حصول رزق میں حلال و حرام کی تمیز ضروری

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

اسلام ایک کامل اور فطری نظام حیات ہے۔ چنانچہ اس نے عالم انسانیت کی رہنمائی صرف عقائد و عبادات ہی میں نہیں بلکہ اخلاق و معاملات، معاشرت، معیشت، سیاست و نظام حکومت،اور نظام عدل و انصاف وغیرہ تمام شعبہ حیات میں بھی کی ہے اورایک مسلمان سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام شعبوں میں اللہ اور اس کے رسول کے صادر کردہ احکامات کا پابند ہو۔اسباب معیشت یعنی حصول رزق کے مختلف ذرائع ملازمت، تجارت، زراعت، صنعت و حرفت وغیرہ کو اختیار کرنا چونکہ انسان کی فطری ضروریات میں سے ہے اس لئے اس شعبہ میں بھی اسلامی شریعت کی رہنمائی ناگزیر تھی اور یہی وجہ ہے کہ شرعی علوم کا ایک بڑا حصہ معاملات اور معیشت کی نذر ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت نے اسلام کو صرف عقائد و عبادات تک ہی محدود سمجھ لیا ہے اور دین کے ان اہم شعبوں کو دنیاوی امور قرار دے کر شرعی بندشوں سے خود کو آزاد کرلیا ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات اور معیشت سے متعلق شرعی احکام پر چلنا ہی اس دور میں ناممکن ہے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس کی تعلیمات دائمی اور ابدی نوعیت کی ہیں ۔علماء، خطباء اور مبلغین حضرات سے بھی اس سلسلہ میں کوتاہی ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی تقریر و تحریر میں عبادات پر جتنا زور دیا اتنا معاملات اور معیشت سے متعلق شرعی احکام پر نہیں دیا۔انہی وجوہات سے معاملات کی درستگی ا ور اسباب معیشت میں جائز و ناجائز کی فکر اور حلال و حرام کی تمیز اب بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔مسلمان بھی اب دوسری اقوام کی طرح شرعی پابندیوں سے بے نیاز ہوکرمال و دولت سمیٹنے میں لگ گئے ہیں ،الاماشاء اللہ! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس زمانہ میں داخل ہوچکے جس کی پیش گوئی نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں کی تھی کہ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کہ اس نے حلال طریقہ سے مال کمایا ہے یا حرام طریقہ سے‘‘۔ ( صحیح بخاری، کتاب البیوع، بابمن لم یبال من حیث کسب المال بروایت ابوہریرہؓ)۔اس حدیث کامطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ اب لوگوں کی اصلاح سے مایوس ہوجایا جائے کیوں کہ یہ دور رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق آیا ہے بلکہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے ماحول میں علماء، مبلغین و مصلحین حضرات کو تقریر و تحریر اور پند و نصائح کے ذریعہ اصلاح کی کوششوں میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔

 یہ جاننا چاہیے کہ حلال رزق کا اہتمام کرنا تقویٰ اورتزکیہ نفس کی بنیاد ہے جس پر ابدی فلاح و کامیابی کا دارومدار ہے۔ بلکہ آپؐ نے تویہ فرمایاہے کہ :

’’ کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا یہاں تک کہ چھوڑدے ایسی چیزوں کو جس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اس چیز سے بچنے کے لئے جس میں قباحت ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال بروایت عطیہ سعدیؓ )۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کامل پرہیزگاری اور تقویٰ کا مقام کسی بندہ کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک وہ مباح چیزوں کو بھی اس خوف کی وجہ سے نہیں چھوڑ دیتا کہ کہیں یہ مباح چیز کسی حرام یا مکروہ یا مشتبہ چیز تک پہنچنے کا ذریعہ نہ بن جائے؟  نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ حرام رزق کے ساتھ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ کسی بندے کی کوئی بھی عبادت خواہ نماز ہو،دعا ہو، صدقہ و خیرات ہو یا حج ہو، قبول نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا:

’’ جس نے حرام کا لقمہ کھایا، اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی اور اس کی چالیس دن تک دعا بھی قبول نہ ہوگی۔۔۔‘‘ (کنز العمال، کتاب البیوع،حدیث نمبر ۹۲۶۲،بحوالہ دیلمی بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)۔

عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جس نے ایک کپڑا دس درہم کا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا ہے (یعنی دسواں حصہ) تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا جب تک وہ (کپڑا) اس کے جسم پر ہے۔ پھر انہوں نے اپنی (شہادت کی) انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ یہ دونوں (کان) بہرے ہوجائیں اگر میں نے یہ (کلام) رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو‘‘۔ (مشکوٰۃ،کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال، بحوالہ احمد و بیہقی فی شعب الایمان)۔

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال اور غبار آلود ہے، آسمان کی طرف اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے، یا رب ! یا رب! لیکن اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، غذا اس کو حرام کی ملی ہے (یعنی مال حرام سے اس کی پرورش ہوتی ہے)  تو اس کی دعا کیسے قبول ہو؟(صحیح مسلم،کتاب الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتھا)۔ صدقہ کے سلسلہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہو اور اس کا وہ صدقہ قبول کرلیا جاتا ہواور نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص اس (حرام مال) سے (اپنی ذات یا اہل و عیال پر) خرچ کرتا ہو اور اسے اس میں برکت حاصل ہوتی ہو، اور اس (حرام مال) کوچھوڑ کر نہیں جاتا مگر وہ دوزخ کی آگ کی طرف اس کا توشہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعہ نہیں مٹاتابلکہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتا ہے، بیشک پلید پلید کو دور نہیں کرتا‘‘۔ (مشکوٰۃ،کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال، بحوالہ احمد و شرح السنہ)۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حرام آمدنی میں سے کچھ صدقہ کردینے سے باقی مال حلال ہوجاتا ہے، یہ ان کی کج فہمی ہے، انہیں مذکورہ حدیث پر غور کرنا چاہیے۔

 حج کے سلسلہ میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب کوئی شخص پاک نفقہ کے ساتھ حج کے لئے نکلے، رکاب میں پاؤں رکھے اور کہے لَبَّّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ (حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں !) تو آسمان سے ایک منادی یہ اعلان کرتا ہیلَبَّّیْکَ  وَ سَعْدَیْک  (میں حاضر ہوں سعادت مندی تیرے لئے ہے)، تیرا زاد راہ حلال ہے، تیری سواری حلال ہے، تیرا حج مبرور ہے، اس میں گناہ نہیں ہے اور جب کوئی حرام مال سے حج کے لئے نکلے، رکاب میں پاؤں رکھے اور کہے لَبَّّیْک تو آسمان سے ایک منادی یہ اعلان کرتا ہے نہ تیرا لَبَّّیْکقبو ل نہ تو سعادت مند ہے، تیرا زاد راہ حرام ہے، تیرا نفقہ حرام ہے، تیرا حج مقبول نہیں بلکہ مردود ہے‘‘۔(مختصر الترغیب و الترہیب، دارالعلم، ممبئی، ۲۰۰۷؁ء، حدیث نمبر۳۶۷  بحوالہ طبرانی فی الاوسط)۔

حرام مال کو اگر تعمیر کے کام میں لگایا جائے تو اس میں بھی بے برکتی اور ویرانی آتی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تعمیر میں مال حرام لگانے سے بچوکیوں کہ مال حرام ویرانی کی اساس و بنیاد ہے‘‘۔ ( بیہقی فی شعب الایمان،مطبوعہ دارالاشاعت،کراچی (پاکستان)،۲۰۰۷ ؁ء، جلد ۷، ص ۳۴۸، حدیث نمبر ۱۰۷۲۲)۔ ان سب کے علاوہ مال حرام سے جسم کی پرورش کرنے کا حتمی نتیجہ جنت سے محرومی کی شکل میں سامنے آئے گا۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ـ ـ’’جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو گوشت حرام مال سے پلا ہو،ہر وہ گوشت جو حرام مال سے پلا ہو آگ اس کے زیادہ لائق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ،کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال بحوالہ احمد، دارمی و بیہقی فی شعب الایمان)۔

 اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھی حلال رزق کے اہتمام کا حکم دیا۔فرمایا:

{ ٰٓیاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا}

’’ اے پیغمبروں پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو‘‘۔ ( المؤمنون ۲۳: ۵۱)۔

اسی طرح عام انسانوں کو بھی حلال و طیب رزق کو اختیار کرنے کی ہدایت کی۔فرمایا:

{ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا  مِمَّا  فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً  طَیِّبًا وَّلَا  تَتَّبِعُوْا خُطُوٰاتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ  لَکُمْ  عَدُوٌّ  مُّبِیْنٌ}

 ’’اے لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو،بیشک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۶۸)۔ ایک جگہ مومنوں کو یوں خطاب فرمایا:

{فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ  اللّٰہُ حَلٰلاً  طَیِّبًا ص وَّاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ  اِیَّاہُ   تَعْبُدُوْن}

’’ پس اللہ نے جو تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرو اگر اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘۔ (النحل ۱۶:۱۱۴)۔

ان آیتوں پر غور کرنے سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حلال و طیب رزق کا اعمال صالحہ، اللہ کی شکرگزاری اور اس کی بندگی سے ایک خاص تعلق ہے اور یہ کہ اس سے انحراف کرنا ایک شیطانی عمل ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا : ’’طلب حلال ہر مسلمان کے لئے واجب ہے‘‘۔ (مختصر الترغیب و الترہیب، حدیث نمبر۵۹۱ بحوالہ طبرانی فی الاوسط بروایت انسؓ)۔ اور حلال روزی کا اہتمام کرنے والوں کو یہ بشارت بھی دی:

’’ جس نے پاک (حلال) مال کھایا،اور سنت پر عمل کیا اور لوگ اس کی تکلیفوں سے محفوظ رہے تو ایسا شخص جنت میں داخل ہوگاـ‘‘۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، حدیث نمبر ۹۲۱۳  بحوالہ ترمذی و مستدرک حاکم بر وایت ابو سعید خدریؓ )۔

لیکن اللہ اور اس کے رسول کی ان ہدایات کے باوجودمسلمانوں سے اس سلسلہ میں بڑی کوتاہیاں ہو رہی ہیں ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حرام چیزیں بھی دو قسم کی ہیں ؛ ایک تو وہ جو ذاتی و فطری طور پر حرام ہیں جیسے شراب، سور کا گوشت وغیرہ اور دوسری قسم ان چیزوں کی ہے جو بذات خود تو حرام نہیں ہیں لیکن ان کو حاصل کرنے کا باطل طریقہ انہیں حرام کے درجہ میں پہنچادیتا ہے۔ میرا زور (focus) یہاں ا سی دوسری قسم کی حرام چیزوں پر ہے کیوں کہ اول قسم کو اکثر لوگ حرام سمجھتے بھی ہیں اور اس سے عام طور پر بچتے بھی ہیں لیکن دوسری قسم کی حرام چیزوں کے سلسہ میں عام کوتاہی پائی جارہی ہے۔ اس میں سود، رشوت اور خیانت کے ذریعہ حاصل کردہ مال و اسباب سر فہرست ہیں ۔

 سود کے لئے قرآن میں لفظ ’ربا‘ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ’’ زیادتی اور بڑھوتری ‘‘ کے آتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں ایسی زیادتی کو ربا کہتے ہیں جو کسی مالی معاوضہ کے بغیر حاصل  ہو۔ لفظ ’ربا‘ کا ترجمہ اردو میں ’ سود‘ کیا جاتا ہے لیکن یہ’ ربا‘ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا، لفظ ’ربا‘  وسیع مفہوم کا حامل ہے اور اس کے اندر آپسی لین دین اور تجارتی معاملات کی بعض ایسی صورتیں بھی آتی ہیں جو اسلامی اصول سے ہٹ کر ہیں اور جس کی وضاحت رسول اللہ ﷺ نے وحی الٰہی کی روشنی میں کی ہے۔ لیکن سود کا تذکرہ کرنے سے لوگوں کا ذہن عام طور پر مروجہ سو د یعنی ـ’’روپیہ کی ایک متعین مقدار، ایک متعین میعاد کے لئے قرض دے کر متعین شرح کے ساتھ نفع یا زیادتی لینا‘‘کی طرف ہی جاتا ہے، ان تجارتی معاملات کی طرف نہیں جاتا جو سود کے دائرہ میں آتے ہیں ۔ اس لئے ان سے بچنے کی انہیں فکر بھی نہیں ہوتی۔ ان کو سمجھنے کے لئے بیع کے مسائل جاننا ضروری ہے۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ بازار جاتے تو تاجروں سے بیع کے مسائل پوچھتے اور جو نہ بتاتا اسے کوڑے لگا کر علم سیکھنے کے لئے بھیجتے اور فرماتے کہ جو بیع کے احکام نہ جانے اسے تجارت نہ کرنا چاہیے کہ لاعلمی میں سود میں مبتلا ہوجائے گا اور اسے خبر بھی نہ ہوگی (کیمیائے سعادت از امام غزالیؒ،مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاہور، ص ۹۱،۲۰۳)۔

