آج پھر سرسید کیوں ضروری ہیں؟  

عالم نقوی

ڈاکٹر سر ولیم ہنٹر نے 1871 میں شایع اپنی کتاب ’’’ہمارے ہندستانی مسلمان ‘(کیا شعوری طور پر وہ ملک کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے مجبور ہیں ؟ )‘‘ کے صفحہ 50  پر لکھتے ہیں :’’اگر کوئی سیاست داں پارلیمنٹ میں سنسنی پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے کافی ہے کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کے سچے اور مبنی بر حقیقت واقعات کو بیان کر دے۔ یہ لوگ کسی زمانے میں محلوں میں رہتے تھے۔ گھوڑے، گاڑیاں، نوکر چاکر موجود تھے۔ اب یہ حالت ہے کہ اُن کے گھروں میں جوان بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں بھرے پڑے ہیں اور وہ بھوکوں (کی اس فوج )کے لیے کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ وہ خستہ حال گھروں میں  قابل رحم زندگی بسر کر رہے ہیں اور روز بروز قرض کے دَلدَل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ ‘‘اسی کتاب کے ص 146 پر وہ رقم طراز ہیں : ’’ (سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تناسب کا حال یہ ہے کہ ) 1869 میں بنگال  میں ( بشمول موجودہ بنگلہ دیش، آسام، اڑیسہ اور بہار )   اسسٹنٹ انجینیروں کے تین درجوں میں 14 ہندو اور مسلمان صفر۔ سب انجینیروں اور سپروائزروں میں 24 ہندو اور صرف ایک مسلمان۔ اوورسیئروں میں ۶۳ ہندو اور دو مسلمان۔ اکاؤنٹس ڈیپاٹمنٹ میں پچاس ہندو تھے  اور مسلمان ایک بھی نہیں۔

1851 سے قبل ہائی کورٹ میں  وکا لت کرنے کا پیشہ مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن 1852 سے لے کر 1868 کے درمیان جن ہندستانیوں کو وکالت کے لائسنس دیے گئے اُن میں 239 ہندو تھے اور صرف ایک مسلمان۔ ۔ملکی سطح پر محکمہ خارجہ کے 54 اعلیٰ عہدیداروں میں صرف دو مسلمان تھے۔ محکمہ داخلہ کے 62 اعلیٰ عہدیداروں میں صرف ایک ہی مسلمان تھا۔ ٹریژری (خزانہ ) اور ریوینیو (محکمہ مال ) کے 75 عہدیداروں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔ اور دوسرے سرکاری محکموں کا بھی یہی حال تھا (ایضاً ص 165)۔۔تمام ملازمتیں اعلی ٰ ہوں یا  ادنیٰ آہستہ آہستہ مسلمانوں سے  چھین کر  دوسری غیر مسلم قوموں کو بخشی جا رہی ہیں۔ جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ رعیت کے تمام طبقوں کو ایک نظر سے دیکھے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علاحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے۔ ۔جب یہ ملک ہمارے قبضے میں آیا تھا تو مسلمان سب قوموں سے بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر، جسمانی حیثیت سے زیادہ توانا  اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا مَلِکہ بھی اُن میں سب سے زیادہ تھا۔ لیکن یہی مسلمان آج سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں سے یکسر محروم کر دیے گئے ہیں (ایضاً ص 278)۔‘‘

کریم سٹی کالج جمشید پور کے سابق  پروفیسر مختار احمد مکی نے اپنے مضمون ’’عہد حاضر میں سر سید کی معنویت ‘‘ (مطبوعہ تہذیب ا لا خلاق فروری 1997 ) میں دی ٹیلی گراف  کلکتہ میں شایع سید حامد(صاحب مرحوم)  اور خود  اپنے  دو انگریزی  مضامین ( مطبوعہ 1993۔1994) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

’’ 1991 میں مسلمان ملک میں 12 فیصد تھے لیکن آئی اے ایس میں تین فیصد، آئی پی ایس میں پونے تین فی صد، انکم ٹیکس محکمے میں تین فیصد، ریلوے میں ڈھائی فیصد، بینک میں صرف  سوا دو فی صد تھے۔ مرکزی حکومت کی درجہ اول کی ملازمتوں میں ان کا تناسب ڈیڑھ فی صد اور درجہ دوم کی ملازمتوں میں قریب چار فی صد تھا۔ ایل آئی سی کے اٹھارہ سینیر اکزیکٹو افسروں اور ریزرو بینک آف انڈیا کے مرکزی بورڈ کے 19 ممبروں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔ جسٹس کرشنا ایر نے نومبر 1982 میں وزیر داخلہ پی سی سیٹھی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ ’۱۹۷۹ میں چار سو پانچ(405) انڈسٹریل لائسنس جاری کیے گئے تھے جس میں صرف پانچ مسلمانوں کے نام تھے جبکہ ریسرچ اینڈ انا لیسس ونگ (را۔RAW) انٹلی جنس سروسز میں  ایک بھی مسلمان نہیں تھا ! خود سی بی آئی کے ایک سابق ڈائرکٹر  وجے کرن کے اعتراف کے مطابق سب جانتے ہیں کہ یہ ایک غیر تحریری حکنامہ Unwritten Code تھا۔

