عالمی یوم خواتین: خواتین کے ساتھ حقیقی ہمدردی کی ضرورت!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

اہل مغرب نے مختلف طبقات کے ساتھ ظاہری ہمدردی کے اظہار کے لئے کچھ دن متعین کرلئے ہیں ، جن میں ان کے ساتھ وقتی ہمدردی جتانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کی آواز لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ،ان ہی دنوں میں ایک دن خواتین کے لئے بھی رکھا گیا ہے جو ۸ مارچ کو ہوتاہے، جسے ’’عالمی یوم ِ خواتین ‘‘ کے طور پرپوری دنیامیں منایا جاتا ہے اس د ن خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ مساویانہ سلوک کی پرزور وکالت کی جاتی ہے ، سماج میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور زندگی کی ہر دوڑ میں انہیں بھی مقام دینے اور تحفظات فراہم کرنے کے لئے بھی اعلان کیا جاتا ہے ۔یہ عجیب بات ہے کہ آج انسانوں کے دلوں میں کسی کے لئے ہمدردی کے جذبات صرف کسی ایک دن کے حدتک محدود رہ گئے ہیں ،اسی دن ان کے زخموں پر مرہم چھڑکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہی دن ان کے حقوق کے مطالبات کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے ،اس کے بعد کسی مظلوم طبقہ کی یاد نہیں آتی اور نہ ہی ان کے حقوق کے تحفظ کی فکر لاحق ہوتی ہے ، اب ایسے دنوں کا اضافہ ہوتے جارہا ہے اور یوم منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے ،جب کہ ایک نظر اگر اسلامی نظام پر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور رواداری کے لئے کسی ایک دن کی تخصیص نہیں کی بلکہ لوگوں کو اس بات کا خوگر بنایا ہے کہ وہ ہر لمحہ دوسروں کے حقوق کو اداکرنے کی فکرمیں لگارہے ،بالخصوص مظلوم طبقات کے ساتھ انصاف اور حقوق کی جدوجہد ہر دن کرنے کی تعلیم دی ،اور اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے زبانی دعوؤں اور وقتی صداؤں کے بجائے زندگی بھر کی تعلیمات سے انسانوں کو نوازا ہے کہ جس پر عمل آوری کے نتیجہ میں انسانیت کا ہر طبقہ اپنے متعلقہ حقوق کے ساتھ پر سکون زندگی گزار سکتاہے ۔

    پوری دنیا میں بہت اہتمام کے ساتھ ۸ مارچ کو عالمی یوم ِ خواتین منایاجاتا ہے ،خواتین کے حقوق اور تحفظ کے سلسلہ میں اس دن کی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت جو خود کو عورتوں کے حقوق کا محافظ سمجھتے ہیں اور ان کا خیر خواہ بتانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ،یہی لوگ عورتوں کے ساتھ ظلم وتشدد کرنے والے بھی ہیں ،انہی لوگوں نے شروع ہی سے عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا،ان کوان کے اختیارات سے بے دخل کیا،اور انتہائی نارواسلوک کیااور آج بھی برابر کرتے آرہے ہیں ،انداز ظلم کا بدل گیا ہے ،حقوق سلب کرنے کے طریقے جدا ہوگئے ،عورت کی مقدس ذا ت کو ان لوگوں نے پوری دنیا میں ایک سامان ِ لہوولعب کے طور پر پیش کیااور اس کی مقدس ہستی کو تفریح ودل لگی کا ایک ذریعہ بناکر رکھ دیا،گھروں میں ملکہ بن کرجینے والی اور تعمیر ِ انسانیت میں اپنی صلاحیتوں کو لگانے والی خواتین کو آزادی ٔ نسواں کا فریب دے کر گھروں کی چہاردیواری سے نکال باہر کیا،ان کے نازک کاندھوں پر نوکری،ملازمت اور ڈیوٹی کا گراں بوجھ رکھ دیا،ان کے وجود کوحالات وآزمائشوں کی چکی میں پسادیا،چراغ ِ خانہ کو شمع ِ محفل بناکر ان کی حیاوعصمت کو تارتارکیا،ان کی نزاکت ولطافت کو ہوس پرستوں کے نشانے پر لگایا،گھروں کو اجاڑ کر اپنے کاروباراور دکانوں کو چمکانے کے لئے انہیں بہلاپھسلاکر بازاروں کی زینت بنادیااور پھر ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ بازاروں میں لاکر بھی انہیں محروم کا محروم ہی رکھااور نارواسلوک کا سلسلہ برابرجاری رکھا یہاں تک کہ پھر اسی صنف ِ نازک کو اپنے حقوق کے لئے میدان میں اترنا پڑا،ظالموں کے ڈنڈے کھاناپڑا۔چناں چہ آج کے روشن خیالوں کے ماضی کو اگر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں جس وقت عورتوں پر بے پناہ ظلم وتشدد کیا جانے لگا اور ان کے حقوق سے انہیں محروم کردیا گیا تو بالآخر مجبور ہوکر عورتوں نے اپنے حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کی اور ظلم وجور کے خلاف کھل کر میدان میں اتر آئیں ۔۸ مارچ 1907 ء کو امریکہ کے شہر نیویارک میں لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کارکن خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق اور بہتر حالات کار کے لئے زبردست مظاہرہ کیا،ان کا مطالبہ تھا کہ دس گھنٹے محنت کے عوض معقول تنخواہیں دی جائیں ۔ان کے اس احتجاج پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔عالمی سطح پر جمہوریت اور حقوق کے لئے جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب ِ فرانس کو خاص اہمیت حاصل ہے ،خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی یہ انقلاب اہم ہے ۔1789ء میں انقلاب فرانس کے دوران خواتین نے آزادی اور برابری کے مطالبات کا نعرہ لگاتے ہوئے درسل تک مارچ کیا۔1857ء میں امریکہ میں خواتین نے حالات کار کی بہتری کے لئے احتجاج کیا،1844ء میں درکرز کی پہلی عالمی کانگریس میں مطالبہ کیاگیا کہ خواتین کو پروفیشنل شعبوں میں ترقی کے مواقع دئیے جائیں ۔مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے خواتین کے احتجاجات پہنچے اور اس نازک صنف نے اپنے حقوق کے لئے پرزور مطالبات کئے ،بالآخر 1977ء میں اقوام ِمتحدہ نے قرارداد پاس کرکے۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کو منانے کا اعلان کیا۔

