بچوں کے حقوق: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

عبد الرشید طلحہ

بچے مستقبل کے معمار ہیں اگر اُنھیں مناسب تعلیم اور صحیح تربیت دی جائے تو اس کے نتیجے میں ایک اچھا اورمضبوط معاشرہ تشکیل پاتا ہے، بچوں کی اچھی نشو نما اور عمدہ پرداخت ایک مثالی ماحول اور صالح مستقبل کا سبب بنتی ہے ؛اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔

بچپن کی تربیت نقش علی الحجرکی طرح ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہتاہے۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین واساتذہ ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔

 اس حقیقت کے اعتراف کے طور پر دنیا کی مختلف اقوام مختلف ایام میں یومِ اطفال مناتی ہیں۔ پہلی بار عالمی یوم اطفال 1953ء کو انٹر نیشنل یونین فار چلڈرن ویلفیئر کے تحت منایا گیاجسے بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی منظوری دے دی۔ پہلی بار جنرل اسمبلی کی طرف سے 1954ء کو یہ دن منایا گیا،اس طرح ہر سال20 نومبر کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ تاریخی حقائق کے مطابق 1950ء کے عشرے میں بچوں کے بارے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ترقی پذیر ممالک کے بچے صحت،تعلیم اور تفریح کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں ؛جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے بچے غیرمعیاری کتابوں اوررسالوں کے ذریعے ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ بچوں کا عالمی دن منانے کے لئے اقوام متحدہ ادارہ ”یونیسیف“بچوں سے متعلق ایک خاص عنوان تجویزکرتا ہے جس کا تعلق بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشوونما سے ہوتا ہے۔

عالمی یوم اطفال منانے کے مقاصد تو کئی ایک ہیں ؛جن میں بنیادی طور پر بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے کس ومجبور بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرناوغیرہ اوّلین ترجیحات میں شامل ہے ؛لیکن خصوصی طور پر اس دن ان کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیاجاتا ہے ؛تاکہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ اس دن اسکول اور تعلیمی ادارے بچوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے خصوصی تقریبات منعقد کرتے ہیں، اور اساتذہ اپنے شاگردوں میں مستقبل کے حوالے سے تحریک پیدا کرتے ہیں۔

بنی نوع انسانی کے دیگرطبقات واصناف کی طرح اسلام نے بچوں کو بھی ان کے حقوق عطاء کئے، بالخصوص نبی اکرم ﷺنے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے روشن شاہ راہ بھی،ان کی اسلامی نگہداشت کا غمازبھی ہے اور مستقبل سازی میں معاون ومددگاربھی۔

بچوں کو نعمتِ عظمیٰ قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کاراشاد ہے :’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا‘‘ (النحل )۔

 دوسرے مقام پر بچوں کودنیا کی رونق بتلاتے ہوئے ارشاد خداوندی ہے : ’’مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں ‘‘۔ (الکھف)

غرض اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے، ان کی پرورش اور تربیت کابھرپور اہتمام کرنا چاہیے پھر ان کا درجہ اولیاء کے پاس خدائی امانت کا ہے، اس لیے ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے، ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش وپرداخت اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر اور زبردست نقصان کا باعث ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ بچہ انسانی معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگا تولازمی طورپر ایک غیر تربیت یافتہ بچہ اسی معاشرے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے ولادت وحضانت سے لے کرطفولت و بلوغت تک،تعلیم و تربیت سے لے کر نفقات و وصیت تک ہر ہر امر کو واشگاف انداز میں بیان فرمادیا ہے۔ بچوں کو نبی کریمﷺکی خاص توجہ حاصل رہی،اس لیے آپﷺنے ان کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے انھیں جو خاص اہمیت دی ہے اسے چند عناوین کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے :

حقِ حیات:

اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا ہے کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائز باہمی تعلق محض ایک تفریح نہیں ہے، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ ہے۔ اس بنا پر اس تعلق کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔ قرآن حکیم دورجاہلیت کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے :اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑجاتا ہے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہ ناک ہو جاتا ہے، اور اس خبر بد کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑدے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری بات ہے۔ (النحل)

نسب و شناخت:

اسلام کا بچوں پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے بچوں کو ایک شناخت اور پہچان عطا کی ہے۔ اس غرض سے اسلام نے خاندان کی صورت میں جو نظام وضع کیا ہے، وہ بچے کو جہاں ایک مضبوط سائبان عطا کرتا ہے، وہیں اسے ایک شناخت بھی دیتا ہے، اور تیسری جانب خاندان کو اس کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ دار بھی ٹھیراتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ یاخاندان یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہے، جب کہ اس فریضے کی ادائیگی کی صورت میں پورا خاندان اپنے اپنے حصے کے مطابق اجر و ثواب کا مستحق ٹہرتا ہے۔

حدیث ِقیافہ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کے بارے میں ہے۔ امام ابو داود فرماتے ہیں کہ اسامہ کا رنگ تارکول کی طرح سیاہ تھا اور ان کے والد زید کا رنگ روئی کی طرف سفید۔اور لوگ ان کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کرتے تھے۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے اور آپ کے چہرے پر مسرت نمایاں تھی، آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:”کیا تم نے (قیافہ دان) مجزز مدلجی کی بات نہیں سنی، اس نے زید اور اسامہ کو لیٹے دیکھا، دونوں نے سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی اور پاؤں نظر آرہے تھے۔ تو کہنے لگا کہ یہ پاؤں آپس میں ایک دوسرے سے ہیں۔ "(صحیح ابو داود)

نام رکھائی:

ناموں کا اثر بچے کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کا یہ حق بھی قرار دیا ہے کہ اس کا نام موزوں اور اچھا تجویز کیا جائے، اور والدین پر اولاد کا یہ ایک اہم حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کو حُسنِ ادب سے آراستہ کرے ‘‘۔ (مجمع الزوائد)

