امیر الہند خامس مولانا سید ارشد مدنی : حیات و خدمات

محمد فرقان

ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے مسائل کا شرعی حل ممکن نہیں رہ گیا تھا، اس لیے کہ عدالتوں میں مسلم جج نہیں رہ گئے تھے اور جو تھے وہ شرعی نظام کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے، اس لیے شرعی درالقضاء کا قیام ایک ناگزیر ضرورت تھا۔مسلمانان ہند کی مؤقر تنظیم ”جمعیۃ علماء ہند“ نے اپنے قیام کے روز اول ہی سے وطن عزیز میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی اور احکام شریعت کے نفاذ اور اجراء کیلئے امارت شرعیہ کے نظام کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ایک سال بعدسن 1920ء میں جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی ؒ مالٹا کی جیل سے واپس تشریف لائے تو آپ کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر منتخب کیا گیا، اور آپ کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس دوم منعقد ہوا۔ اس میں حضرت شیخ الہند ؒ نے قومی سطح پر”امارت شرعیہ ہند“کے نظام کو قائم کرنے اور ”امیر الہند“ کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔ لیکن اس وقت چند دشواریوں کی وجہ سے یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بعد میں محض بارہ دن بعد حضرت ؒ کا انتقال ہوگیا، تو ان کے جانشین حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب ؒ نے اس مشن کو آگے بڑھایا، لیکن بعض وجودہ سے اس وقت یہ کام آگے نہیں بڑھ پایا، البتہ صوبائی طور پر حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحبؒ بہار میں امارت شرعیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔تاہم کل ہند سطح پر امارات شرعیہ ہند کے قیام کی کوششیں بعد میں بھی جاری رہیں۔ بالآخر 02/ نومبر 1967ء کو مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی میں ایک نمائندہ اجتماع بلایا گیا اور”امارت شرعیہ ہند“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس عظیم نمائندہ اجتماع میں چودہ صوبوں کے ارباب علم و دانش علماء کرام، مفتیان عظام، فقہاء و محدثین، دینی مدارس کے اساتذہ و مشائخ طریقت اور دوسرے اہل مسلم اور دانشوروں کے درمیان”امیر الہند“ کے انتخاب کی تجویز پیش کی گئی۔ اس سلسلے میں صرف ایک نام آیا اور وہ محدث کبیر ابو المآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحبؒ کا تھا۔پورے اجتماع کے اتفاق رائے سے حضرت کو امیر الہند منتخب کرلیا گیا۔انکی رحلت کے بعد 09؍ مئی 1992ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ، بعد ازاں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوریؒ اور پھر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوریؒ کو بالترتیب امیر الہند منتخب کیا گیا۔ امیر الہند رابع حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ ہند کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ جلد از جلد نئے امیر کا انتخاب کیا جائے۔ اسی کے پیش نظر مؤرخہ 03؍ جولائی 2021ء مطابق ۲۲؍ ذی القعدہ ۲۴۴۱ھ بروز سنیچر کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں امارت شرعیہ ہند کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں ملک بھر سے امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد شریک ہوئے۔ اور باتفاق رائے عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم قائد، اکابرین دیوبند کے عملی ورثہ کے امین، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب ؒکے سچے جانشین، تقویٰ و طہارت کے امام، مروت کے شہنشاہ، میدان خطابت کے شہسوار، نامور محدث، باکمال مدرس، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیس، جمعیۃ علماء ہند کے صدر، ہزاروں اداروں کے سرپرست، ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، شیر ہند، جانشین شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ”امیر الہند خامس“منتخب کرلیا گیا، الحمدللہ۔ انتخاب کے بعد اجلاس میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔

سراپا رشد ہے ارشاد ہے ارشد کی پیشانی
انہیں کا کام ہے دینی شعائر کی نگہبانی 

امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی پیدائش 1360ھ مطابق سن 1941ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم دیوبند ہی میں حضرت شیخ الاسلام کے خلیفہ مجاز و خادم خاص حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحب سہسپوریؒ کے زیر نگرانی حاصل کی اور انہیں کے پاس ناظرہ و حفظ قرآن بھی مکمل کیا۔ پھر متوسط اور اعلیٰ تعلیم کے لئے سن 1959ء میں باضابطہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1383ھ مطابق سن 1963ء میں فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبادیؒ سے بخاری شریف پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔دارالعلوم دیوبند میں آپ نے جن اکابر علماء کرام سے استفادہ اور شرف تلمذ حاصل کیا ان میں حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ سے، حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلندشہریؒ، حضرت علامہ فخرالحسن صاحب مرادآبادیؒ، حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب دیوبندیؒ، اور حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ جیسے اساطین علم و فن شامل ہیں۔