 اس وقت عالمی یوم ِ خواتین کو پوری دنیا میں بہت اہتمام کے ساتھ منایاجاتا ہے اور یہ تصور ہوتا ہے کہ اس ایک دن کے منانے سے خواتین کے حقوق کا حق اداہوجائے گا اور ان کے خیرخواہ ہوجائیں گے،جب کہ یہ ایک خام خیالی ،دھوکہ دہی اور فریب ومکاری کے سوا کچھ نہیں ،کیوں کہ جن کے پاس حقوق اداکرنے کے دل نہیں اور تعلیمات پر عمل کرنے کے جذبات نہیں وہ اس طرح سال میں ایک دن کا سہارالے کر دلوں کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ،کیا ہم پر خواتین کا صرف اتنا ہی حق ہے کہ ہم ایک دن ان کے لئے اچھے خیالات کا اظہار کرے ،ان کے ساتھ ہمدردی جتائیں ،ان کے حقوق کا مطالبہ کریں ،ہر میدان میں ان کی ترقی کا راگ الاپے،ان کے لئے تحفظات کا تقاضا کریں ،اور سال بھر ان پر ہونے والے ظلم وتشدد کو نظر انداز کردیں ،ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو فراموش کردیں ،ان کی ذمہ داریوں کے برخلاف ان پر بوجھ ڈال دیں ۔خواتین کے تحفظ کے علم بردار اس وقت تک کوئی نہیں بن سکتے جب تک انہیں اس بے جا ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد نہیں کریں گے،انہیں دکانوں اور بازاروں میں چمکانے کے بجانے گھروں کی رونق بنانے کی فکر نہ کریں گے۔عورتوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اورکیا ہوسکتا ہے کہ انہی ان کے فرائض ِمنصبی سے ہٹاکر غیر ضروری ذمہ داریوں میں الجھادیا گیا ہے،آزادی کا پر فریب نعرہ لگاکر ان کی شخصیت کو پامال کردیا گیا ہے،مساوات وبرابری کا خود غرضانہ ومطلب پرستانہ لالچ دے کر ان کی پاکیزگی وتقدس کو نیلام کیا گیا ہے۔

 خواتین کا عالم دن منانے والوں سے کس قدر بہترین انداز میں محترمہ ثریابتول علوی اپنے پیغام میں کہا ہے :’’عالمی یوم ِ خواتین مناکر تم عورتوں کے استحصال پر کیوں تلے ہوئے ہو؟مسلم خواتین کو کیوں زبردستی بگاڑناچاہتے ہو؟٭تم کیسے شوہر ہو کہ اپنی بیوی سے کہتے ہو کہ میں تو صرف اپنے لئے کماسکتا ہوں ،تمہیں اپنے لئے خود ہی کمانا ہوگا،بلکہ بچوں کے لئے بھی تم خود ہی کماؤگی٭تم کیسے باپ ہواپنی نوخیز بیٹیوں کو خود گھر سے نکال دیتے ہوکہ جاؤ اپنے لئے خود ہی کماؤاور اپنی شادی بیاہ کے معاملات بھی خود ہی سنبھالو۔٭تم کیسی بیویاں ہوکہ شوہر کی خدمت نہ اس کی رضا جوئی کی خواہش تمہارے اندر پائی جاتی ہے۔٭ تم کیسی مائیں ہو کہ اپنے بچوں کو تالے لگاکر خود کبھی کمانے کے لئے اور کبھی دادِ عیش دینے کے لئے نکل کھڑی ہوتی ہو؟حتی کہ معصوم تمہارا انتظارکرتے کرتے اگلے جہاں پہنچ جاتے ہیں ۔٭اورتم کیسی بیٹیاں ہو جوماں باپ کی خدمت اور اطاعت کو اپنے لئے وبال جان سمجھتی ہو۔‘‘