پروفیسر مختار مکی نے لکھا ہے کہ ’’انیسویں صدی مسلم ہندستان بھی آج ہی کی طرح ذہنی انتشار، معاشی بد حالی، تعلیمی پسماندگی، معتبر اور پر خلوص سیاسی لیڈر شپ کے فقدان (بلکہ قیادت کے بحران ) عمرانی بے راہ روی، تذبذب اور بے یقینی کا شکار تھا۔ ایسے نازک حالات میں سر سید نے علم و عقل، صبر و استقلال اور باہمی اتحاد و محبت کی قندیل روشن کرتے ہوئے انہیں ترقی  اور خوش حالی کے راستے  پر گامزن کرنے کی کوشش کی تھی (تہذیب الاخلاق فروری 1997 ص 19) سر سید مسلمانوں کی اس ہمہ گیر پسماندگی سے واقف تھے۔ اسی لیے 26 مئی 1875 کو پٹنہ میں مسلم زعما کو جھنجوڑتے ہوئے انہوں نے کہا تھا (ایضاً ص 21) کہ’’ آپ تمام ہندستان پر نگاہ دوڑائیے اور اس کے مختلف سرکاری ( و غیر سرکاری اداروں ) چھوٹی چھوٹی دوکانوں سے لے کر بڑے بڑے تجارتی مراکز کو دیکھیے یا کسی بھی قسم کے خانگی کاروبار کو لیجیے اور پتہ چلائیے کہ ان تمام جگہوں پر ملازمت پانے والوں میں مسلمان  کتنے ہیں؟میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ان کا تناسب ہزار میں ایک سے بڑھ کر نہیں ہوگا (خطبات سر سید ص 84)‘‘

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پی آر او ڈاکٹر راحت ابرار نے تہذیب ا لا خلاق اکتوبر 1994 میں شایع اپنے مضمون ’سر سید تحریک کے اثرات‘(ص 151 )  میں لکھا ہے کہ’’ سر سید نے اپنی تعلیمی تحریک شروع کرنے سے پہلے بذات خود ملک بھر کے تعلیمی اداروں کلا سروے کیا تھا  تاکہ حال کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکے ۔ ۱۸۷۵ میں الفرڈ کرافٹ ) Alfred Croft )نے  جو تعلیمی رپورٹ تیار کی تھی اس کے مطابق پورے ملک میں اس وقت صرف تیس مسلمان گریجوئٹ تھے۔ اور سرسید کے تعلیمی سروے کے مطابق ۱۸۶۷ میں ایک ہزار تین سو پچاس امیدواروں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا تھا جس میں مسلمان محض ۸۳ تھے !۱۸۸۳ میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے والے غیر مسلموں کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار چار سو اٹھاون ہوگئی جبکہ مسلم امیدواروں کی تعداد میں صرف چار کا اضافہ ہوا یعنی ۱۸۸۳ میں ۸۷ مسلمانوں نے ہائی اسکول پاس کیا تھا جبکہ غیر مسلموں کی تعداد ۱۴۵۸ تھی ! ۱۸۸۱ میں ایک ہزار دو سو تراسی ( 1283) امیدواروں نے بی اے کا امتحان پاس کیا تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد محض  ۳۰ تھی۔ جبکہ کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے والے ۳۲۶ لوگوں میں صرف ۵  مسلمان تھے !پیشہ ورانہ تعلیم میں تو مسلمانوں کا تناسب اور بھی زیادہ مایوس کن تھا۔ ۳۵ سال کے عرصے میں صرف تین مسلمانوں نے انجینئرنگ  کی تعلیم حاصل کی تھی ! ‘‘سر سید نے لکھا ہے کہ غدر کے بعد مجھ کو نہ تو اپنا  گھر لُٹنے کا رنج تھا نہ مال و اسباب کے تلف ہونے کا، جو کچھ رنج تھا وہ قوم کی بربادی کا تھا۔

