حالیہ واقعات کے تناظر میں ہندوستان کی حالت تشویشناک

 جنيد يوسف 

ہندوستان کے موجودہ حالات کیا ہیں ؟ اور کیا ایسے حالات میں ہندوستان ترقی کرسکتا ہے؟ اور پیش آمدہ واقعات و حادثات کے تناظر میں ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جنکے جوابات اور در پیش مسائل کا حل تلاش کرنا موجودہ وقت کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے
ملک کا تقریبا ہر وفادار شہری ملک کی ترقی اور اس کی سالمیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگا بلکہ اسکی ترقی اور امن وامان کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا. اور یہی ایک ذمہ دار شہری کی حقیقی تصویر ہے. آج ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک ادنی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہی ہے کہ ملک کی تشویشناک حالت اور بگڑتا ماحول یہ ہنددوستانیوں اور ان کے نا اہل رہنماؤں کی بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ کار کاردگی کا نتیجہ ہے.آج کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ یہ موجودہ حکومت کی ماضی,حال کی ملی جلی عکس اور اس کا جائزہ ہےجس کی روشنی میں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے مستقبل کا کیا تأثر ذہن میں آتا ہے.
بر سر اقتدار حکومت نے ملک کے عوام سے ترقی کے وعدے کرکے, بدعنوانی کے خاتمے کا رٹ لگاکر حکومت میں آئی. اور واضح اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی.
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ترقی یافتہ,اور خوشحا ل وہی معاشرہ ہوتاہے جہاں بدعنوانی کا خاتمہ اور امن و آشتی کا دور دورہ ہوتا ہے کیونکہ ایمانداری اور امن پسندی یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو ترقی یافتہ اور متحد معاشرے کی علامت اور ضامن ہیں.
بد قسمتی سے بدعنوانی جس میں ملک ہندوستان کئی سالوں سے گھرا ہوا ہے, موجودہ حکومت کے دو ڈھائی سالہ مدت گزر جانے کے بعد یہ بدنما داغ ہندوستان کے ماتھے پر اسی طرح چپکا ہوا ہے جیسے کہ پہلے تھا. اس پر نت نئے واقعات و حادثات نے ہندوستان کو بد امنی اور خوف میں تبدیل کردیا ہے ملک میں اضطراب بے چینی اور دہشت کا ماحول گرم ہے. مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ تعصب, اور طبقہ وارانہ نظام اپنے پر پھیلا رہا ہے. روز مرہ کے حادثات نے لوگوں کو الجھن اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. ان واقعات و حادثات نے سیکولرزم اور جمہوریت کی کمر توڑ دی ہے.اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہزیب کو جو نقصان پنہچایا ہے اس کی بھر پائی کئی دہائیوں میں مشکل ہے. آئیے چند واقعات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کی اگر واقعی یہی حالت بتریج رہی تو پھر ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا اور ایسے حالات میں ہمارے اوپر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.
سب سے پہلے دادری سانحہ کو لے لیجئے جس میں فرقہ پرستی کے نام پر مسلمانوں اور ہندؤوں میں تفریق کرنے کی پوری کوشش کی گئی . اور دوسری طرف ملک بھر میں دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کی جا رہی ہے. جو اپنی زندگی کے بیش قیمت ایام جیل کے سلاخوں کے پیچھے گزار کر باعزت بری ہو کر آتے ہیں. حکومت نے اپنے رویہ سے گویا دہشت گردی کا لیبل مسلمانوں کے ساتھ اس طرح چسپاں کر دیا ہے کہ مسلمان اپنی صفائی پیش کرنے سے قاصر ہیں.
علاوہ ازیں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ہی تو دوسری طرف روہت ویملا کی خودکشی سے لیکر کنہیا کمار کی گرفتاری تک کے واقعے نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے ذاتی بھید بھاؤ اور نسلی تشدد کا منظر نامہ پیش کیا. اور ایسے نہ جانے کتنے لوگ اس تشدد کا نشانہ بن کر اپنے آپ کو زندگی کے قید سے آزاد کرتے ہونگے. ان تمام معاملات میں حکومت وقت کی غلط پالیسیاں غیر منصفانہ و غیر جانبدارانہ رویہ ایک مذموم اور نا قابل برداشت عمل تھا. اس کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات وکلاء, صحافیوں اور طلبہ کے درمیان تصادم پولس اور اس میں شریک لوگوں کی بے حسی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کی نشاندہی کرتی نظر آئی. ہم تسلیم کرتے ہیں کی حادثات و واقعات تو ہر جگہ پیش آتے ہیں لیکن حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس پہ قدغن لگائے تاکہ اس میں کمی آئے نہ کہ جرائم پیشہ افراد اپنی خاموشی اور ابن الوقتی کا ثبوط دیکر اس کی تائید کرتے نظر آئیں اور اس کو مزید بڑھاوا دیں. لیکن ان تمام سے بڑھ کر وزیر اعظم خاموش تماشائی بنے ہیں. گجرات میں دلتوں کا استحصال کیا جاتا ہے تو کہیں ان کو ماضی کے اسی عمیق غار کی طرف دھکیلا جارہا ہے جہاں سے بڑی مشکل سے نکل کر آئے تھے اور پورے ہندوستان میں اس طرح کے پرتشدد جرائم میں اضافہ ہی نظر آیا.