اس لئے تاجر حضرات کو بیع کے مسائل ضرور سیکھنا چاہیے۔ سود کی دوسری صورت بینک سے ملنے والا سود ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت مبتلا ہے بلکہ بہت سے لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں جبکہ علماء اس پر متفق ہیں کہ بینکنگ انٹرسٹ بالکل حرام ہے اور اس کے جائز ہونے کی کوئی صورت نہیں لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے جس کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ بینکوں میں بچت کھاتہ (Saving Account) کھلوانے کے بجائے چالو کھاتہ یعنی Current Account) ( کھلوایا جائے اور سودی قرض کے لین دین سے بچا جائے۔ سود کا لینا دینا ایک ایسا جرم ہے جس پر قرآن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے۔

{ ٰٓیاَیُّھَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ  وَذَرُوْا مَا بَقِیَ  مِنَ  الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْن ہ  فَاِنْ  لَّمْ تَفْعَلُوْا  فَاْذَنُوْا  بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ}

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو۔ پس اگر تم اس (حکم) پر عمل نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ سن لوـ‘‘۔ (البقرہ ۲: ۲۷۸۔۲۷۹)۔

اس آیت میں  غیرت ایمانی کو بھی للکارا گیا ہے گویا ایک ایمان والے کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ سود کے معاملہ میں ملوث ہو اور جس کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کااعلان جنگ ہو اس کو ٹھکانا کہاں ملے گا اور عافیت کہاں سے نصیب ہوگی۔ سود کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ کے بھی سخت ارشادات ہیں ۔عبداللہ بن حنظلہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جو آدمی جانتے ہوئے بھی سود کا ایک درم کھاتا ہے،(اس کا یہ جرم) چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے‘‘۔ (سنن دارقطنی، مطبوعہ ادارہ اسلامیات، لاہور، ۲۰۱۵؁ء، جلد ۲، صفحہ۳۹۱، کتاب البیوع، حدیث نمبر ۲۸۴۳ اور بیہقی، شعب الایمان، جلد ۴، صفحہ  ۳۱۸، حدیث نمبر ۵۵۱۷)۔

نیز آپؐ نے فرمایا سود کے ستّر جز ہیں ، سب سے کم درجہ کے جزکا گناہ اس قدر ہے جیسے آدمی اپنی ماں سے زنا کرے‘‘۔ ( مشکوٰۃ، کتاب البیوع باب الربٰوا،بحوالہ ابن ماجہ و شعب الایمان بروایت ابوہریرہؓ)۔ جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے، فرمایا: ’’ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا گناہ میں یہ سب برابر ہیں ‘‘۔ ( مشکوٰۃ، کتاب البیوع باب الربٰوا،بحوالہ مسلم)۔ اتنے سخت ارشادات کے باوجود سود سے نہ بچنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

