پلاسٹک کا استعمال: فقہ اسلامی کی روشنی میں

محمد صابر حسین ندوی

 انسان اول کی خلقت مٹی سے وجود میں آئی تھی، اور اس کے قیام،رہائش،تنفیذ احکام الہی کے لئے مٹی ہی کو منتخب کیا گیا [ھوالذی خلقکم من طین، ثم قضی اجلا،واجل مسمی عندہ،ثم أنتم تمترون]’’وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت طے کردی اور ایک متعین مدت اسی کے پاس(اس کے علم میں )ہے پھر بھی تم شبہ میں پڑتے ہو‘‘(انعام:۲،ھکذا:اعراف:۱۲،مؤمنون:۱۲،ص:۷۱،۷۶)یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات کا انجام مٹی ہی سے منسلک ہے[منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری]’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹا دیں گے اور دوسری بار پھر اسی سے نکا لیں گے‘‘(طہ:۵۵)چنانچہ اللہ تبار ک وتعالی نے زمین میں وہ صلاحیت رمز فرمائی ؛جس سے وہ ہر عمدہ وخراب شئی خواہی نہ خواہی اپنے آپ میں تحلیل کر لے،حالانکہ بعض چیزوں کی تحلیل میں خاصا وقت بھی لگتا ہے لیکن اسے اپنی ہستی مٹانی ہی پڑتی  ہے مثلاً:

۱۔ کیلے وسنترہ وغیرہ کے چھلکے:       ۲ سے ۵ ہفتوں میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔

۲۔ نیوز پیپر و اخبار و رسائل وغیرہ :      ۳سے ۱۲ مہینے میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔

۳۔ سگریٹ :       ۱ سے ۵ سال میں تحلیل ہو کر مٹی بنتی ہے۔

۴۔ چبانے والی چیزیں اور:      ۵ سال میں تحلیل ہو تے ہیں۔

۵۔ نائیلون:       ۳۰  سے ۴۰ سال میں تحلیل ہوتے ہیں۔

۶۔ المونیم  :     ۱۰  سے ۵۰۰ سا ل میں تحلیل ہوتے ہے۔

۷۔ پلاسٹک:       ۱۰۰  سے ۱۰۰۰ سال میں تحلیل ہو تے ہیں۔

لیکن زمانے کی تندہی ترقی کے دوران انسانی جمگھٹ میں سے’’بائی کا لینڈ‘‘نامی شخص نے جس کا تعلق نیویارک شہر سے تھا اس نے ۱۹۰۷ ؁ء کے زمانے میں وہ چیز ایجاد کر دی ؛جسے زمین نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا؛جسے آج پلاسٹک سے موسوم کیا جاتا ہے، پھراس نے ۱۹۴۷ ؁ء میں مزید ترقی کی اور ’’مالٹا‘‘ میں Bottleکی شکل میں ہاتھوں ہاتھ پہونچا (mcreeklife.com)، ساتھ ہی ساتھ ماحولیات کو گرد آلو دکرنے اور انسانی زندگی کو خطرات میں مبتلا کرنے کا بڑا ذریعہ بھی فراہم ہوگیا،اسکی وجہ یہ ہے کہ:

پلاسٹک: چھوٹے بڑے کیمیائی ترکیبات سے وجود میں آتا ہے، پلاسٹک ویکیپیڈیا کے مطابق یہ ایسے چھروں اور اچٹتی گولیوں سے تیار کیا جاتا ہے جس میں Extruderیعنی اپنے آپ کو باہر پھینکنے کی صلاحیت ہوتی ہے،چونکہ اسے بنانے میں کوئلہ، قدرتی گیس،نمک اور کچا تیل وغیرہ بڑے پیمانے پر شامل کیا جاتا ہے؛ لہذا اخراج کی صورت میں بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں (wikipedia of plastic)،کیونکہ پلاسٹک پھینک دئے جانے کی صورت میں آہستہ آہستہ اس کے تمام اجزاء الگ ہو نے لگتے ہیں، جنہیں زمین تحلیل کر نے میں ہزاروں سال لیتی ہے،اور اسکی زوال پذیری کے دوران بہت ہی باریک وخورد بیں زہریلی گیس اس گندے زمین سے نکلتی ہے جو کھانا،پینا،سانس وغیرہ کے ذریعہ کینسر تک کا ذریعہ بن سکتی ہے(دیکھئے:senergy.rs= published.com4-4-14= )۔

اس کی سنگینی اور نہ تحلیل ہو نے کے باوجود ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال ۳۰۰ ملین ٹن پلاسٹک بنائی جاتی ہے،اس کا مطلب یہ ہیکہ ؛ہر دوسال میں ضائع پلاسٹک کا وزن انسانی آبادی کے برابر ہو جائے گی(حوالہ سابق)ایسے میں ظاہر ہے کہ انسانی زندگی بھی محال ہو جائیے گی، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بہیترے رفاہی تنظیموں اور اصلاحی پیرؤوں نے پلاسٹک کے خلاف مورچہ کھولا،اور حکومتی سطح پر بھی متعدد ممالک نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس پر پا بندی عائد کی ہے جن میں چند ممالک یہ ہیں :۔