اسی طرح سے گمشدہ طالب علم نجیب جو اے وی پی کے ارکان کی تشدد کا نشانہ بنا آج تک اس کا کوئی سراغ تک نظر نہی آیا. اور ان تمام سے بڑھ کر ہندوستانی میڈیا جو جمہوریت کی چوتھی ستون ہے اپنے عمل سے فسطائیت پر مبنی اعمال انجام دے رہے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں خال خال ہی مخلص صحافییوں کی تعداد دکھائی دیتی ہے. عدالتوں کے فیصلے آنے سے پہلے انکے فیصلے آجاتے ہیں
ان واقعات میں کمی آئے تو ہم چین کی سانس لیں لیکن نہیں! کیا ہوگیا ہے ہندستان کو, یہ زمین جہاں محبت کے پھول کھلتے تھے یہ مظلوموں کے خون سے لالہ زار ہورہی ہے دلتوں کا قتل اس بھیانک کھیل کا ایک حصہ ہے جنہیں ہندستان کے نا پاک سیاست کا مشق ستم بننا پڑتا ہے بات یہیں ختم نہیں ہوتی انکی دیوثیت کو کیسے تعبیر کروں دن و رات یوں ہی گزرتے جارہے ہیں لیکن کسی ماں کے دردوکرب کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہونچتی ہے. اے ہندوستان کیا تیرے سپوت اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہاں گئی وہ الفت و محبت کہاں گئی و آزادی کیا کیا گناوؤں کون کون سا دکھڑا سناؤں
” ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی.
درد حیران ہے اٹھوں تو کہاں سے اٹھوں.
واہ رے مودی جی نوٹ کی پالیسی نے زخموں کو اور ہرا کردیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ زیادہ تر بلیک منی باہری ملکوں میں ہیں آپ نے بلا کسی پیشگی تدبیر کے یہ پالیسی نافذ کرکے لوگوں کو مصیبت میں ڈالدیا. یہاں سب قطاروں کھڑے ہوکر مر رہےہیں اور کچھ تو لقمئہ اجل بن ہی چکے ہیں لیکنآپ پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے.
ملک کا یہ اندھا راج, پولیس کا جانبدارانہ رویہ, ارباب حکومت کی.بے حسی, ملک کا بگڑتا ماحول دیکھ کر ایسا لگتا کہ اب گھٹائیں بارش برسانے کے بجائے خس و خاسار کے انبار لائیں گی. روشنیوں پر تاریکیاں اس طرح حملہ آور ہونگی کہ سورج کی کرنیں کے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گی. امن پر تشدد حاوی ہو جائے گا. سنجیدہ انسان شہر جذبات کے پناہ گزین ہونگے. شاخوں پر پھولوں کی حنا نہی ہوگی. فصل نمرود کے انگار کا مژدہ ہوگا.
ایک ہندوستانی ہونے کی حیثت سے ہمارے اوپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سنجیدگی سے غور کریں. اور ملک کی سالمیت, اس کے وقار و تشخص کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں. تاکہ ملک میں امن و سلامتی قائم ہوسکے. ایک صالح اور امن پسند معاشرہ ہی ترقی کے منازل طے کرتا ہے.
موجودہ دور میں ہمارے ملک ہندوستان میں جہاں تشدد اور نفرت کا بازار گرم ہے. ضرورت ہے یکجہتی کی ضرورت ہے اتفاق رائے کی, ضرورت ہے استحکام کی, ضرورت ہے سنجیدگی اور شائستگی کی, ضرورت ہے تعلیمی بیداری کی, ضرورت ہے ہندوستانی آئین کے بنیادی اصولوں کو جاننے کی, تاکہ ہم اپنے حقوق کو لڑ کر, قانونی چارہ جوئی کرکے حاصل کرسکیں. اس سلسلے میں سب سے حوصلہ افزا قدم اتحاد و اتفاق کا ہوگا. بغیر کسی ذاتی بھید بھاؤ اور نسلی فرق کے ہندوستان کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں ملک دشمن عناصر اور گندی ذہنیت کے خاتمے کی پوری کوشش کریں. تبھی ایک سیکولر اور جمہوری ملک کہلائے گا. کیونکہ جمہوریت کے اقدار کی بقا اور اسکی ضمانت کی ذمہ داری ہنوستانی عوام کے کاندھے پر ہیں. ہماری کوششوں کے نتیجے میں ہندوستان امن وسلامتی کا گہوارہ بنے گا جہاں عندلیبان چمن محبت کے گیت گائیں گی. اور ملک دوگنا ترقی کرے گا اور اگر ہم نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی اور ارباب حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو یقینا ملک کی حالت اور زیادہ تشویشناک ہوجائیگی. جہاں ہاتھ ہاتھ نہیں سجھائی دے گا. اس لیے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ دیں. اور ملک کی سالمیت اور امن و امان کی بقا کے لیے بھر پور کوشش کریں. الله ہم تمام لوگوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے. آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