیجے میں فرد تنہائی الجھن، بے گانگی، اجنبیت، اکیلا پن، کلبیت، بوریت، یکسانیت، بے معنویت، مہملیت، جرم، بے خوفی، بے سمتی، بے یقینی، نا اُمیدی، بیتابی، اکتاہٹ، بیزاری اور مفلسی کی کیفیت سے دور چار ہے۔ ان رحجانات کے اعتبار سے جدیدیت فلسفہ وجودیت کی توسیع ہے۔ ‘‘  ۴؎

اردو ادب میں جدیدیت کا نمائندہ نقاد اور مبلغ شمس الرحمن فاروقی نے جدیدیت کی تعریف ان لفظوں میں بیان کی ہے:

’’ جدیدیت تمام فلسفوں اور نظریوں کے حدود کو توڑنے کا نام ہے۔ ناوابستگی ہی اس کی وہ خصوصیات ہے جو اسے پچھلے تمام ادب سے ممتاز کرتی ہے۔ گذشتہ ادب سے اگر اس کا سلسلہ کہیں ملتا ہے تو وہ وہیں جہاں ادیب نظرئیے اور فلسفے سے بالا تر ہوگیا ہے۔ ‘‘   ۵؎

  آل احمد سرور جدیدیت کی تعریف کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ جدیدیت صرف انسان کی تنہائی یا مایوسی، اس کی اعصاب زدگی کی داستان نہیں ہے اس میں انسان کی عظمت کے ترانے بھی ہیں۔ اس میں فرد اور سماج کے رشتے کو بھی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں انسان دوستی کا ایک جذبہ بھی ہے۔ مگر جدیدیت کا نمایاں روپ آئیڈیالوجی سے بیزاری، فرد پر توجہ اس کی نفسیات کی تحقیق، ذات کا عرفان اس کی تنہائی اور اس کی موت کے تصور سے خاصی دلچسپی ہیں۔ ‘‘۶؎

یہاں یہ  بات قابل ذکر ہے کہ جدیدیت کی اصطلاح جس قدر عام فہم نظر آتی ہے اس کے مفاہیم، نوعیت اور منصب اسی قدر بے حد پیچیدہ ہیں۔ اردو میں چونکہ جدیدیت مغرب کے راستے بر آمد ہوئی ہے اس لیے جدیدیت نے مغرب میں جو رنگ اپنا یا اس کا براہ راست اثر اردو ادب پر بھی پڑا۔ مغرب  میں جب جدیدیت کی تحریک پروان چڑ رہی تھی تو اسی دوران اس سے منسلک دوسرے اصطلاحات بھی رائج تھی۔ غرض جدیدیت کے معنی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے اس کے مختلف دائروں کو زیر بحث لانا ضروری ہے۔ جدیدیت میں بنیادی طور پر تین اہم دائرے قابل ذکر ہیں جن کی تفصیل ذیل میں بیان ہے۔

  (۱)  جدت پسندی     ( MODERNITY )

(۲)  تجدید کاری     ( MODERNIZATION )

  (۳)  جدیدیت       ( MODERNITY)

جدت پسندی، جدید کاری اور جدیدیت یہ تینوں اصطلاحیں اصل میں جدید یا ماڈرن کی طرف راغبت رکھتے ہیں۔ اس لئے لوگ ان کی فرق کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ نتیجتاً جدیدیت کی مختلف سطحوں میں امتیاز کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ان تینوں کے الگ الگ معنی اورمفاہیم ہیں۔

(۱)  جدت پسندی     ( MODERNITY )