۱۔ جرمنی

۲۔ ساؤتھ افریقہ

۳۔ اٹلی

۴۔ آسٹریلیا

۵۔ ہندوستان(مختلف شہروں میں )

۶۔ صوما لیا

۷۔ بوٹسوانا

۸۔ یوگانڈا

۹۔ جاپان

۱۰۔ زنزیبار   (zanzibar)

۱۱۔ ترکی

۱۲۔ بلجیم

۱۳۔ ساؤ تھ کوریا

۱۴۔ سویڈن

۱۵۔ اریٹریا   (Eritrea)

۱۶۔ سنگا پور

۱۷۔ چائنا

۱۸۔ بھوٹان

۱۹۔ کینیا

۲۰۔ Papua NewGuinea

۲۱۔ اتھوپیا

۲۲۔ مالٹا

۲۳۔ ساموآ (Samoa)۔ (blogspot.com)

عموماً پلاسٹک بیگ کو پھینک دیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ کچرے کے ڈھیر کا حصہ بن جاتے ہیں، ملک میں کہیں بھی کچرے کے ڈھیر میں جا بجا پلاسٹک کے بیگز نظر آتے ہیں، گو یا جب ہم ان کو استعمال کر کے ضائع کر دیتے ہیں ؛ تب بھی یہ ہمارے ماحول میں ہی رہتے ہیں، یہ نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے سمندری آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جسکے باعث سمندری حیات بھی خطرہ میں ہیں، اس کے علا وہ یہ بھی مشاہدہ میں آتا ہے کہ:پلاسٹک بیگزکو آگ لگا دی جاتی ہے جو کچرے میں ڈالنے سے زیادہ خطرناک ہے ؛کیونکہ جب انکو جلایا جاتا ہے تو کیمیائی عمل اور حرارت کے نتیجہ میں ایک کیمیائی مادہ جنم لیتا ہے جسکو ’’ڈائی آکسن‘‘کہتے ہیں ؛یہ نہ صرف جسم کے لئے شدید نقصان دہ ہے بلکہ اس سے سرطان(کینسر) بھی ہو سکتا ہے۔ (zameen.com,DW.com)

واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں حضرت انسان کو بحیثیت امین و ونگراں دنیاوی امورسے استفادے کا موقع دیا گیا ’’انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فا بین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان ‘‘(ہم نے (بار)امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے اس کو اٹھانا قبول نہ کیا اور اس سے لرز گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ احزاب:۷۲)لیکن امانت میں خیانت، اسراف و ناقدری کی بنا پر آج نسل انسانی کی بقا پرسب سے زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اسلام ایک فطری مذہب ہے، اس لئے یہ فطرت کو مسخ کر نے والی تمام خبائث کی نکیرکرتی ہے اور اسے انسانی استعمال کے لئے حرام قرار دیتی ہے’’یحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ‘‘(ان کیلئے پاک چیزیں حلال کریگا اورگندی چیزیں ان پرحرام کرے گا۔ اعراف:۱۵۷)اور ہر ایسی صورت کو ناجائز بتلایا جس سے اس روئے زمین کی تحقیر ہوتی ہو اور اس میں فساد مچتا برپا ہوتا ہو قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر انسانی جان کو مخاطب کرتے ہو ئے عرض گو ہے کہ:’’لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا‘‘(اعراف:۸۵، ۵۶وغیرہ)’زمین میں فساد نہ مچائو‘ نہ صرف یہ بلکہ اس کے نتیجہ میں قوموں کے دردناک عذاب اور ہلاک و برباد ہونے کا بھی تذکرہ ہے ’’وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر‘‘(اور تم جس مصیبت سے بھی دوچار ہوتے ہو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور کتنی چیزیں وہ درگزر کرجاتا ہے۔ شوری:۳۰)۔

خیال رہے کہ مفسرین نے ’’فساد‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے ایک طرف معنوی چیزوں مثلاً:خدا کی معصیت اور اسکی خلاف ورزی، کفران نعمت، شریعت کے ساتھ تمرد،حرمت کی پامالی، فواحش کا عموم،فضائل میں بگاڑ،خیر میں تا جیل،شر میں تعجیل،ظالموں کا ضعفاء پر ظلم، اغنیاء کا فقراء پر قساوت وغیرہ مراد لی ہیں، تو وہیں مادی افساد کو بھی شامل کیاگیاہے مثلاً:آبادی کی تخریب، سرسبزی وشادابی کی مردنی، طاہرات کا آلودہ کرنا اور بلاضرورت قدرت خداوندی میں اسراف وغیرہ،جیسا کہ علامہ یوسف القرضاوی نے اپنی شہرہ آفاق (کتاب رعایۃ البیئۃ فی شریعۃ الاسلام للقرضاوی:۶۸۔ ۶۹۔ ۶۲۰) رقم طراز ہیں :

