مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 واعظ ِ دکن ،امیر ملت اسلامیہ آندھراپردیش حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل ؒ بانی جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآبادکی وفات کو سات سال کاعرصہ گزرچکا ہے ،12مارچ2010ء کوتقریبا 82سال کی عمر آپ اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔آپ کی یادیں آج بھی ذہن ودماغ میں زندہ ہیں اوران شاء اللہ آپ کی یادگار وبے مثال قومی ،ملی ،دینی ،اصلاحی اور انقلابی خدمات ہمیشہ آپ کی یادوں کو زندہ رکھیں گی۔زمانہ ان لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا جو اپنا خون ِ جگر دے کر گلشن کی آبیاری کرجاتے ہیں ،اور اہل ِ زمانہ صدیوں بعد بھی اپنے ان محسنوں کو بھول نہیں پاتے کہ جنہو ں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے قوم وملت کے لئے رہبری و رہنمائی کا گراں قدر کام انجام دیا۔تاریخ کے صفحات اور دن و رات کی گردش ان ہستیوں کو خراج ِ عقیدت پیش کرتے رہتی ہیں کہ جن کی قربانیوں سے صبح ِ بہاراں کا حسین منظر نگاہوں کو نور اور دل کو سرور پہنچاتا ہے۔ حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل ؒ بلاشبہ تاریخ کے ان عظیم اور ناقابل ِ فراموش انسانوں میں سے ہیں کہ جن کی یادیں مشام ِ جاں کو معطر کرتی ہیں اور جن کے تذکرے عزم وہمت کو ایک نیا ولولہ عطا کرتے ہیں ،سنگلاخ وادیوں میں پھول کھلانے والے ،بنجر زمین پر مستقبل کا لہلہاتا چمن تیار کرنے مردِ مجاہد کو بھلاکیسے ُبھلایا جاسکتا ہے ؟

   بات دراصل یہ ہے کہ حضرت مولانا عاقل ؒ  قوم و ملت کیلئے در نایاب تھے، ان کی گراں قدر خدمات کا دائرہ نصف صدی کو بھی پار کر چکا ، و ہ دکن کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں ، دکن کا مؤرخ اس وقت تک اپنی تاریخ مکمل نہیں کرسکتا ، جب تک کہ مولانا عاقل ؒکے کارناموں کا احاطہ نہ کرے ، وہ نہ صرف حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کے علمبردار تھے بلکہ اگلوں کی روایتو ں کے سچے پاس دار اور ان کے علوم و فنون کے امانت دار بھی تھے۔

وہ قوم و ملت کے محسن و غم خوار تھے، اتحاد و اتفاق کی لڑی کو جس طرح انہوں نے پر ویا تھااس کی نظیر ملنی مشکل ہے، تقوی و للّٰہیت ان کی زینت تھی، ایثار و قربانی ان کی عادت تھی، تواضع و سادگی ان کا حسن تھا، علم و عمل ان کی پہچان تھی، وہ تصوف و سلوک کے رازدار بھی تھے اور طریقت و شریعت کے رمز شناس بھی ، اتباع سنت ان کا متیاز رہا، عشق ِرسول ان کی زندگی بھر کی دولت تھی اور قوم و ملت کیلئے کچھ کر گذرنا ان کی دلی آرزو، ان کی زندگی کاسفر جب سے شروع ہواتھا مسلسل پیرانہ سالی کے باجود جاری تھا،اور خدمت ِ دین کرتے کرتے ہی جان جان ِ آفریں کے حوالہ کی۔ان کی بے شمار قربانیاں شہر کی رونقوں سے لے کر دیہات کی تاریک زندگیوں تک پھیلی ہوئی ہیں ، ا ن کے روشن کی ہوئی علم کی قندیلیں آج ہر سو جگمگا رہی ہیں اور ان کے لگاے ہوئے علم کے پودے آج شجر سایہ دار بن کر نو نہالانِ قوم کو زیور علم سے آراستہ کر رہے ہیں ۔تقریر وخطابت کا ملکہ بھی ایسا غیر معمولی اللہ تعالی نے عطا کیا تھا کہ جب مائیک سنبھالتے تھے تو پھر ہر سوتا جاگ جاتا تھا اور سارے مجمع پر ذوق و شوق کی لہر دوڑ جاتی تھی اور تقریر دل پذیر سننے کیلئے سب ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے، تقریر بھی کیا ایک سیل رواں کہ جس میں حکمت و موعظت کے موتی بھی ہوتے ،اصلاح و تربیت کے جواہر پارے بھی ، عبرت و فکر ِآخرت کے دلسوز مضامین بھی، ضرب الامثال اور کہاوتوں کا حسین گلدستہ بھی ، فارسی وعربی اور اردو اشعار کا سلسلہ بھی، قرآن و حدیث کی دلنشین تشریح بھی ، قہقہوں کا طوفان بھی اور پھر فوری عبرت دلانے والا نرالا انداز بھی ،حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف شمشیر ِبرہنہ، حق گوئی و بے باکی کا اعلی نمونہ بھی، غرض یہ کہ بے شماردلچسپیاں وعظ میں تھیں اور ان گنت خوبیاں اپنی شخصیت میں رکھتے تھے۔