 عورتوں کے حقوق کو لے آج پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہے ،عورت کو اونچا مقام دینے اور سماج و معاشرہ میں ان کی عظمت کو تسلیم کرنے لئے مختلف کوششیں کی جارہی ہیں ، حکومتیں قوانین نافذ کرنے اور ان کو تحفظات فراہم کرنے کے لئے نئے اصول وضع کررہی ہیں لیکن ان تمام کے باوجود اسلام نے عورت کو جو عزت ،اہمیت اور عظمت اور حقوق دیئے  ہیں پوری دنیا بھی اس کا احسان نہیں بھلا سکتی ۔عورتوں کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے جو سلوک اور معاملہ کیا اور جو اہم ترین تعلیمات دی ہیں وہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک بے مثال اسوہ اور نمونہ ہے ۔عورتوں کے حقوق کے لئے آج ہر طرف چیخ و پکار ہے لیکن عملی طور پر کوئی عورت کو اس کا حقیقی مقام دینے اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ۔بلاشبہ عورت کو اسلام نے بہت اونچا مقام و مرتبہ دیا ،اس کی حقیقی عظمتوں سے دنیا کو باخبر کیا ،عورت اگر ماں ،بہن ،بیوی یا بیٹی ہو تو ان کے حقوق اداکرنے کے سلسلہ میں مردوں کو تاکید کی اور مسلسل ہدایات عطا فرمائی ۔عورت کے ساتھ ہمدردی ،خیر خواہی اور حقیقی ہمدردی یہی ہے کہ اس کے فطری جذبات کی رعایت کی جائے ،اس کی صنفی تقسیم کا خیال کیا جائے ،اور دنیا بھر میں جہاں جہاں عورتوں پر ظلم ہورہا ہے ،ان کے حقوق چھینے جارہے ہیں ،نہایت تشدد کا سلوک کیا جارہاہے ،بہیمانہ برتاؤ کو روکیں ،اور انہیں ظالم حکومتوں سے نجات دلانے کوشش کریں ۔

شام و فلسطین کی بے قصور عورتوں پر ہونے والے بے جا مظالم پر پابندی عائد کریں ،اسی طرح وقتی طور پر عورتوں کی ہمدردی کی صدا لگانے والے دنیا بھر کی مظلوم عورتوں کو اور حقوق ِ انسانی سے محروم خواتین کو ،ظالموں کے جبر و ستم کی شکار عورتوں کو فراموش نہ کریں ۔دنیا میں ا س وقت کتنے ممالک ایسے ہیں جہاں مردو ں کے ساتھ عورتوں پر بھی ظلم وستم جاری ہے،بالخصوص ظالم وجابر اسرائیل فلسطین کی بے قصور خواتین کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کررہے ہیں جو ہر دل ِ دردمند کو تڑپادینے کے لئے کافی ہیں ،بوڑھی عورتوں کو بہنوں کو جس بے دردی کے ساتھ مارپیٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں ،کیاان امن کے نام نہاد ٹھیکداروں اور حقوقِ نسواں کے جھوٹے علم برداروں کو نظر نہیں آتا،حجاب و نقاب کے نام پر عورتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو یہ کیوں بھول جاتے ہیں اور کیوں ان عورتوں کی مذہبی آزادی پر قد غن لگانے کی کوشش کرتے ہیں ؟اور خود ہمارے ملک کی صورت حال بھی اس سلسلہ میں تشویش ناک ہے ۔ الغرض پوری دنیا میں عورتیں بھی اس وقت ظالموں کے تختہ ٔ مشق بنی ہوئی ہیں ۔عالمی یوم ِ خواتین اس بات کا پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ دنیا کی ہر عورت کو ظلم سے بچایا جائے ،اور حقیقی تحفظ فراہم کیاجائے، اس کے کھوئے ہوئے مقام ومرتبہ کو واپس کیا جائے ۔

تبصرے بند ہیں۔