جدت پسندی (Modernity) اُن رسومات یا بدعات کے خلاف ایک تحریک تھی جو مذہبی حلقوں ( عیسائیت) میں موجود تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تحریک مقبول ہوتی گئی۔ دراصل مغرب میں ایک وقت ایسا تھا جب عیسائیت کی تنگ نظری کی وجہ سے زبردست خوف و دہشت کا ماحول رائج تھا۔ پوپ مذہبی رسومات کے نام پر عام لوگوں پر بے پناہ ظلم و استحصال کر رہے تھے۔ زبردستی سے لوگوں کو عیسائیت اپنانے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی ایسا کرنے سے انکار کرتا تھا تو اس کوموت کی سزا دی جاتی تھی۔ اس رحجان کی ابتدا جنوبی فرانس سے ہوئی۔ وہاں جو لوگ مرتد ہوتے تھے ان کو مجرم قرار دے کر سخت سے سخت سزا ئیں دی جاتی تھیں۔ ان کی جائیدادضبط کر لی جاتی تھی، بعض صورتوں میں ان کو زندہ جلایا جاتا تھا۔ ہسپانیہ، جرمنی، اٹلی، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں پادریوں کو سخت ترین اختیارات حاصل تھے۔ وہ جس کو چاہے سزا دے سکتے تھے۔ ہسپانیہ اس لحاظ سے سب سے زیادہ مشہور تھا۔ وہاں کے بادشاہ فرڈنینڈ اور اس کی ملکہ نے پوپ کے ساتھ مل کر اُن لوگوں کو زندہ جلایا جو عیسائیت اور اس کے طور طریقوں کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان سب کاموں میں کلیسا کا ایک اہم رول ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سارے بدعات اور متعصب کام رائج تھے جو خلافِ عقل تھے۔ غرض اس مذہبی ظلم و ستم اور فرسودہ رسم ورواج کے خلاف ا ٹھارویں صدی کی آخری دھائی اور انیسویں صدی کے اوائل میں ایک تحریک چلی۔ جو بعد میں Modernity (جدت پسندی )کے نام سے مقبول ہوئی۔ دراصل ہر زمانے کے با شعور لوگوں کے دلوں میں اس بات کی تڑپ رہتی ہے کہ فرسودہ رسوم وروایات کے بدلے ایک ایسے نظام کو وجود میں لایا جائے جو کار آمد ثابت ہو۔  اس سلسلے میں مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے بعد جو علمی، فکری، سماجی اور اصلاحی تبدیلیاں رونما ہوئیں، انہیں ماہر بشریات ’’ماڈرنیٹی‘‘ (Modernity) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ناصر عباس نیررکھتے ہیں کہ:

  ’’یہ جدت ہر زمانے میں اور ہر تخلیق کار کے ہاں (خواہ کلاسیکی ہو یا رومانی، جدید ہو یا مابعد جدید) کم یا زیادہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے من وعن کوئی باقاعدہ فلسفہ موجود نہیں ہوتا۔ یہ فقط پامال راستوں سے بچ کر چلنے اور نئے راستے کی حیرت سے فیضیاب ہونے کا روّیہ ہے۔ ‘‘ ۷؎

(۲)     تجدید کاری     ( MODERNIZATION )

  تجدید کاری (Modernization) کا تعلق صنعتی انقلابات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اثرات سے ہونے والی تبدیلیوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ سائنسی ایجادات کی وجہ سے جو معاشرتی اور سماجی وذہنی تبدیلیاں رونماہوئیں اس کا تعلق تجدید کاری کے زمرے سے جوڑا گیا ہے۔ دراصل تجدید کاری یا جدید کاری عمرانیات ( Sociology) کے ساتھ ایک ایساگہرا رشتہ رکھتا ہے جو سماج کی ترقی اور خوشحالی پر اصرار کرتاہے جس کے لیے نئے نئے سائنسی ایجادات اور مشینی کاموں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یہاں پر کسی قسم کی مذہبی پابندیاں عائید نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہر شخص کو جسمانی، سماجی اور نفسیاتی طور پر نقل و حرکت کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہیں تاکہ وہ تبدیل شدہ معاشرتی نظام میں بہتر طور پر کام کرسکیں۔

(۳)  جدیدیت       ( MODERNITY)

جدت پرستی (Modernity) اور تجدید کاری (Modernization) کے برعکس جدیدیت (Modernism) اپنے مفاہیم میں فکری وفلسفیانہ بنیادوں پر دونوں سے الگ نظریہ رکھتا ہے۔ اس کے دائرے میں پوری زندگی آجاتی ہے۔ کیونکہ یہ زندگی کے ہر پہلو کو نئے زاوئیے سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک سائنسی عقلیت پسندی کی تحریک ہے جو مذہبی رسم و رواج کی پابندیوں سے بالکل آزاد ہیں۔ اس تصور کے اثرات سے عالمی سطح پر دو طرح کے فکری رحجانات وجود میں آئیے ہیں۔ ایک سیکولرازم جبکہ دوسرا انسان دوستی کا ہے۔ دونوں رحجانات کی وجہ سے مذہبی چلن ختم ہوگیا ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ نفسیاتی تناؤ کے شکار ہوگئے۔ اس ذہنی کشمکش کے تناؤ کی وجہ سے ’’ہیومنزم‘‘ کا تصور وجودمیں آیا ہے۔ ہیومنزم میں عقل ومنطق کے اصولوں اور ضوابط پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر مغربی معاشرت اور سماج کی تعمیر وتشکیل میں گہری ساخت کے طور پر کام کرتی ہے۔ جس میں انسان خود اپنی ذات پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ دراصل ہیومنزم کی وجہ سے ایک نیا تصور ِخودی وجود میں آیا ہے جو کہ مذہبی اعتقادت کی نفی کرتا ہے۔ اس میں ابن آدم کو فکری و ذہنی آزادی میسر ہوتی ہے۔ یہی فکر و سوچ ادب میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کے اثرات سے ادب میں جدیدیت کی تحریک وجود میں آئی ہے۔ اس حوالے سے ناصر عباس نیر لکھتے ہیں :