دوسری چیز جس کا آج کے معاشرہ میں بے حد رواج ہے وہ ’رشوت‘ ہے جسے آجکل ہدیہ اور تحفہ کی شکل دیدی گئی ہے۔ سرکاری اداروں میں اب کوئی کام خواہ صحیح اور درست ہی کیوں نہ ہو رشوت دئے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس رشوت کے بل پر ناجائز اور غلط کام بھی آسانی سے ہوجاتا ہے، دوسروں کی جائداد ہڑپ لیجاتی ہے، غلط رپورٹیں لکھوالیجاتی ہیں ، قاتلوں اور ملزموں کو راحت دلا دیجاتی ہے اور انصاف کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے جو ایک مستقل جرم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس گناہ میں مسلم اور غیرمسلم سب برابر ہوچکے ہیں ، الا ماشاء اللہ۔ جاننا چاہیے کہ رشوت کا مال ہر حال میں حرام ہے خواہ قانونی طور پر کسی درست کام کے لئے لیا جائے یا غلط اور ناجائز کام کے لئے۔ حکومت کے کسی محکمہ کا ملازم اگرغلط اور ناجائز کام کے لئے رشوت لے کرطے شدہ اصول و ضوابط کے خلاف کام کرتا ہے تو اس کی رشوت تو حرام ہے ہی تنخواہ بھی حرام ہوجاتی ہے کیوں کہ جس کام کے لئے حکومت نے اسے متعین کیا ہے اور جس کام کی اسے تنخواہ دیجاتی ہے وہ کام اس نے نہیں کیااور خیانت کا مرتکب ہوا۔ اسی طرح جو لوگ فرضی دستاویز، جھوٹے گواہوں اور رشوت کے بل پر حکام سے غلط فیصلے کرواکر دوسروں کی زمین و جائداد پرقبضہ کرلیتے ہیں وہ ان کے لئے کبھی حلال نہیں ہوسکتاکیوں کہ یہ باطل طریقہ پر کسی کا مال ہڑپ کرلینا ہے جو محض حاکم کے فیصلہ کردینے سے حلال نہیں ہوجاتاگو کہ وہ فیصلہ کسی شرعی عدالت سے لیا گیا ہو۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَلَا  تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ  بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا  بِھَآ  اِلَی الْحُکَّامِ  لِتَاْکُلُوْا  فَرِیْقًا  مِّنْ  اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ  وَاَنْتُمْ  تَعْلَمُوْن}

’’اور ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ پر نہ کھاؤ اور نہ ان کو (رشو ۃً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھاجاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو ‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۸۸)۔

رسول پاک ﷺ سے بھی رشوت لینے دینے والے کے سلسلہ میں وعید منقول ہے۔ عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے : ’’ رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے اور دینے والے (دونوں ) پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘۔ (مختصر الترغیب و الترہیب، حدیث نمبر ۷۸۳، بحوالہ ابوداؤد و ترمذی)۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے: ’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میں ہیں ‘‘۔ (کنزالعمال،کتاب الامارت، حدیث نمبر ۱۵۰۷۷  بحوالہ الکبیر للطبرانی، بروایت ابن عمروؓ)۔اس لئے ہر اس شخص کو جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور کسی دنیوی عہدہ پر فائز ہو، اسے نہ صرف رشوت بلکہ تحفہ تحائف کو قبول کرنے  سے بھی گریز کرنا چاہیے۔

تیسری چیز جس کے سلسلہ میں عوام و خواص میں بے حد بد احتیاتی ہے اور جس میں تاجر، ملازمت پیشہ اور مزدور طبقہ زیادہ ملوث ہے، وہ ہے ’خیانت کے ذریعہ مال حاصل کرنا‘۔ امانت کی ادائیگی ایمان کا جزو ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبوں میں اکثر فرمایا کرتے تھے :’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عہد لہ‘‘ ( ترجمہ): ’’ اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں ‘‘۔ (مشکوٰۃ،کتاب الایمان، بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان بروایت انسؓ)۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّواالْاَمَٰنٰتِ اِلیٰٓ اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ھ}

’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو،یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے، بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے ‘‘۔ (النسآء:۵۸)۔

