نسخۂ صحت

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

 ابتداہی سے حامدصاحب کادماغ تعلیم سے زیادہ تجارت میں چلتاتھا، لہٰذا تعلیم سے فارغ ہوتے ہی وہ تجارت میں لگ گئے، شروع شروع میں اُنھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا؛ لیکن اُن کی محنت، لگن، شوق اورذہانت نے اُن ابتدائی پریشانیوں کوگاؤوں کی اُن پتلی گلیوں کے درمیان ہی چھوڑدیا، جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہاکرتے تھے، اب  وہ شہرکے ایک متمول تاجرتھے۔

جب حامدصاحب نے اپنی تجارت کومکمل طورپرسٹ کرلیاتو شادی کی فکرسوارہوئی، والدین چوں کہ باحیات تھے؛ اس لئے انہی کے مشورہ سے ایک پڑھی لکھی قبول صورت لڑکی سے نکاح عمل میں آیا، جس سے چاراولادہوئیں، دوبیٹے اوردوبیٹیاں، حامدصاحب نے چاروں بچوں کواچھے مارڈن ایجوکیشن سے آراستہ کیا؛ چنانچہ بڑابیٹاسافٹ ویرانجینئربن کرگلف کی ایک کمپنی میں ملازم ہوا، دوسرا بیٹا ایم، بی، اے کرنے کے بعدایک خانگی کمپنی کاڈائرکٹرہوا، جب کہ بڑی بیٹی نے انگریزی میں ایم، اے کی ڈگری حاصل کی اورچھوٹی بیٹی کی تعلیمی تگ ودواس کی خواہش کے مطابق جاری رہی۔

 بڑی بیٹی ’’حمیرا‘‘اپنی عمرکی تئیسو یں دہلیزپرقدم رکھ چکی تھی؛ اس لئے حامدصاحب کواس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکردامن گیرہوئی، اس سلسلہ میں اپنے کئی دوستوں سے بھی گفتگوکی، ایک دن اُن کے پرانے دوست فاروق صاحب نے اُن سے کہا:

  ’’ارے بھئی حامد! کیوں نہ ہم اپنی اس پرانی دوستی کورشتہ داری میں بدل لیں ؟‘‘۔

  ’’کیامطلب؟‘‘، حامدصاحب نے نہ سمجھتے ہوئے دریافت کیا۔

 ’’مطلب یہ ہے کہ میرے بیٹے فَرُّوخ سے توآپ واقف ہی ہیں، وہ اس وقت دبئی کی ایک کمپنی میں ملازمت کررہاہے، اب اس کی شادی کردیناچاہتاہوں اورماشاء اللہ آپ کی بیٹی بھی تعلیم سے فارغ ہوچکی ہے، توکیوں نہ ان دونوں کورشتۂ ازدواج میں منسلک کردیاجائے؟‘‘، فاروق صاحب نے پوری تفصیل کے ساتھ حامدصاحب کوبتایا۔

  ’’بھئی بات توٹھیک ہے؛ لیکن ذراگھرمیں بھی توصلاح مشورہ کرلینے دیں ‘‘، گویاحامدصاحب نے نیم رضامندی کے ساتھ فاروق صاحب کے مطلب کاجواب دیا۔

 ایک شام، جب کہ حامدصاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ چائے پرتھے، فاروق صاحب کی بات ان کے سامنے رکھی، حامدصاحب کی اہلیہ بھی چوں کہ فروخ سے واقف تھیں ؛ اس لئے اس رشتہ کومناسب سمجھتے ہوئے اس پررضامندی ظاہرکی، تاہم حمیراسے پوچھنے کوضروری سمجھا، پھرایک دن موقع ملتے ہی حمیراسے اس سلسلہ میں بات کی، حمیرانے بھی اس رشتہ پر’’صاد‘‘کامہرلگایا۔

  دوتین دن کے بعدحامدصاحب نے فاروق صاحب سے اپنے گھریلوصلاح مشورہ کی بات بتائی اوررشتہ کوپختہ کرنے کے لئے ’’منگنی‘‘کی رسم کے لئے ان کودعوت دی، فاروق صاحب نے خوشی کا اظہارکرتے ہوئے ’’نیک کام‘‘میں دیرنہ کرنے کی بات کہہ کرایک ہفتہ بعد کی تاریخ طے کی، پھربہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ وقت ِمتعین پر منگنی کی رسم اداکی اورچھ ماہ بعدشادی کی تاریخ طے کی گئی۔

 اب دونوں دوستوں نے دھوم دھام کے ساتھ شادی کی تیاریاں شروع کیں، حامدصاحب اپنی بیٹی کودینے کے لئے ہراس چیز کی خریداری کررہے تھے، جس کی عادی گھرمیں اس کی بیٹی تھی، ادھرفاروق صاحب بھی کپڑے لتے اورزیورات کی خریداری میں مصروف ہوگئے، پھروقت مقررپرحمیرااورفروخ ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔

   حمیراکے سسرال میں بھی چوں کہ کسی چیزکی کمی نہ تھی؛ اِس لئے وہ اپنے سسرال سے خوش تھی، مزیدخوشی اسے اس بات کی بھی تھی کہ اس کا شوہردبئی میں ملازمت کرتاتھا، جومعاشرہ کے لئے ’’وجہ ِافتخار‘‘ بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ حمیراکی سہیلیوں نے بھی اسے ’’رشک بھری مبارک بادی‘‘دی تھی۔

  شادی کے تقریباً تین مہینے کے بعدفروخ واپس دبئی چلاگیا، فروخ کے جانے کے بعدکچھ دنوں تک توحمیراکوکوئی خاص احساس نہیں ہوا، پھرایک چبھن سی محسوس ہونے لگی، جس بسترکووہ اب تک پھولوں کی سیج سمجھتی رہی تھی، اب وہی خاروں کابسترمعلوم ہونے لگا، جس کمرے کی سجاوٹ منوں ٹنوں خوشیاں بھردیاکرتی تھی، اب وہی کمرہ کاٹ کھانے کے لئے دوڑتاہوامحسوس ہونے لگا، جس گھرکی چہاردیواری میں ہروقت بھینی بھینی خوشبوبکھری رہتی تھی، اسی گھرکی چہاردیواری میں اب ایک قسم کی عفونت بسی ہوئی معلوم ہونے گی، گھرمیں سب کچھ ہونے کے باوجودکسی چیزکی کمی کااحساس ہونے لگا، ایسی کمی، جس کی بھرپائی  ہفت اقلیم کی بادشاہت دان دے کر بھی نہیں کی جاسکتی، حمیراکواب شدت کے ساتھ یہ احساس ہونے لگاکہ معاشرہ میں جس چیزکو’’وجہ ِافتخار‘‘ سمجھاجاتاہے، وہ دراصل ایک لڑکی کے لئے ’’ذریعۂ انتحار‘‘ہے،لڑکی کے لئے یہ ایک ایسی سزاہے، جوکالاپانی کی سزا سے بڑھ کرہے، کالاپانی میں بھی لوگ ہزارمشقتوں کے باوجوداپنے پورے جذبے اور وجودکے ساتھ جیتے تھے، یہاں توجذبات سپاٹ اوروجودصرف ایک ڈھانچہ ہے۔

  دن گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس اورگہراہوتاگیا، جس کے نتیجہ میں حمیرا ذہنی اعتبارسے انتشارکاشکاراوردماغی لحاظ سے زارونزارہوتی چلی گئی، احساس سے پہلے جب بھی اپنے شوہرسے بات کیاکرتی، لگاوٹ کے ساتھ بات کرتی؛ لیکن احساس کے بعدبات کرنے کااندازجھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوگیا، اب وہ اپنے شوہرسے یہ ضدبھی کرنے لگی کہ وہ اسے بھی اپنے پاس بلالے، اس طرح پوراایک سال بیت گیااورفروخ ایک ماہ کی چھٹی لے کرگھرآیا۔

 فروخ کے گھرآنے سے حمیراکوخوشی توہوئی؛ لیکن چنددنوں کی عارضی خوشی کے تصورسے وہ اس طرح خوشی کا اظہارنہ کرسکی، جس طرح اس کے شوہرفروخ کوامیدتھی؛ بل کہ پہلے کہ مقابلہ میں وہ بجھی بجھی اورکھنچی کھنچی سی رہنے لگی، فروخ کویہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اس سے آخرایسی کیاغلطی ہوئی، جس کی سزاحمیرااسے دے رہی ہے، آخرایک دن اس نے حمیراسے پوچھ ہی لیا:

  ’’میری کس غلطی کی سزامجھے دے رہی ہو؟ پلیزمیرے ساتھ اس طرح سلوک نہ کرو، میں چندہی دنوں کے لئے توآیاہوں، کم ازکم ان چنددنوں میں توہنسی خوشی کی زندگی گزارو‘‘۔

   فروخ کے اس بات کے جواب میں حمیراکچھ کہنے کے بجائے بس پھوٹ پھوٹ کررونے لگی، وہ جواب بھی کیادیتی؟احساس کوئی ایسی شیٔ تونہیں، جسے سجاکرکسی کے سامنے چینی کی طشتری میں پیش کردیاجائے، فروخ جن چند دنوں کی بات کررہاتھا، انہی چنددنوں کے تصورہی سے توحمیرا ہول کھارہی تھی، وہ بس اپنے شوہرسے یہی کہتی رہی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں، میں یہاں آپ کے بغیرنہیں رہ سکتی۔