  ’’ حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت کی ادبی تحریک کے پس منظر میں ’’ہیو منزم‘‘ ہی موجود ہے۔ اس کا آغاز اٹھارہوں صدی کے آخری نصف میں ہوا۔ اسے روشن خیالی کی تحریک کا نام بھی دیا گیا۔ روشن خیالی کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ عقل انسانیت کے تمام مسائل کو حل کر دے گی۔ دنیا کو تمام ناپسند یدہ عناصر جیسے توہمّات، درندگی، جہالت، ناانصافی سے نجات دلادے گی۔ ‘‘  ۸؎

مغرب کے اسی روشن خیالی کو آگے لے جانے میں مختلف دانشوروں اور مفکروں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ان میں فرانس کے وولتیر (Voltaire)، ، جرمنی کے لیبنیز (Leibniz) اور کانٹ  (kant)  کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ان مذکورہ دانشوروں نے عقل کے فلسفے کو زندگی کے ہر شعبیٔ کے لیے سب سے کار آمد حربے کے طور پر استعمال کرنے کی تلقین کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہیومنزم کا یہی تصور ایک ہمہ گیر فلسفے کی شکل اختیار کر گیا۔ جمہوریت، سائنس، فلسفہ، اخلاقیات اور جمالیات ایسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے جدیدیت کو تقویت حاصل ہوئی۔ انھیں جدیدیت کے’’مہابیانیے ‘‘قرار دیے گئے ہیں۔

اُردو ادب کے معروف تنقید نگارپروفیسر آل احمد سرور ر ماڈرنٹی (Modernity) ، جدید کاری  (Modernization)  اور جدیدیت  (Modernism)  کے فرق کو اس طرح واضح فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں :

’’جدیدیت ‘‘ یا Modernism)) کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں Modernity اور Modernism کو فرق کرنا پڑے گا۔ (Modernism)کو میں جدیدیت اور Modernity) (کو میں جدت پرستی کہوں گا۔ جدت پرستی میں دو پہلو ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اول تو یہ اصطلاح ابتداء میں کلیسا کے حلقوں میں مذہبی اصلاح کے لئے استعمال کی گئی۔ جس میں روایت کے بجائے عقل پر زیادہ زور تھا۔ دوسرے اس میں جدیدیت کے علاوہ موجودہ دور کے سائنسی یا صنعتی کمالات، ٹیکنالوجی کی پرُکشش اور جدید نظریات کی آنکھ بند کر کے تقلید کا پہلو بھی ہے اور نئے کی اس لئے ستائش ہے کہ وہ نیا ہے۔ ‘‘ ۹؎

جدت پسندی، تجدید کاری اور جدیدیت جیسی اصطلاحوں کی تشریح وتغیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اسکاٹ لیش نے یہ مشورہ دیا ہے کہ ہمیں ویبرؔ اور ہیبرؔ کاس کی پیروی کرتے ہوئے جدیدیت کو اس کے تمام ترمترادفات کے ساتھ ایک تہذیبی امتیاز ( Differentiation  Cultural ) اور سماجی خود مختاری( Social Autonomization) کے بطورِ انگریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایسا کرنے کے بعد ہی جدیدیت کی کم از کم یہ تعریف کی جا سکتی ہے کہ:

’’جدیدیت انیسویں صدی کے آخر میں نمود پزیر ہونے والا ایک امتیاز ی عمل (Proces of differentation) ہے۔ ‘‘ ۱۰؎