’’والافساد فی الارض:یشمل الافساد المادی بتخریب العامر،وماتۃ الاحیاء،وتلویث الطاھرات،وتبدید الطاقات، واستنزاف الموارد فی غیر حاجۃ ولامصلحۃ،وتعطیل المنافع ودواتھا،کما تشمل الافساد المعنوی:کمعصیۃ اللہ ومخالفۃ امرہ،والکفر بنعمتہ،والتنرد علی شریعتہ،ولاعتداہ علی حرماتہ،واشاعۃ الفواحش ما ظھر منھا وما بطن،وترویج الرذائل، ومحاربۃ الفضائل،وتقدیم الاشرار،وتاخیر الاخیار،وتجبر الاقویاء علی الضعفاء،وقسوۃ الاغنیاء علی الفقراء والمراد بہ فی الآیۃ الاخیرۃ الفساد المادی ھو بتیجۃوثمرۃ لما کسبت ایدی الناس من امعاصی والمفاسدالاخلاقیۃ‘‘(۸)

اسی طرح ’’لا تفسدوا فی الارض ‘‘(اعراف:۸۵،۵۶)کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عطیۃؒ رقم طراز ہیں ’’الآیۃ الفاظ عامۃ تتضمن کل افساد قل او کثر،والقصد بالنھی علی العموم،وتخصیص شئی دون شئی فی ھذا الحکم الا أن یقال وجھۃ المثال، قال الضحاک:معناہ لا تغور وا الماء المعین ای لاتدفنوھا ولا تطموھا ولا تقطعوا الشجر المثمر ضرراً‘‘یعنی آیت میں ’’فساد‘‘ کا لفظ عام ہے جو کہ کم یا زیادہ ہر قسم کے افساد کو شامل ہے، چنانچہ بقول ضحاک:پھلدار درختوں کو نہ کاٹا جائے اور نہ ہی پانی اور مٹی کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے (المحرر الوجیز لابن عطیۃؒ :۲؍۳۱۰)۔

تو وہیں مقاصد شریعہ جو کہ تمام اسلامی تعلیمات اور فقہ اسلامی کا خلاصہ ہے ؛انہیں میں سے ہے کہ انسانی بقا ونسل کی حفاظت کی جائے، اور اس کی حفاظت کو اولیں ترجیحات دی جائے اور اس کے لئے ضروری لوازمات (ماحولیات) کو بھی اسی کے مثل درجہ دیا جائے،اس طور پر کہ اسکی و شفافیت لازمی قرار پائے کیونکہ:’’ما یتم لواجب الا بہ فھو واجب‘‘(تیسیر اصول الفقہ للمبتدئین:۲؍۱۴)یعنی وجوب کو پورا کرنے والا بھی واجب کے درجہ میں ہوتا ہے، بلکہ اسلام کا آئینہ دار تو یہ ہیکہ:’’لا ضرر ولا ضرار ’’نہ نقصان برداشت کیاجائے اور نہ ہی نقصان پہونچایا جائے ‘‘(الأشباہ والنظائر للسیوطی:۹۶۔ الوجیز:۲۶۳) اور خدا نخواستہ ضرر ہو بھی تو ضروری ہے کہ اسے ختم کیا جائے ’’الضرر یزال‘‘(بہر صورت نقصان کا زالہ کیا جائے :االأشباہ والنظائر للسیوطی:۷۵۔ ۷۶۔ )،اگر اس کا ازالہ عین ممکن نہ ہو تو ’’اختیار اخف الضررین‘‘(االأشباہ والنظائر للمصری:۸۳)کم سے کم نقصان دہ پر عمل کیا ئے، اور یہ خیال رکھا جائے کہ دفع مضرت ؛جلب منفعت پرمقدم ہے’’درء المفاسد علی جلب المنافع‘‘(قاعدۃ درء المفاسد مقدم علی جلب المصالح:محمد بن عبد العزیز المبارک)۔

ان تعلیمات کے پیش نظر پلاسٹک کو محض سستا ہو نے یا یا خوشنمائی کی غرض سے استعمال کرنا اور ماحولیات کی فکر بالائے طاق رکھ دینا درست نہیں، چنانچہ ہر ممکن اس سے بچنا ایمان کا تقاضہ ہے، نیز حکومت پربھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پلاسٹک پر پابندی کے ساتھ ساتھ اسکی مینوفیکچرنگ پر نظر رکھے ؛ساتھ ہی اشد ضروری یہ ہے کہ اسکا بدل یا اخف الضرر متعارف کراتے ہو ئے اسے عام کیا جائے اور بقائے انسانی میں حصہ دار ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