اور فرمایا:{ اِنَّ  اللّٰہَ   لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْن} ( ترجمہ): ’’بیشک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (الانفال ۸:۵۸)۔ یہاں امانت داری سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کسی نے کچھ روپیہ یا مال و اسباب آپ کے پاس رکھ چھوڑا ہے توآپ اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے آپ بلاکسی کمی کے اسے واپس کردیں ۔ بلاشبہ یہ بھی امانت داری ہے لیکن یہ یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ اس کے دائرہ میں ہر قسم کے آپسی حقوق آتے ہیں ۔ آجر(employer) کا دیا ہوا کام مزدور کے لئے امانت ہے اور یہ اس کی ذ مہ داری ہے کہ سپرد کئے ہوئے کام کو پوری توجہ، مستعدی اور ایمانداری کے ساتھ پورا کرے اورمزدور کی مزدوری مالک کے لئے امانت ہے کہ وہ مزدور کی مزدوری بقدر کفالت، اس کی محنت، زمانہ کے حالات اور ماحول کے اعتبار سے عدل کرتے ہوئے ادا کرے۔ بائع(Vendor) اور مشتری (customer)  ایک دوسرے کے مال اور دیگر متعلقہ امور کے امانتدار ہیں ۔ اگر کسی نے بھی دوسرے کے ساتھ خیانت کی تو اس کے ذریعہ حاصل شدہ مال حرام ہوجائے گا۔ اسی طرح ایک شخص جو کسی ادارہ یا محکمہ میں ایک متعین تنخواہ پر ملازمت کرتا ہے اور اس کے کام کاوقت اور اس کی نوعیت طے شدہ ہے تو وہ وقت اور کام اس کے اوپر اس ادارہ کی امانت ہے۔

اب اگر اس نے طے شدہ وقت میں کمی کی یا دوسرے کاموں میں ضائع کردیااور کام کا حق ادا نہیں کیا تو اتنے وقت کی تنخواہ اس کی حرام ہوگئی کیوں کہ اس نے ادارہ کے ساتھ خیانت کی۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی آٹھ گھنٹہ کی ڈیوٹی ہے مگر وہ اس میں سے ایک گھنٹہ ہر روز چوری چھپے دوسرے کاموں میں ضائع کردیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مہینے کے ختم پراسے جو تنخواہ ملے گی اس کا آٹھواں حصہ حرام ہوجائے گا اور کام میں تساہلی کی وجہ سے عوام کو جو تکلیف پہنچے گی اس کا گناہ اس کے سر الگ سے آئے گا۔ لیکن آج ہم لوگوں کا اس کی طرف ذہن بھی نہیں جاتااور یہ احساس بھی نہیں ہے کہ کس طرح حرام مال ہماری آمدنی میں شامل ہورہا ہے۔ اسی طرح تمام چھوٹے بڑے افسران اور وزراء امانتدار ہیں ، انہوں نے جو عہدے اپنے ذمہ لئے ہیں ان کی ذمہ داری کی ادائیگی ان کو شریعت کے اصولوں کے مطابق کرنا لازمی ہے ورنہ آخرت میں یہی عہدے ان کے لئے وبال بن جائیں گے۔ مدارس کے مہتمم، مسجدوں کے متولی، یتیم خانوں کے سربراہ، اوقاف اور بیت المال کے نگراں وغیرہ کی ذمہ داریاں بھی امانت ہیں جن میں عام طور پر کوتاہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

  خیانت، بددیانتی اور باطل طریقوں سے مال و دولت حاصل کرنے کی اور بھی بہت سی شکلیں رائج ہیں جن کا احاطہ ایک مضمون میں کرنادشوار ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ان چند جھلکیوں کے ذریعہ راقم کا مقصدحلال و حرام کی ختم ہوتی تمیزکو زندہ کرنا اور مٹتے ہوئے احساس کو بیدار کرنا ہے۔ اب جس بھائی کو اللہ کا خوف اور آخرت کے انجام کی ذرا بھی فکر ہو وہ اپنے پیشہ سے متعلق اسلامی احکامات کو جاننے کی فکر کرے اور اپنے ذرائع آمدنی کا جائزہ لے، حلال کو اختیار کرے اور جہاں حرام کا شائبہ بھی ہو اسے ترک کردے۔ اسی میں د نیا اور آخرت کی عافیت اور فلاح پوشیدہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کی لغزشوں کو بھی معاف فرمائے اور بقیہ زندگی اپنی اطاعت میں گزارنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