جدیدیت کے دور میں جو ادب تخلیق کیا گیا وہ ہر لحاظ سے جدید اور منفرد ادب ہے۔ اس دوران متعددفکری وفنی، نظریاتی واسلوبیاتی دھارے جدیدیت کے ساتھ مل کر اس رجحان کو تقویت پہنچاتے رہے۔ مثلاً (Constructivsim)، دادازم، اظہاریت، سررّیلزم، شعور کی رَو، علامتیت وغیرہ۔ لیکن جس فلسفہ نے خصوصیت کے ساتھ جدیدیت کو پروان چڑھا دیا وہ فلسفہ’’ وجودیت ‘‘ ـہے۔ وجودیت وہ فلسفہ ہے جو وجود خصوصیت کے ساتھ انسانی وجود کے تجزئیے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ یہ نظرئیہ انسانی وجود کو عقل وشعور کے مقابلے میں کافی اہمیت دیتا ہے اور تجریدی فلسفہ اور سائنسی خیالات کی روشنی میں وجود کی تفسیر کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ بلکہ یہ موضوعیت اور داخلیت کے حق میں ہے اور معروضی وتجریدی طریقہ کار کے برعکس داخلی بصیرت اور بصارت کو ترجیح دیتا ہے۔ وجودیت کے فلسفے کے مطابق یہ ایک ایسا نظرئیہ ہے جو وجد، خیال وتصور سے ماوراہے۔ اسی لئے سائنسی تجزیہ وتحلیل اور فلسفیانہ افکا رونظریات کے ذریعے یہ ترسیل وابلاغ کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ وجو دیت فرد کی آزادی اور خود مختاری کی حمایت کرتی ہے اور اس کائنات کو بے معنی تصور کرنے کے باجود انسان کو اس میں اپنا مقام حاصل کر نے کی ترغیبیں دیتی ہے۔ گویا وجودیت کا فلسفہ تمام عالم انسانیت کے لیے یا سیست کا احساس بھی دلاتا ہے اور رجائیت کا دامن نہ چھوڑنے پر آمادہ بھی کرتا ہے۔

جدیدیت میں بنیادی طور پرتین اہم نکات موجود ہوتے ہیں یعنی عقلیت، داخلیت اور خود مختاریت۔ دراصل ان تینوں کی خصوصیات ’’وجودیت‘‘سے قدر مشترک ہے۔ جس کی وجہ سے آگے چل کر ان ہی تین عناصر سے وجودیت کا فکری تانابانا تیار ہوا ہے۔ اس طرح وجودیت کے فلسفے کو جدید ادب کے بنیادی عنصر کے طور پر تسلیم کیا گیاہے۔ دراصل ادب میں اس رحجان کے ابتدائی نمونے پہلے مغرب میں ملتے ہے۔ پھر بعد میں یہ رحجان جدیدیت کے اثرات سے اردو ادب میں داخل ہوا۔ عالمی ادب میں پروست، کافکا، کامیو، ڈی۔ ایچ لارنس، جیمس جوائس، ولیم فاکز، ٹی۔ ایس ایلیٹ، ایذراپاؤنڈ، ڈبلیو۔ سی ولیمز، بریخت اور سیموٹل بیکٹ نے اپنی تحریروں میں وجودیت کو پیش کیا ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ابرا رحمانی وجودیت کے شروع ہونے کے اسباب کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’وجودیت کا بنیادی عنصر موت کا شدید احساس ہے۔ کرکے گارڈ کے دور میں یہ مذہبی گروہوں، طبقوں، پارٹیوں اور ریاستوں کے دائرہ اختیار کے بڑھ جانے کے سبب سے فرد کی آزادی فکرو عمل کو زبردست خطرہ لاحق ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوا اور سارتر اور کامیو کے عہد میں دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں جس کی نمو ہوئی۔ ‘‘ ۱۱؎

