تو پھر کیا کریں؟

عالم نقوی

آجکل بیشتر وقت اسی سوال کی تلاش میں گزرتا ہے۔ ہمارے سامنے ہفت روزہ عزائم کی ۱۹۷۰کی فائل ہے آئیے دیکھتے ہیں کہ قریب نصف صدی قبل ملک کے حالات کیا تھے اور استادی جمیل مہدی اُن حالات میں اپنے پڑھنے والوں سے کیا کہہ رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

میں اس بد نصیب ملت کا ایک بد نصیب فرد ہوں جسے ہندستان کی ہزار سالہ تاریخ کے سب سے ہولناک مرحلے کا سامنا ہے۔ اس ملت کی موت و زیست اور مستقبل کے ساتھ خود میری زندگی اور مستقبل کا سوال وابستہ ہے۔ اس لیے یقیناً مجھے اس بات  کا حق حاصل ہے کہ اِن تمام سرگرمیوں اور  قومی جدو جہد کے لیے قائم  مختلف محاذوں  کا پوری احتیاط اور اپنی بساط بھر قابلیت اور علم کی حد تک جائزہ لوں ۔ اور انہیں  متحرک، فعال بنانے کی پوری کوشش بھی کروں ، ان کی کوتاہیوں ، خامیوں ، کمزوریوں اور غلطیوں کا  نہ صرف  پتہ لگاؤں بلکہ اُن کے اظہار میں کسی قسم کی مصالحت اور خوف کا شکار اپنے آپ کو نہ ہونے دوں ۔ ایک ایسا آدمی جس کے مستقبل اور زندگی کا سارا دارومدوار اگلی صف کے لوگوں کے عمل اور فراست پر ہو، محض تبلیغی، اخلاقی، وعظ و نصیحت اور ملی اتحاد میں رخنہ اندازی کے خیالی خطرے سے نہ مطمئن ہو سکتا ہے اور نہ خاموش رہ سکتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بالکل نہیں آتا کہ جب میں اجتماعی گمراہیوں ، اجتماعی غلط روی، اجتماعی غلط کیشی اور غلط سیاست کو صاف صاف دیکھ سکتا ہوں تو صاف صاف اس کا اظہار کیوں نہیں  کرسکتا؟

 تاریخ سبق آموزی اور عبرت انگیزی کا ایک سر چشمہ ہے اور ایک ایسا آئینہ ہے جس کے ذریعے ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں ۔ ۔کامرانیوں اور کامیابیوں کا جائزہ لے کر مستقبل کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے کہ ان کی تاریخ کا ہر صفحہ تمدن کی روشنی میں اور انسانوں کی بیداری کے دور میں لکھا گیا ہے اور اس کے کسی ایک گوشے پر اس دھندلکے اور تاریکی کا سایہ نہیں جو دوسری قوموں کی تاریخ کے بلا مبالغہ ہزاروں برسوں پر اس طرح محیط دکھائی دیتا ہے کہ اس کی موجودگی میں تاریخی تسلسل اور یقین کےساتھ کوئی بات کہنا آسان نہیں رہ جاتا۔ لیکن اس کے باوجود ..۔۔یہ مسلمان ہی ہیں جو تاریخ کے سبق آموز اور عبرت خیز پہلوؤں سے ہمیشہ لاپروائی برتتے آرہے ہیں ۔

ابن خلدون کے علاوہ کسی مسلمان مؤرخ نے تاریخ پر جغرافیہ اور تمدن(نیز تہذیب اور ثقافت ) کے مجموعی اَثرات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے قابل سے قابل رہنماؤں اور دانشوروں کے اَفکار پر تاریخ کے شعور کی جھلک ملتی ہوئی بہت کم نظر آتی ہے۔۔ تاریخ سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے اُس کا مطالعہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ جس وقت۔ ۔مسلمانوں نے ریگ زارِ عرب سے نکل کر اُس زمانے کی عظیم اور طاقتور سلطنتوں کو منہدم کر کے ایک مختصر مدت میں اُس دَور کی مُتَمَدِّن اور عُلوم و فنون کے ہر زیور سے آراستہ دنیا پر اپنی بالا دستی قائم کر لی تھی۔ ۔اُس وقت۔۔ اُن کی تعلیمی صلاحیت اتنی کم تھی کہ اُن میں سے اکثر لوگ تحریر کے فن سے بھی ناواقف تھے۔ ۔ لیکن۔ ۔جس وقت۔ ۔اسپین میں زوال و اِدبار کے لائے ہوئے لرزہ خیز مصائب کا شکار ہوکر آٹھ سو برس پرانی حکومت سے مسلمان محروم ہوئے۔ ۔تو صورت حال آٹھ سو سال قبل سے بالکل مختلف تھی یعنی۔ ۔ اُن کے پاس دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں تھیں ، دنیا کے بہترین کتب خانے تھے اور تمام ترقی یافتہ عصری علوم و فنون کا بہترین ذخیرہ تھاجو۔ ۔خود مسلمانوں ہی کی  کئی سو برسوں پر محیط،  علمی و فنی کاوشوں کا نتیجہ تھا !اور یہی نہیں ۔ ۔

جب چنگیز خاں جیسے وحشی منگولوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا ئی (بغداد کا نام تو اس لیے لیا جاتا ہے کہ وہ عباسی خلافت  کا  صدر مقام تھا ورنہ منگولوں کی لائی ہوئی تباہی کا دائرہ تو سمرقند و بخارا تک وسیع تھا)تو اُس وقت۔ ۔مسلمانوں کی تہذیب، تمدن، ثقافت، سائنسی ترقی اور علمی برتری کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا تھا ! کتابوں کا اتنا لا محدود ذخیرہ تھا کہ جس وقت غرناطہ اور بغداد کے (عیسائی اور منگول ) فاتحین نے اِن کتابوں کو جلا کر  دریاؤں میں ڈالا تو دجلہ و فرات کا پانی بغداد میں ۔۔ اور دریائے’ وادی ا لکبریٰ ‘کا پانی غرناطہ میں ۔۔ کئی دنوں تک سیاہ بہتا رہا !

یعنی صاف ظاہر ہے کہ تعلیم کے اِس انتہائے فروغ اور کتابوں کے اس عظیم ذخیرے نے کہ جن کی بدولت ہسپانیہ  کے مسلمان پندرہویں صدی عیسوی میں یورپ کی ’نشاۃ ثانیہ سے بہت قبل ’’ یورپ کے معلم ‘‘کہلاتے تھے۔ ۔مسلمانوں کو ذرا فائدہ نہ پہنچایا ! اور غیر تعلیم یافتہ، وحشی اور علوم و فنون سے نا بلد قوموں کی یلغار کے سامنے وہ خس و خاشاک کی طرح بہتے چلے گئے ! اور وہ عظیم علمی سرمایہ اور تعلیم ان کے ذرا کام نہ آئی۔ اس لیے۔ ۔یہ کہنا کہ بس تعلیم اور صرف تعلیم ہی۔ ۔مسلمانوں کو نکبت و افلاس اور ذلت و درماندگی اور بے بسی و بے کسی کی حالت سے نکالنے کا واحد ذریعہ ہے۔ ۔محض حماقت ہے۔ فھل من مدکر ؟

تبصرے بند ہیں۔