  3جولائی 1928ء کو آپ کو حیدر آباد میں پیداہوئے ،آپ کے والد ماجد علامہ حسام الدین فاضل ؒ اپنے وقت عالم ِ باکمال اور خطیب ِ بے مثال تھے،جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں اور اپنے والد ِ محترم کے پاس دینی تعلیم حاصل کی۔جامعہ عثمانیہ کے شعبہ ٔ دینیات سے،بی ،اے ،ایم ،اے کیا،اور پی ،ایچ ،ڈی میں شریک ہوئے مقالہ بھی لکھا،مقالہ کو داخل کرنے سے قبل ہی والد ِمحترم کے انتقال نے عظیم ذمہ داریوں اور دینی خدمات کے راستہ پر چلادیا۔اللہ تعالی نے بے پناہ عوامی مقبولیت عطا فرمائی تھی ،اور خواص میں آپ ہمیشہ ’’میر کارواں ‘ ‘ ہی بن کر رہے ۔جنوبی ہند کا قدیم وبافیض ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد‘‘آپ ہی قائم کیا ہوا ہے ،جس کے بے شمار فیض یافتگان اور خوشہ چینی اس وقت پوری دنیا میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تاسیسی ورکن عاملہ تھے،دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے رکن ِ شوری ،دینی مدرسہ بورڈ آندھراپردیش اور یونائیٹڈ مسلم فورم کے صدر تھے۔ان گنت اور بے شمار دینی اداروں کے سرپرست اور ذمہ دارتھے۔

امیر ملت اول مفتی عبد الحمید صاحب کے انتقال کے بعد1977میں آپ ’’امیر ملت اسلامیہ آندھراپردیش ‘‘منتخب کئے گئے اور تا حیات آپ ہی اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ سفر آپ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکاتھا ،پوری ریاست میں دینی مدارس کے سالانہ جلسے تقریبا آپ ہی کی صدارت میں منعقد ہوتے ،ضعف وپیرانہ سالی کے باوجود ہر وقت ملت کی خدمت اور دینی خدام کی حوصلہ افزائی کے لئے جلسوں میں شریک ہوتے ۔آپ کی اسفار اور دینی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں :’’ اس حقیر کو دکن تلنگانہ، مرہٹواڑہ ، کر ناٹک ، حید رآباد کے بہت سے اضلاع کو جانے کا اتفاق ہو اہے، اب اس پورے علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے اور عام طور پر جلسہ کے میزبانوں کی طرف سے سواری کا معقول نظم ہو تا ہے، بہت سے ایسے دیہاتوں میں پہنچنے کا موقع ملاجہاں کے راستے اب بھی ناقص ہیں ، لوگوں نے بتایا کہ آج سے25/30سال پہلے حضرت عاقل صاحب یہاں تشریف لائے، اس وقت سواری اور سڑک کامعقول انتظام نہیں تھا، اس لئے فلاں جگہ تک بس سے آئے اور وہاں سے بیل گاڑی کے ذریعہ یہاں تک پہنچے، یا فلاں جگہ سے پیدل یہاں تک آئے، مجھ پر ان واقعات کا بڑا اثر ہو ا ، آج کی دنیا سہولتوں اور آسانیوں کی دنیا ہے ، لیکن آج سے25؍30سال پہلے ایسی صورت حال تھی کہ دور دراز کے دیہاتوں میں نہ مدارس و مکاتب تھے، نہ علماء و مقررین کی آمد تھی، نہ دینی تنظیموں اور جماعتوں کی رسائی تھی، اس وقت مولانا گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ پہنچ کر امت کی اصلاح کی کوشش کی اور ان کو ارتداد کے فتنہ سے بچایا۔‘‘

  بہرحال بہت ساری باتیں اور یادیں اس وقت ذہن ودماغ گردش کررہی ہیں اور نگاہوں کے سامنے اس عظیم شخصیت کا پر نور سراپااحساسِ جدائی کو تازہ کررہا ہے۔مختصر یہ کہ آج پوری ریاست ِ آندھراپردیش ہر دینی جلسہ اور قومی وملی پروگرام میں اپنے اس محسن کی غیر موجودگی کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں ،اور ان کی فرقت کے صدموں کو برداشت کرتے ہیں ،وہ جب تک رہے ملت اسلامیہ کا وقار اور آبرو بن کر رہے ،مخالفین کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس مرد ِ درویش کی موجود گی میں کوئی فتنہ برپاکرے،اور جب کبھی بھی دینی مدارس یا شخصیتوں پر حملہ کی کوشش کی گئی ،نوجوانوں کو ہراساں کرنے کی سازش کی گئی اور کسی بھی اعتبار سے گزند پہنچانے فکر کی گئی سب سے پہلے میدان میں للکارنے والا اور حکومت ِ وقت کے ناپاک عزائم کے خلاف آگاہ کرنے والا یہی مرد ِ دانا تھا۔نگاہ بلند ،سخن دل نواز اورجاں پرسوزکے اوصاف کے حامل آپ میر کارواں تھے۔اللہ آپ کوبلند درجات عطاکرے اور آپ کی عظیم خدما ت کو صدقہ جاریہ بنائے۔ حضرت مولانا عاقل صاحب ؒ ہی کا ایک شعر ہے؎

جس قدر ہوسکا ،جس قدر کرسکا،قوم کو راہ حق کی بتاتا رہا

حکم یارب سنانا مرا کام تھا،دل کی دنیا بدلنا تراکام ہے

تبصرے بند ہیں۔