غرض جدیدیت پر وجودیت اس حد تک اثر انداز ہوئی کہ اکثر وبیشتر دانشوروں نے ’’وجودیت‘‘ کو جدیدیت کا سنگ ِبنیاد قرار دیا ہے یا پھر جدیدیت کو وجودیت کی ہی توسیع مانا ہے۔ سارتر، کا فکا اور کامیو کی ادبی تخلیقات نے وجودی جدیدیت کے فروغ وارتقاء میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔ اُردو ادب خصوصاً اُردو افسانہ اور ناول پر آج تک ان کے اثرات باقی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو پاک کی جدید شاعری ونثر نگاری میں بھی وجودیت کے تمام عناصر کسی نہ کسی شکل میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ہندوستان میں جدیدیت ترقی پسند تحریک کے خلاف ایک ردِعمل تھی۔ ساتھ ہی تقسیم ملک، فرقہ وارانہ فسادات، نسلی تنگ نظری، جارحانہ علاقائیت اور انتہا پسندی کی وجہ سے جو بے چینی کا ماحول پیدا ہوا تھا اس نے انسان کے ذہن میں انتشار اور فکری تناؤ پیدا کیا تھا۔ تقسیم ملک اور ہجرت دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے اثرات جدیداردو ادب پر کافی زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کیونکہ اردو زبان کے بولے والے بہت سے لوگ ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ نیاماحول، تہذیب و تمدن اور اس وقت کی فرقہ وارانہ حالات ان لوگوں کے لیے کافی پریشانیوں اور مصیبتوں کا باعث بنا۔ دونوں ملکوں کے لاکھوں لوگ بے چینی اور بے بسی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے۔ جس کا خاصا اثر جدید اردو ادب پر دیکھنے کو ملا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید تخلیق کار داخلی سطح پر خوف و دہشت کا شکار ہوا تھا۔ نتیجے کے طور پر ایسے مو ضوعات تخلیق کئے گئے جن میں تقسیم ملک کے بعد پیدا ہونے والے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہیں۔ اس سلسلے میں جن موضوعات سے جدید فنکار نے اپنی ادبی دنیا بسائی ہے ان میں انتشار و بحران، کسمپرسی وبے کسی، بے زاری و بے کیفی، مایوسی و نااُمیدی، تنہائی و تاریکی، خوف ودہشت، خلا و نفی، بے زمینی و جلاوطنی، بے گانگی و اجنبیت، لاشخصیت و لا فردیت، غصہ و احتجاج، یاسیت و قنوطیت، جرم و معصیت، بے ترسیلی و بے زبانی، بے معنویت و مہملیت، بے سمتی وبے تعلقی، محدودیت و زوالیت، تقدیریت وجبریت، تشکیک و تذبذب، گریز و فرار، انکار و بغاوت، متلی اور ابکالی، بے رشتگی و بے تعلقی، وغیرہ۔ قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو اس دور میں جدید تخلیق کاروں نے اپنے شعر و ادب میں استعمال کئے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’جدیدیت، ہمیشہ تخریب اور تعمیرکے سنگم پر جنم لیتی ہے۔ اس لئے جہاں ایک طرف ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کے جملہ مراحل کی نشان دہی کرتی ہے وہاں اس ’’نئے پیکر‘‘ کے اُبھرنے کا منتظر بھی دکھاتی ہے۔ جو قدیم کے ملبے سے بر آمد ہو رہا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ جدیدیت صرف اسی وقت نمودار ہوتی ہے جب فکری تنائو ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے، جہاں مسلمہ اقدار اور آداب ریزہ ریزہ ہونے لگتے ہیں اور اقدار وآداب کی ایک نئی کھیپ وجود میں آنے کے بے قرار ہوتی ہے۔ ‘‘      ۱۲؎

اُردو کے جن نامور بزرگ اور نئے نسل کے ناقدین نے جدیدیت کے نظرئیے کو روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیاہیں ان میں ڈاکٹر عبدالعلیم، آل احمد سرور، احمد ندیم قاسمی، خلیل الرحمن اعظمی، کلیم الدین احمد، عبادت بریلوی، محمد حسن، محمد عقیل رضوی، قمر رئیس، علی احمد فاطمی، اختر اور نیوی، وارث علوی، شارب ردولوی، وقار عظیم، پروفیسر وحید اختر، ڈاکڑ ارتضٰی کریم، انور سدید، مسعود حسین خان، باقر مہدی، مجنون گورکھپوری، لطف الرحمن، قمر جمیل، مرزا حامد بیگ، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکڑ جمیل جالبی، شمیم حنفی، مغنی تبسم، سلیم احمد، وزیر آغا، ضمیر بدایونی، فہیم اعظمی، مظہر امام، اسلوب احمد انصاری، محمد حسن عسکری، مرزا خلیل احمد بیگ، پروفیسر وہاب اشرفی، گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر عباس نیر، آغاافتخار حسین، حامدی کاشمیری، قدوس جاویداورابوالکلام قاسمی وغیرہ کے نام نمایاں طور پر خصوصیات کے ساتھ لیے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے یا تو ترقی پسند تحریک سے انحراف کیا یا براہِ راست جدید مغربی ادبی رجحانات سے متاثر ہو کر اُردو میں جدید ادب کو متعارف کیا۔ اس ضمن میں مذکورہ نقادوں کی کوششوں سے اُردو میں جدیدیت کے معنی ومفاہیم کو متعارف ہونے میں کافی مدد ملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۶۰ء؁  کے بعد اُردو میں جو ادب تخلیق ہوا وہ ہر لحاظ سے جدید اور منفرد ادب ہے۔