اگر کسی کا نام کسی سبب سے مناسب نہ ہو تو اسے بدل دینا چاہیے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیح ناموں کو بدل دیا کرتے تھے ‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاتون کا نام عاصیہ سے تبدیل کرکے جمیلہ تجویز فرمایا‘‘۔ (ترمذی)

پرورش و پرداخت:

بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پرورش درست نہج پر کی جائے۔ آپﷺنے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"آگاہ ہو جاؤ! تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں (روزِ قیامت) پوچھا جائے گا۔ سو، یادرکھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔” (بخاری و مسلم)

بچوں کی پرورش، خوراک، لباس، تعلیم و تربیت، علاج معالجہ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، عموماً والدین یہ فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن اسلام انھیں والدین کا مستقل فریضہ قرار دیتا ہے، جس کی ادائیگی پر وہ علیحدہ سے اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، اور عدم ادائیگی کی صورت میں انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔قرآن کریم کی رُو سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی ماں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھے، اسلام نے بچے کے لیے دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی ہے (البقرہ )

عقیقۂ مسنونہ:

عقیقے کی روایت عربوں میں پہلے سے موجود تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اصلاح فرمائی اور اسے بچے کا حق قرار دیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بچے کی پیدایش پر جانور ذبح کیا جاتا اور پھر اس کے خون سے بچے کو رنگ دیا جاتا۔ اسلام نے اس کی ممانعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقے کی یہ صورت بیان فرمائی:’’جس کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو، اور وہ قربانی کرنا پسند کرے تو اسے چاہیے کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکرا قربان کرے ‘‘۔ (ابوداؤد)

آپﷺکے نواسے حضرت حسن کی پیدایش کے وقت آپﷺنے خود ان کا عقیقہ کیا، اس کی تفصیل راویت میں یوں مذکور ہے :حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے عقیقے میں ایک بکرا ذبح کیا اور کہا کہ اے فاطمہ! حسن کا سرمونڈا دو اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کردو۔ ان کا وزن ایک درہم نکلا۔ (ترمذی، حاکم)

عمدہ تعلیم :

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جس نے سب سے پہلے بلا تفریق طبقات و قبائل و بلاتخصیص مرد و زن سب کے لیے بلاامتیاز و بلا اختصاص عام تعلیم کا آوازہ بلند کیا، اور نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے ‘‘(ابن ماجہ)۔ گویا تعلیم ہر چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت اور کالے و گورے، ہر ایک پر فرض ہے۔ اس باب میں نہ تو طبقۂ فکر کی تخصیص ہے نہ کسی اور بنیاد پر اسلام نے کسی بھی نوعیت کے امتیاز کودرست سمجھا ہے۔ اس بنا پر اولاد کی تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آپﷺنے فرمایا: ’’کوئی والد اپنی اولاد کو اچھے آداب سے بہتر ہدیہ نہیں دے سکتا‘‘۔ (ترمذی)

اسلامی تربیت:

تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو عصر حاضر کے دیدہ وروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔ علم کے نام پر جو لاعلمی پھیلائی جارہی ہے، اس کے مفاسد اپنی جگہ پر مگر تربیت کی طرف کوئی ذہن بھی توجہ نہیں کررہا۔ حالانکہ تربیت کے بغیر علم کی حیثیت خام مال سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک اسے تربیت کی بھٹی سے نہ گزار لیا جائے اس وقت تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا جاسکتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں پر جو شفقت فرمائی ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺنے ان کی تہذیب اور تربیت کی بھی خاص تلقین فرمائی ہے۔ تربیت میں سب سے پہلے روحانی تربیت کا مرحلہ آتا ہے۔ قرآن میں ہے :

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے وہ اُس کو بجا لاتے ہیں۔ (التحریم)

مساوی سلوک:

ابتدا سے یہ رجحان بھی چلا آرہا ہے کہ بعض اوقات تمام بچوں میں مساوات نہیں برتی جاتی۔ کبھی لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے تو کبھی لڑکوں کے مابین بھی کسی وجہ سے یا بلا وجہ فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہ تفریق اسلام میں قطعاً پسندیدہ نہیں۔ نبیِ رحمت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے، اور سب کے مابین مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے، اور ایسے والدین کو اجر و ثواب میں بشارت دی ہے، جو بچوں کی صحیح پرورش کریں اور سب کے درمیان مساوی سلوک کریں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ’’ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس کے ہم راہ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ پایا تو میں نے اسے وہی دے دی۔ پھر اس نے اسے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیا اور اس میں سے خود نہ کھایا، پھر اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی ﷺگھر آئے اور میں نے آپﷺکو بتایا تو آپﷺنے فرمایا: ’’جو کوئی ان بیٹیوں کی آزمایش میں ڈالا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے مقابلے میں رکاوٹ ثابت ہوں گی‘‘۔ (بخاری)

ان کے علاوہ اولاد کے لیے مناسب اسلامی رشتوں کی تلاش، شرعی حدود وقیود کے ساتھ نکاح کی تکمیل اور گاہ بہ گاہ ان کی نگرانی وخیرخواہی وغیرہ بھی والدین کے حقوق میں داخل ہے۔

 اس یوم اطفال پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ بچوں کو نہ صرف ان کے بنیادی حقوق دیں گے بلکہ ان کی بہتریں نشوو نما کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بھی بروئے کار لائیں گے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کریں گے ؛جن کی وجہ سے بچے کی خود داری تباہ ہوتی ہے اور وہ اعتماد کی دولت گراں مایہ سے محروم ہو جا تا ہے۔

جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند

اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو

تبصرے بند ہیں۔