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جانشین شیخ الاسلام امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ سن 1965ء میں بہار کے مرکزی ادارہ ”جامعہ قاسمیہ ضلع گیا“ میں مدرس مقرر ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سال تک یہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر سن 1967ء کی ابتداء میں آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور تقریباً چودہ ماہ وہاں مقیم رہے، پھر دوبارہ ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ چونکہ دارالعلوم دیوبند میں زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کا حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ سے خصوصی تعلق رہا اور حضرت بھی آپ پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے آپ کی واپسی پر حضرت علیہ الرحمہ نے آپکو جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں خدمت تدریس کا مشورہ دیا، جسے آپ نے قبول کیا اور سن 1969ء میں ”جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد“ میں منصب تدریسی پر فائز ہوئے۔ جامعہ میں آپ نے کتب متوسطہ کے علاوہ مشکوۃ شریف، مسلم شریف اور موطا امام مالک وغیرہ جیسی اعلیٰ کتابوں کا درس دیا۔ پھر 1403ھ مطابق 1982ء میں ام المدارس ”دارالعلوم دیوبند“ میں مدرس مقرر ہوئے۔یہاں آکر آپ نے درس نظامی کی اعلیٰ کتابوں میں مسلم شریف، ترمذی شریف جلد ثانی اور مشکوٰۃ شریف کا درس دیا اور تادم تحریر بھی یہ اسباق آپ سے وابستہ ہیں۔ حضرت والا نے دارالعلوم میں استاذ حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نظامت تعلیمات کا عہدہ بھی ایک عرصہ تک سنبھالا، چنانچہ 1987ء سے 1990ء تک آپ ”نائب ناظم تعلیمات“ رہے۔ پھر 1996ء سے 2008ء تک دارالعلوم کے”ناظم تعلیمات“کے عہدے پر فائز رہے اور تعلیم وتربیت کی بہتری کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ گزشتہ سال 14؍ اکتوبر 2020ء کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے متفقہ طور پر آپکو دارالعلوم دیوبند کا”صدر المدرسین“ منتخب کیا۔ آپکی درسی تقریریں مربوط، مسلسل اور پرجوش ہوتی ہیں، طلبہ ذوق و شوق سے آپ کے درس میں حاضر ہوتے ہیں۔

امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کو تعلیم و تعلم، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے والد گرامی حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ اور برادر اکبر حضرت فدائے ملت علیہ الرحمہ کی طرح ملی اور قومی سرگرمیوں میں بھی خاص دلچسپی تھی۔ اور آپ نے اس میں میدان میں بھی اپنی نمایاں خدمات انجام دیں بالخصوص”جمعیۃ علماء ہند“ کے پلیٹ فارم سے آپ نے اب تک ملک و ملت اور اسلامی تشخص کی سربلندی اور حفاظت کیلئے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ ابتداءً آپ ایک طویل عرصہ تک جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن رکین رہے۔پھر 28؍ فروری 2006ء میں آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے منصب صدارت کو سنبھالا اور اکابر کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے طوفان بلاخیز کا ہر محاذ پر جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ارباب اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے جس فراست و جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے فرزندان ملت کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ چنانچہ آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے جبر و تشدد کے شکار مظلومین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے مسئلہ کو جس جرأت و بے باکی کے ساتھ اٹھایا اور انکی فریاد رسی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خواہ وہ دہشت گردی کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کے استحصال کا مسئلہ ہو یا انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کا، تحفظ شریعت کی اہم ذمہ داری ہو یا مرکزی مدرسہ بورڈ کا فتنہ، ملک میں کھربوں روپے کی وقف جائیدادوں کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا بابری مسجد کے مقدمہ کی پیروی، خواتین ریزرویشن جیسے خطرناک بل کا معاملہ ہو یا مسلم ریزرویشن کی پر زور وکالت کا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی بحالی کے سلسلے میں مخلصانہ جدوجہد ہو یا گوپال گڑھ کی پولیس کی بربریت کے خلاف مساعی، فرقہ پرستوں کی پست ذہنیت کے خلاف ارباب اقتدار کو وارننگ ہو یا مختلف کمیشنوں کی رپورٹ کے نفاذ کا معاملہ، جمہوریت کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا فرقہ پرستی کے خلاف صدائے احتجاج، قومی حقوق انسانی کمیشن کی دوغلی پالیسی ہو یا حصول انصاف کا تقاضا، یکساں سول کوڈ کا فتنہ ہو یا مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا مسئلہ، لازمی شادی رجسٹریشن کی تجویز کی مذمت ہو یا طلاق ثلاثہ بل کا قانون، تعداد ازواج کا مسئلہ ہو یا ہم جنس پرستی کا فتنہ، دینی تعلیمی بورڈ کے ذریعے ملک بھر میں مکاتب کا قیام ہو یا ملک میں اصلاح معاشرہ کی تحریک، غریبوں اور مصیبت زدہ افراد کی بروقت دست گیری ہو یا طوفان اور سیلاب زدگان کیلئے ریلیف، فسادات پر ارباب حکومت کو وارننگ دینا ہو یا فسادات سے مثاثر لوگوں کی امداد، برما کے مہاجرین کا مسئلہ ہو یا آسام کے باشندوں کی شہریت کا مسئلہ، شہرت ترمیم قانون ہو یا این آر سی اور این پی آر کا مسئلہ، قومی یکجہتی کانفرنس ہو یا عید ملن کی تقاریب، عظمت صحابہ کانفرنس ہو یا جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس عام، گودی میڈیا پر لگام لگانے کوشش ہو یا لاک ڈاؤن سے متاثر غریبوں اور ضرورتمندوں کی امداد، قرآن کی چھبیس آیات پر اعتراضات کا جواب ہو یا جبراً تبدیلی مذہب کا سوشہ، ملکی حالات ہوں یا عالمی حالات، ہر محاذ پر صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے جس ہمت، جرأت، اخلاص اور توجہ کے ساتھ سعی پیہم کرتے ہوئے ملت اسلامیہ ہندیہ کی جو شاندار اور مثالی قیادت کی ہے وہ یقیناً مسلمانانِ ہند بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کا روشن باب ہے۔ آپ نے مسلمانوں کی اس نمائندہ و تاریخ ساز انقلابی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی مسند صدارت پر فائز ہونے کے بعد سیاسی گلیاروں میں بیٹھے اقتدار کے دلالوں سے قربت یا ارباب اقتدار کی کاسہ لیسی جیسے ناپسندیدہ اور غیر مہذب طریقہ پر لات مار کر ایک نڈر بے خوف مجاہد حق کا حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم و ستم رسیدہ ملت کے مستحق افراد کے زخم خوردہ قلوب پر مرہم رکھنے کے قائدانہ فریضہ کو نہ صرف ادا کیا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ آپ موجودہ فتنہ انگیزی کے دور میں اپنے اکابرین کے تاریخ ساز کردار کے حقیقی وارث اور امین ہیں۔

اب سب کی زباں پر ارشد ہے، ملت کا یہی آواز ہے اب
جذبات سلف کے رازوں کا، ارشد ہی یہاں ہمراز ہے اب

جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے پلیٹ فارم سے بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بالخصوص ملک کی متحدہ، متفقہ اور مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مجلس تاسیسی کے آپ رکن ہیں۔ اسی طرح عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین تنظیم رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے بھی مجلس تاسیسی کے آپ رکن ہیں۔ اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے مختلف بڑے بڑے ادارے آپکی سرپرستی و نگرانی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، علاوہ ازیں عالم اسلام کی مختلف نمائندہ تنظیموں کے آپ رکن رکین بھی ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے آپکی خدمات ناقابل فراموش ہے، یہی وجہ ہیکہ جب گزشتہ دنوں ”امیر الہند خامس“کے انتخاب کیلئے مؤرخہ 03؍ جولائی 2021ء مطابق ۲۲؍ذی القعدہ ۲۴۴۱ھ بروز سنیچر کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں ”امارت شرعیہ ہند“کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے زیر صدارت منعقد ہوا، تو امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد کی موجودگی میں صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ نے اس باوقار منصب کے لیے جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء ہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) کا نام پیش کیا۔ جسکی تائید حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و امیر شریعت اترپردیش)، حضرت مولانا رحمت اللہ میر صاحب قاسمی کشمیری مدظلہ (رکن شوری دارالعلوم دیوبند امیر شریعت جموں و کشمیر)، حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی مدظلہ (رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہند)، حضرت مفتی احمد صاحب دیولہ مدظلہ (نائب صدر جمعیۃ علماء گجرات)، حضرت مولانا سید اشہد صاحب رشیدی مدظلہ (مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد)، حضرت مولانا بدر احمد صاحب مجیبی مدظلہ (خانقاہ مجیبیہ پٹنہ بہار)، حضرت مولانا یحییٰ صاحب باسکنڈی مدظلہ (امیر شریعت آسام)، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء آسام) نے کی۔ ان تائیدات کے بعد صدر اجتماع حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ نے ”امیر الہند خامس“کے طور پر”جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم“کے نام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ حضرت نے اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے معذرت ظاہر کی تاہم تمام مجمع کی تائید کے بعد وہ امیر الہند خامس منتخب ہوئے۔ بعد میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔ الحمدللہ

بس بہ توفیق الٰہی ہے یہ حسن انتخاب
کارواں تو پھرمیسرہے امیر لاجواب
ائے امیر الہند ارشد عزم و ہمت کو سلام
سید ارشدصدر جمعیۃ کی رفعت کو سلام
میر خامس آبروئے ملک و ملت کو سلام

امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ہندوستانی مسلمانوں کی جو شاندار مثالی قیادت کی ہے جو تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپکی دینی، ملی، قومی، سماجی اور معاشرتی خدمات ناقابل فراموش ہے۔ جمعیۃ علماء ہند جیسی باوقار تنظیم کی صدارت اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے صدرات تدریس کی اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے بعد اب آپ کو”امیر الہند“ بھی منتخب کرلیا گیا ہے۔ اس حسن انتخاب سے ملت اسلامیہ ہند میں بے حد خوشی کا ماحول ہے۔ کیونکہ نومنتخب امیر الہند اس وقت عالم اسلام میں اپنے اکابر و اسلاف کی نشانی، عبقری شخصیت، صاحب عزم و عزیمت اور علماء دیوبند کے سرخیل ہیں۔ ملت اسلامیہ انہیں انتہائی قدر و منزلت اور وقار و احترام کی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ آپ کی ایک آواز پر جہاں امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ لبیک کہتا ہے وہیں آپکی ایک جھلک دیکھنے اور آپکو سننے کیلئے امت مسلمہ کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر جمع ہوجاتا ہے۔ راقم السطور کو بھی یہ سعادت حاصل ہیکہ امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کو کئی مرتبہ قریب سے دیکھنے، سننے، ملاقات اور خدمت کا حسین موقع میسر ہوا ہے۔ ابھی امیر الہند منتخب ہونے کے ایک دن بعد 05؍ جولائی 2021ء کو حضرت والا کی بنگلور تشریف آوری پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے زیر اہتمام منعقد ایک خصوصی تہنیتی اجلاس میں شرکت اور آپ سے ایک مرتبہ پھر استفادہ اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپکی شخصیت علم و عمل، عظمت و ہمت، تقویٰ و طہارت، سخاوت و تواضع، ذہانت و صلاحیت، شجاعت و بلند اخلاق کی حامل ہے۔ آپ مسلمانان ہند کے لئے قدرت کا عظیم عطیہ ہیں، جو انقلابی فکر اور صحیح سمت میں صحیح اور فوری اقدام کی جرأت رکھتے ہیں۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت امیر الہند کی خاص صفت ہے۔ آپ حقیقی مانوں میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب ؒکے جانشین اور انکے علوم کے امین ہیں۔ امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی قیادت و سیادت میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے جڑ کر کام کرنا ہمارا لئے باعث سعادت اور فخر ہے اور آج سے ان شا اللہ آپکی امارت میں بھی مسلمانانِ ہند حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھے گی اور پوری ہمت و حوصلے اور اپنے مذہبی و ملی امتیازی شان وشوکت اور اپنی انفرادی تشخص کے ساتھ اس ملک میں زندگی گذارے گی۔ آپ کے”امیر الہندخامس“ منتخب کئے جانے پر ہم والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی خدمت عالی میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے آپکا استقبال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ امت پر تادیر قائم و دائم فرمائے!

آج امارت ناز کرتی ہے تمہاری شان پر
فرحتیں ہر فرد پر رقصاں ہیں اس اعلان پر
اب امیر الہند کے اس مسند فرماں پر
ارشد مدنی رہیں گے جلوہئ فیضان پر
ہو مبارک آپ کو، یہ منصب اہل وفا
مرحبا اب کہہ رہی ہے، مسند اہل ہدی

تبصرے بند ہیں۔