جدیدیت کے بارے میں مندرجہ بالا وسیع تر توضیحات کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہے کہ جدیدیت ایک تاریخی، فلسفیانہ، سماجی، تہذیبی اور ادبی تصور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں صرف انسان کی تنہائی، مایوسی اور اس کی اعصابِ زندگی کی داستان نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی عظمت کے ترانے بھی شامل ہیں۔ اس میں فرد اور سماج کے رشتے کو بھی بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے اور انسان دوستی کا جذبہ بھی ہے۔ مگر جدیدیت کا نمایاں روپ آئیڈیالوجی سے بیزاری، فرد پر توجہ، اس کی نفسیات کی تحقیق، ذات کے عرفان، اس کی تنہائی اور اس کی موت کے تصور سے خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس کے لئے جدیدیت کو شعر وادب کی پرُانی روایت کو بدلنا پڑا، زبان کے رائج تصورات سے نپٹنا پڑا، اُسے نیا رنگ وآہنگ دینا پڑا اور اس کے اظہار کے لئے اسے علامتوں کا زیادہ سہارا لینا پڑا۔ سوسن لیگر نے غلط نہیں کہا ہے کہ آرٹ ایسے فارم کی تخلیق ہے جو انسانی جذبات کی نقالی نہیں کرتا ہے بلکہ ان کی علامت ہوتا ہے۔ اس طرح جدید ادب کا فرد نہ صرف خود مختار ہے بلکہ اس کا متن بھی خود مختار ہے۔ جدید ادب نے حقیقت نگاری کی روایت سے انحراف کیا اور فرد کے باطن کے انکشاف کو اپنا سرور کار بنایا۔ جدیدیت کے زیر اثر جن تنقیدی تصورات کا ظہور ہوا وہ بھی متن کی خود مختاریت میں یقین رکھتے ہے اور متن کی لسانی، ہیئتی، اسلوبیاتی اور ساختیاتی میکانیت کے فہم وتجزئیے پر زیادہ زور دیتے ہے۔

  الغرض اُردو ادب کے علمبرداروں کو جدیدیت کے ہر روپ کا معروضی طور پر مطالعہ کرنا چاہیے۔ تب جاکے ہم جدیدیت کو صحیح معنوں میں سمجھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات

 (۱)   وحید اختر، ’’جدیدیت اور ادب‘‘، ص۔ ۲۹

 (۲)  قاضی سلیم، ’’جدیدیت تجزیہ و تفہیم‘‘، ص۔ ۱۰۳

(۳)  عبادت بریلوی، ’’نگار‘‘، جدید شاعری نمبر ۷، ص۔ ۱۴۶

(۴)  پروفیسر لطف الرحمن، ’’ اردو کا افسانوی ادب‘‘، ص۔ ۱۳۹

(۵)  شمس الرحمن فاروقی، ’’ جدیدیت اور ادب‘‘، ص ۱۲

(۶)  آل احمد سرور، ’’ نظر اور نظرئیہ‘‘، ص۔ ۱۷۹

(۷)  ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید‘‘، ص۔ ۲۲

(۸)  ایضاً، ص۔ ۲۵

 (۹) آل احمد سرور، ’’ تنقید کیا ہے‘‘، ص۔ ۸۷

 (۱۰)  ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید‘‘، ص۔ ۳۰۹

(۱۱)  بحوالہ مضمون ’’ جدیدیت اور شمس الرحمن فاروقی : ایک مطالعہ ‘‘، مشمولہ سہ ماہی ( روشنائی ) کراچی۔ پاکستان، جالائی تا  ستمبر ۲۰۰۳ ؁ء، ص۔ ۱۱۹

(۱۲)  بحوالہ مضمون ’’ سوال یہ ہے‘‘، ڈاکٹر وزیر آغا، مشمولہ ( اوراق)، لاہور، ستمبر ۱۹۷۳ ؁ء ص۔ ۲۰

تبصرے بند ہیں۔