 بلاشبہ فروخ دبئی میں ملازمت کرتاتھا؛ لیکن کوئی ضروری نہیں کہ دبئی میں ملازمت کرنے والاہرشخص اس قابل بھی ہوکہ وہ وہاں اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوسکے؛ اس لئے فروخ نے حمیراکوبہت سمجھایااورتسلی دی کہ اب کی بارجاتے ہی اسے لے جانے کے لئے کوشش شروع کردے گا، فروخ کے سمجھانے سے حمیراکوکچھ ڈھارس بندھی اورمزید تھوڑے دن صبرکرلینے کے لئے ہمت جٹاتی رہی؛ یہاں تک کہ فروخ کے جانے کے دن بالکل قریب آگئے توحمیرانے اپنے شوہرکویاددلاتے ہوئے کہا:

  ’’اب کی بارمجھے بھی اپنے ساتھ لے کرجائیں گے نا؟‘‘۔

 ’’کیوں مجھ پربھروسہ نہیں ہے کیا؟‘‘، فروخ نے حمیراکوپیاربھری نظروں سے دیکھتے ہوئے الٹاسوال کیا۔

   ’’بھروسہ توہے، پریاددہانی کرارہی تھی، پلیز مجھے جلدبلانے کی کوشش کیجئے گا‘‘، حمیرانے فروخ کے سوال کا جواب ایسے لہجہ میں دیا، جس میں اتھاہ کسک بھی چھپی ہوئی تھی۔

فروخ نے حمیراکی تسلی کے لئے کہنے کوتویہ کہہ دیا کہ جاتے ہی تمہارے آنے کے لئے کوشش شروع کردوں گا؛ لیکن باوجودخواہش کے حمیراکے آنے کے لئے کسی طرح کا کوئی راستہ ہموارنہ کرسکا، اس پرمستزادسال گزرنے کے بعدبھی گھرنہ آیا، حمیرااب پہلے سے کہیں زیادہ پریشان تھی، جب بھی اپنے شوہرسے گفتگوکرتی اورلے جانے اورآنے کے بارے استفسارکرتی توفروخ کارٹارٹایاجواب ہوتا:

 ’’دیکھوحمیرا! میں کوشش میں لگاہواہوں ‘‘اور’’کمپنی کاایک بہت ضروری کام ہے، جسے نمٹانے کے بعدجلدہی گھرآؤوں گا‘‘۔

  دراصل فروخ کی کمپنی دوسال پراسے چھٹی دیاکرتی تھی، شادی کے پہلے سال توکسی طرح چھٹی لے کرگھرآگیاتھا؛ لیکن اب کی بارایسانہ کرسکا، اسی لئے باربارحمیراکو جھوٹی تسلیاں دینی پڑتی تھیں ؛ لیکن حمیرااب ان طفل تسلیوں سے بہلنے والی نہ تھی، وہ اب راتوں کوسویاکم اوررویازیادہ کرتی تھی، وہ تنہائی کی آگ میں جل کرکانٹاہوتی جارہی تھی، مال ودولت کی توبہت فراوانی تھی؛ لیکن جس چیزکی اسے ضرورت تھی، وہ مال ودولت سے نہیں خریدکی جاسکتی تھی۔

ایک دن کی بات ہے، حمیرااُلجھی اُلجھی سی گھرمیں تنہا بیٹھی ہوئی تھی، اچانک اس کے پڑوس کی ایک خاتون آئی، جس کے ساتھ حمیراکے مراسم بھی اچھے تھے، آتے ہی حمیراکی حالت ِزارپرافسوس کرنے لگی، پڑوسن کے افسوس کے نتیجہ میں حمیراکے صبرکابندھن ٹوٹ گیااوروہ سسکیاں لے لے کررونے لگی، پڑوسن نے اسے اپنے سینے سے چمٹالیااوراسے تسلی دیتی رہی، جب حمیراکی اصل پریشانی کااسے علم ہواتواس نے کہا:

’’اری پگلی! اس آگ میں اپنے آپ کوجلاکرکیاخاکسترکرلے گی؟ مجھے دیکھو، میرے بھی شوہرگلف میں رہتے ہیں اوروہ بھی دوسال پرگھرآتے ہیں ؛ لیکن میں تمہاری طرح ہروقت روتی منھ بسورتی نہیں رہتی‘‘۔

  ’’آپ کی بات اورہے آپا! مجھ سے اب جھیلانہیں جاتا‘‘، حمیرانے جواب دیا۔

  ’’میری بات اورنہیں ہے، میں بھی کافی دنوں تک پریشان رہی اورمیری صحت بھی تمہاری طرح گرچکی تھی، پھراچانک ایک نسخہ میرے ہاتھ لگ گیا‘‘، پڑوسن نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

  ’’کیسانسخہ آپا؟‘‘، حمیرانے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔

 ……  مہینہ گزرتے گزرتے حمیراروبہ صحت ہونے لگی، شایداسے بھی وہ ’’نسخۂ صحت‘‘ہاتھ لگ گیاتھا، جس کے لئے وہ کبھی کبھارآٹومیں بیٹھ شہرچلی جایاکرتی۔

تبصرے بند ہیں۔