آئندہ کل کے ’والد صاحب‘

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

فادرس ڈے یعنی یوم والد پر میڈیا، سوشل میڈیا نے کچھ خاص توجہ نہیں دی جبکہ بچوں کیلئے والد اور والدہ دونوں ضروری ہیں۔ والدہ کی نرمی اور والد کی سختی سے گھر کا ماحول معتدل و متوازن رہتا ہے۔ جو بچوں کو ان کی منزل تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔ مغرب میں اوپن سوسائٹی والا سماج ہے جو مشرق سے مختلف ہے۔ وہاں بچہ اپنی ماں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال، حفاظت اور تعلیم وتربیت کا بندوبست حکومت کرتی ہے۔ ابتداء میں ماں کو اس کا م کیلئے کام سے چھٹی اور اضافی رقم دی جاتی ہے۔ بڑے ہو کر زیادہ تر بچے ہوسٹل چلے جاتے ہیں ۔ ان کی ڈور ماں سے جڑی رہتی ہے لیکن نہ ماں ان کی زندگی میں دخل دیتی ہے اور نہ وہ ماں کی۔ کئی بچے زندگی میں اپنے والد سے کبھی نہیں ملے ہوتے۔ وہاں یہ ضروری نہیں کہ عورت زندگی بھر ایک شوہر یا پاٹنر کے ساتھ ہی رہے۔ یہی معاملہ مردوں کا بھی ہے۔ اس لئے بزرگ والدین بچوں پر منحصر نہیں ہوتے۔ اولڈ ایج ہوم ان کا سہارا ہوتے ہیں ۔ جو بچے اپنے والدین سے رشتہ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ چھٹی کے دن یہاں آ کر ان سے مل لیتے ہیں۔

ترقی اور وسائل کے استحصال کی چاہ نے مغرب کے انسان کو مشین بنا دیاہے۔ اس کے نتیجہ میں خوشحالی آئی، دولت و طاقت ملی، غربت اور محرومی دور ہوئی۔ اخلاقی قدروں کی پامالی اور مادی منفعت پسندی نے چین، سکون اور اطمنان ختم کر مایوسی پیدا کر دی۔ جسے دور کرنے کیلئے ہفتہ میں پانچ دن کام دو دن سیر سپاٹا، حیثیت کے مطابق محفوظ شراب کی دستیابی اور سیکس کو عام کیا گیا۔ سیکس ایجوکیشن کو نصاب میں داخل کیا گیا لیکن کچھ ہی دنوں میں لوگ اس سے اکتا گئے۔ امن وسکون کی تلاش میں عام لوگ یوگا، میڈیٹیشن، بدھ مت، ہندو مذہب اور اسلام کی طرف متوجہ ہوئے۔ حکومت کی جانب سے پائیدار ترقی کے فلسفہ کو مشتہر کیا گیا۔ سماجی سائنسدانوں اور ریفارمز نے لوگوں کو انسانی رشتوں سے جوڑنے اور ان میں محبت پیدا کرنے کیلئے فرینڈ شپ ڈے، روز ڈے، مدرس ڈے، فادرس ڈے وغیرہ منانے کو رواج دیا۔ تاکہ جذباتی طور لوگ اپنوں سے جڑ سکیں اور ان سے ہمدردی اور محبت پیدا ہو سکے۔