اس وقت تعلقہ جہان آباد کی زمینداری جو لاکھوں کی مالیت کی تھی حکومت ہند نے دینی چاہی  تو مجھ کو نہایت صدمہ پہنچا کہ مجھ سے زیادہ نالائق دنیا میں کوئی نہیں ہوگا کہ قوم پر تو بربادی ہو اور میں اُن کی جائداد لے کر تعلقہ دار ہو جاؤں۔ میں نے اس کو لینے سے صاف انکار کردیا (خطبات سر سید ص ۲۷۷)‘‘یہاں تک کہ  سر سید نے  ہندستان سے ہجرت کر کے مصر میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا تھا  لیکن، پھر کیا ہوا۔ انہی کی زبانی سنئے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر سے بنے گی (اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی ) اور کچھ عزت پائے گی۔ جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے نڈھال کر دیا۔ میرے بال سفید کر دیے۔ ۔ یہ خیال پیدا ہوا  کہ نہایت نامردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو تباہی کی حالت میں چھوڑ کر میں کسی گوشہ عافیت میں جا بیٹھوں،نہیں  مصیبت (کی اس گھڑی) میں  اُن کے ساتھ ہی رہنا چاہیئے اور جو مصیبت پڑی ہے اس کو دور کرنے میں ان کی ہمت بندھانا اس وقت قومی فریضہ ہے۔ لہٰذا میں نے(اپنے ) ارادئہ ہجرت کو موقوف کیا  اور قومی ہمدردی کو پسند (کرنا مقدم جانا )۔ (خطبات سر سید ص 278)۔

   پروفیسر مختار مکی کے الفاظ میں ’[سر سید کی مستقل مزاجی اور نیک نیتی ہی کا نتیجہ تھا کہ قوم کا جمود ٹوٹا، غیر ضروری رسم و رواج ختم ہوئے، توہمات کی جگہ وسیع ا لنظری آئی۔ سر سید سے  براہ راست یا با لواسطہ متآثر ہو کرملک کے مختلف حصوں میں تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا اور ان کی وفات کے پچاس سال کے اندر قوم نے پھر کسی حد تک اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیا۔ سید شہاب ا لدین کے جریدے ’مسلم انڈیا ‘ کے شمارہ نمبر ۱۴۱ ستمبر ۱۹۹۴ میں لکھا ہے کہ :  ۱۱ جنوری ۱۹۳۹ کو یو نائٹڈ پراونس (یو پی ) کے وزیر اعلیٰ پنڈت گووند ولبھ پنت نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’’ اگرچہ یو پی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۱۴ فیڈف ہے لیکن نوکری میں ان کا تناسب ان کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ مثلاً پراونشیل ایکزیکٹو سروسز میں ہندو ساڑھے باون فیصد ہیں تو مسلمان ساڑھے اُنتالیس فی صد۔ تحصیلدار کی نوکری میں ہندو ۵۵ فی صد پہیں تو مسلمان ساڑھے تینتالیس فیصد۔ پولیس کی نوکری میں مسلمانوں کی تعداد پچاس فیصد ہے اور اسی طرح دوسری تمام نوکریوں میں بھی ان کی تعداد مجموعی آبادی میں ان کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ ‘‘ اسی طرح سید علی اشرف نے اپنی کتاب ’مسلم ایلیٹ ‘ کے صفحہ ۳۰ پر لکھا ہے کہ آزادی قبل ’’بہار میں بھی اعلیٰ  درجے کی نوکریوں میںمسلمانوں کا تناسب کافی بہتر تھا۔ مثلاً ۱۸۹۵ سے ۱۸۹۸ تک بہار میں کل ۷۱ افراد کا تقرر بہ حیثیت ڈپٹی کلکٹر اور سب ڈپٹی کلکٹر ہوا تھا اس میں بیس لوگ بہار کے تھے جن میں سے تیرہ مسلمان اور سات ہندو تھے۔ بہار کو بنگال سے الگ کروانے میں بھی بہار کے مسلمانوں ہی نے نمایاں حصہ لیا تھا کیونکہ سرکاری نوکریوں میں ان ہی کا مقابلہ بنگالیوں سے تھا۔ ‘‘

لیکن تقسیم ہند کی وجہ سے  آزادی کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ان گزرے ہوئے ستر برسوں میں کیا ہوا یہ سب جانتے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ اب کوئی راز نہیں رہی۔ آج ملک کی آبادی قریب پونے دو ارب اور اس میں مسلمانوں کی تعداد (غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ) قریب پچیس کروڑ ہے۔ اور سنگھ پریوار ان پچیس کروڑ بھارتی شہریوں  کو نہ مار سکتا ہے نہ ملک بدر کر سکتا ہے، نہ اکیسویں صدی کے اس دوسرے عشرے میں بیک وقت پچیس کروڑ افراد کو ان کے بنیادی انسانی شہری حقوق سے محروم کر سکتا ہے بھارت میں پیدا ہونے والے ہم بھارتی  مسلمانوں کو رہنا مرنا اور دفن ہونا مادر وطن  بھارت ہی میں ہےاور اپنی دینی شناخت کے ساتھ عزت کے ساتھ سر اٹھا کے برابر کے حقوق کے ساتھ   رہنا ہے۔ 1857 سے 1920 تک یہی سر سید کا مشن بھی تھا ۔ اور اسلام دنیا کاواحد دین ہے جو’ علم، قلم، عقل، تدبر اور طاقت ‘ کو ساتھ لے کے چلتا ہے فھل من مدکر ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