مشرقی ممالک میں وہ سارے دن منائے جاتے ہیں جو مغرب نے کسی نسبت سے مخصوص کئے ہیں ۔ یوم والدبھی ان میں سے ایک ہے۔ مشرق کی اپنی تہذیب اور یہاں کااپناسماجی نظام ہے جس میں عورت اور مرد کی ذمہ داریاں منقسمہیں ۔ عورت بھلے ہی نوکری یا کاروبار کرتی ہو، گھر اور بچوں کو سنبھالنا اس کا بنیادی کام ہے۔ جبکہ مرد گھر چلانے کیلئے وسائل مہیاکراتا، خاندان کی حفاظت کرتا اور بچوں کی تربیت میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ وہ کبھی دوست بن کر بچوں کی رہنمائی کرتا ہے تو کبھی باپ بن کر غلط راستہ پر چلنے سے انہیں روکتا ہے۔ بچے بڑوں کا ادب کرتے تھے۔ باپ کو جواب دینا یا بحث کرنا تو دور، ان کی بات میں مداخلت کرنا بھی بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔ بزرگوں کی محفل میں بچوں کو سننے اور نشست کے آداب سیکھنے کیلئے شامل کیا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ کسی مسئلہ پر انہیں بات کرنے کا موقع بھی ملتا۔ اس میں تربیت کا پہلو پوشیدہ رہتا تھا۔ گھر کے ماحول سے بچے بچپن میں ہی باپ کے رعب، سختی سے واقف ہو جاتے تھے، جبکہ باپ بھی بچوں سے ماں کی طرح ہی محبت کرتے تھے۔ شاید ہی کبھی کوئی باپ اپنے بچے سے غافل ہوتا ہو اور اسے بچے کو ڈانٹنے یا پیٹنے کی نوبت نہ آتی ہو کیونکہ باپ کا ڈر چھوٹی موٹی غلطیوں سے بچوں کو محفوظ رکھتا تھا۔ بیٹیاں ماں میں اپنے آپ کو تلاش کرتیں اور بیٹے باپ میں، لیکن باپ اپنے بچوں کو خود سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتا۔

مغرب کی مرعوبیت نے مشرق کا سماجی نظام بگاڑ دیا۔ رشتے مادیت کی ترازو پر تولے جانے لگے۔ باپ بوڑھا ہو کر بھی گھر کا سب سے مضبوط ستون مانا جاتا تھا،لیکن اب اگر وہ فائدہ پہنچانے کی حالت میں نہیں ہے تو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بوڑھے ماں، باپ کو بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن یا بازار میں بے سہارا چھوڑنے، چھت سے گرا کر مار دینے اور گھر میں ان کے ساتھ بیٹے بہو کے تضحیک آمیز رویہ سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔ بچہ کے معمولی دکھ تکلیف کی وجہ سے جو ماں باپ پریشان ہو جاتے تھے اور ان کا دن رات کا چین وسکون ختم ہو جاتا تھا انہیں بزرگی میں چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کیلئے بچوں کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ بیمار ہو جائیں تو بچے ایک دوسرے پر ٹالتے ہیں کہ بڑا علاج کرادے، بڑا سوچتا ہے کہ منجھلا کرادے یا پھر چھوٹا۔ اگر کسی کے ایک ہی اولاد ہوتی ہے تو وہ کسی خیراتی اسپتال یا یتیم خانے کو تلاش کرتا ہے۔ جبکہ بچپن میں یہی بچے کہتے کہ باپ میرے ہیں، باپ میرے ہیں، ماں میری ہے، ماں میری ہے۔ باپ جو کبھی بچوں کی ڈھال ہوا کرتا تھا اب صرف اے ٹی ایم کارڈ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ بھی ایسا کارڈ جس میں بچوں کے خواب پورے کرنے کے لئے ہمیشہ پیسے رہیں ۔ وہ یہ نہ پوچھے کہ تین مہینہ میں ہی مہنگا موبائل فون کیوں چاہئے؟ پہلے موبائل کا کیا ہوا ؟ کپڑوں سے الماریاں بھری ہیں پھر بھی ہر مہینے نئے کپڑے کیوں چاہئیں ؟ اگر بچوں سے باپ سوال کرتا ہے تو پہلے ماں بیچ میں بولتی ہے موبائل ہی تو مانگ رہا ہے، آپ کیا چاہتے ہیں کہ کپڑے نہ پہنے، نئی بائک یا کار نہ لے، ہماری بھی تو سماج میں کچھ عزت ہے۔ آخر آپ کما کس کیلئے رہے ہیں اگر ایک ہی اولاد ہوئی تو اور مصیبت۔ آپ اکلوتے بچے کی ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتے؟ بچے کہتے ہیں صرف ساٹھ ہزار کا ہی تو موبائل ہے۔ آپ اتنے پیسے بھی نہیں دے سکتے۔ پہلے والا موبائل چالیس ہزار کا ہی تو تھا اب کھو گیا تو کیا کریں ۔ آپ نے پیدا کیا ہے تو ضرورتیں پوری کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے کوئی احسان تو ہے نہیں وغیرہ۔

اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ماں باپ کا بچوں پر سے کنٹرول ختم ہو گیا۔ ماں چاہے جتنی ترقی یافتہ ہو وہ باہر کی دنیا سے اتنی واقف نہیں ہوتی جتنا باپ۔ وہ باہر کی دنیا کے مضر اثرات سے بچوں کو بچا سکتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن زمانہ نے اسے بچوں کے خواب پورے کرنے کی مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ زیادہ کچھ کہتا ہے تو جنریشن گیپ کا طعنہ دے کر اس کا منھ بند کر دیا جاتا ہے۔ بچوں کی فرمائشیں، شوق پورے کرنے کے لئے وہ اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرتا، سارے طریقے اپنا تا اور حد سے زیادہ محنت کرتا ہے۔ اس امید میں اس کے بال سفید ہو جاتے ہیں کہ ایک دن بچے اسے ضرور سمجھیں گے۔ بھارت میں بچوں کے من مرضی کرنے، کہنا نہ ماننے کی شکایت کرنے والے خاندانوں میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس پریشانی کا سامنا کرنے والے عام طور پر وہ خاندان ہیں جہاں والد کے بجائے والدہ کی چلتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کو بچوں کی نظر میں ناسمجھ، کنجوس ثابت کر کے اس کی ہر بات کاٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بچے باپ کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ تناؤ کی وجہ سے باپ بلڈ پریشر، شوگر اور ہارٹ کا مریض بن جاتا ہے اورکسی شام وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ماں جو شوہر کے سامنے پاور فل ہوتی ہے، اس کے جانے کے بعد کٹی پتنگ کی طرح ہو جاتی ہے۔

سماجی مسائل کو قابو کر مغرب امن، سکون اور پیار کی تلاش میں ہے لیکن مشرقی ممالک سماجی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ یہاں کے زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی مذہب، تہذیب سے جڑے ہیں ۔ اس لئے نہ وہ مغرب کی طرح کھلے پن (حالات اس کی اجازت نہیں دیتے) میں زندگی گزار سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہب، تہذیب سے ناطہ توڑ سکتے ہیں۔ سماجی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ہمیں اپنی تہذیب کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔

اسلام کے مطابق باپ کا حکم ماننے والے خوشحال اور اس کی سختی برادشت کرنے والے باکمال ہوتے ہیں ۔ باپ کا احترام وہی کرتے ہیں جو متقی ہوں۔ والدین کے ساتھ عزت و نرمی سے پیش آنے والوں کیلئے جنت کی بشارت ہے۔ جو آج بیٹا ہے وہی کل کسی کا باپ بنے گا۔ یہی روایت ہے اور یہی قدرت کا قانون۔ جس نے بیٹا بن کر اپنے والد فرمانبرداری نہیں کی وہ اپنی اولاد سے اس کی امید کیسے کر سکتا ہے۔ اگر کل تناؤ سے اپنی زندگی بچانا چاہو تو آج اپنے والد کا حکم بجا لاؤ۔ صحیح غلط کا احساس زندگی میں ہی ہو جاتا ہے، سیکھ اس سے وہی لیتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں۔ کل تناؤ سے مکت زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آج اپنے والد کو اس سے آزادی دلانی ہوگی۔ یوم والد پر آج کیا گیا ہمارا عہد کل ہماری زندگی کو خوشگوار بنا سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