آسام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟  

عالم نقوی

ممتاز صحافی دانشور، ادیب اور  سیاسی مفکر افتخار گیلانی کایہ تجزیہ درست ہے کہ ’آسام میں روہنگیا جیسا بحران دستک دے رہا ہے‘۔دی وائر اُردو وِیب پورٹل پر شایع اپنے مضمون میں انہوں  نے انڈیا یونائٹڈ فرنٹ اور جمعیۃ علما آسام  کے صدر، رُکن پارلیمان بدر ا لدین اجمل کے اِس  مبنی بر حق تجزیے سے اپنے کالم کا آغاز کیا ہے کہ ’آ سام کی موجودہ صورت حال کی ذمہ دار کانگریس کی قیادت اور اُس کی سابقہ ریاستی حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں ‘۔تاہم شہریت کے مسئلے پر حالیہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے رویے پر مولانا  بدر ا لدین اجمل، مولانا ارشد مدنی ا و ر مولانا   محمود مدنی نے کسی قدر  اطمینان ظاہر کرتے ہوئے سبھی متاثرین کو دلاسہ دیا ہے کہ وہ’ پر امید رہیں ‘۔

میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کی ذمہ داری کانگریس سے بھی پہلے برطانوی سامراج پر عائد ہوتی ہے جس نےمسلم اکثریتی رخائن صوبے کو مشرقی پاکستان میں شامل نہ کر کے وہی کھیل کھیلا تھا جو اس نے انتہا درجے کی بد دیانتی   اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے  کشمیر کے ساتھ رَوا  رَکّھا تھا۔ لیکن آسام ہو یا میانمار،جہاں موجودہ صورت حال کی   ذمہ داری خود بنگالی ا لنسل مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے وہیں پوری دنیا کے مسلمانوں، بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں  کی بے حسی اور بے ضمیری اس کی اصل ذمہ دار ہے۔ ستاون تو بہت بڑی تعداد ہے صرف تین چار یا چھے  مسلم ملک چاہیں تو نہ صرف یمن اور سیریا میں جنگ بندی ہو سکتی ہے بلکہ فلسطین و کردستان و کشمیراور دنیا کے تمام بے گھر و بے وطن پناہ گزینوں  سمیت  آسام اور روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ بھی آناً فاناً حل ہو سکتا ہے لیکن۔ ۔۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ۔!

مسلمانوں کا اصل مسئلہ قرآن سے دوری یعنی قرآنی احکامات  پر لفظاً اور معناً عمل نہ کرنا ہے۔ قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہود اور مشرکین اہل ایمان کے سب سے بڑے دشمن ہیں  (المائدہ۔ ۸۲ )۔ قرآن نے اہل ایمان کو منع کیا تھا کہ دیکھو خبردار اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے (الممتحنہ۔ ۱۳) سورہ فاتحہ میں ’مغضوب  علیہم ‘ کہا گیا ہے جس سے  بالخصوص یہود مراد ہیں، یہاں سورہ ممتحنہ میں بھی ’غضب ا للہ علیہم ‘ کہا گیا ہے  اور بعض تفاسیر کے مطابق عام کفار بھی ان مغضوب قوموں میں شامل ہیں۔

 تیسرے یہ کہ قرآن کریم نے دفاع ذات (سلف ڈیفنس) کا جو اصول بتایا تھا (الانفال۔ ۶۰)اس کو تو مسلمانوں نے سرے سے قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا ! ہم سے کہا گیا تھا کہ ’جہاں تک تمہارا بس چلے قوت حاصل کرو۔ ۔۔‘۔’قوت‘ کے جامع ترین  لفظ میں اُس کے تمام اِمکانی مظاہر کے ساتھ ساتھ  معاش و اقتصاد اور  علم کی قوت بھی شامل ہے۔ یعنی مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے دشمنوں  اور اللہ کے دشمنوں کے دلوں پر اُن کی ہیبت اِس طرح قائم رہے کہ وہ اُن کی  طرف آنکھ ٹیڑھی کر کے دیکھنے کی ہمت بھی نہ کر سکیں  تو اُنہیں چاہیے کہ وہ اَپنی اِستطاعت بھر معاش و آلات  اور بازوؤں کی قوت کےساتھ ساتھ   اعلیٰ ترین علم کی قوت کے حصول کو بھی اپنا نصب ا لعین بنا لیں اور چونکہ مال خرچ کیے بغیر  کسی بھی طرح کی قوت کا حصول ناممکن ہے لہٰذا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ اس خرچ کو ’فی سبیل ا للہ ‘ قرار دے دیا ہے بلکہ یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کروگے وہ تمہیں پورے کا پورا واپس کر دیا جائے گا۔

’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا کو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے اوراللہ کے دشمن ہیں )خوفزدہ رکھ سکو، اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا ‘‘(الا نفال۔ ۶۰)۔

اور چوتھے یہ کہ قرآن کریم نے ’شرک ‘ کو ’ظلم ِ عظیم ‘ بتایا  ہے اور تمام انبیا ئے کرام علیہم ا لسلام کی غرض ِ  بعثت دنیا میں عدل و قسط کا قیام بتایا گیا ہے یعنی دنیا سے ہر طرح کے ظلم کے  خاتمے کی ہر امکانی کوشش ہر نبی معصوم علیہ السلام  کے بنیادی فرائض میں شامل  ہے۔

پانچویں یہ کہ قرآن کریم نے اِنفاق و اِحسان کے جو احکامات دیے ہیں جن میں بلا اِمتیاز خدمت ِخلق، صلہ رحمی اور حقوق ا لعباد کی ادائگی سب شامل ہیں، مسلمانوں کی اکثریت اُن پر لفظاً اور معناً مکمل عمل درآمد سے قاصر ہے۔ پھر ہمارے ساتھ جو نہ ہو وہ کم ہے !

یہود و مشرکین اور ان کے تمام دوست احباب اور معاونین فطرتاً اور فعلاً تو اللہ ہی کے بندے ہیں لیکن عملاً وہ  اللہ اور آخرت   کی پکڑ سے پوری طرح بے نیاز ہوکر ابلیس کی بندگی میں مشغول ہیں۔ سُو اُن سے کسی بھلائی کی توقع تو  کار عبث ہے۔ ہم نے اگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنے کے ساتھ ساتھ، نافع علم، جائز و حلال مال اورامکانی حد تک اپنی پوری استطاعت بھر  دفاعی قوت کاحصول کیا ہوتا تو ہمارے دائمی دشمنوں کے دلوں میں، اپنی فطری دشمنی کے باوصف،از خود، اہل ایمان  کی ہیبت بیٹھی ہوتی۔ یہ اللہ کا وعدہ تھا۔ ہے۔ اور کل بھی رہے گا۔ اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

سو زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا۔  ہمارے مسائل کا حل قرآن و سنت کے باہر کہیں  نہیں  ہے۔ رہا امتحان تو اُس سے جب انبیا ئےکرام  بھی مستثنیٰ نہیں  تھے۔ ۔کہ، جن کے رتبے ہیں سِوا اُن کو سِوَا مشکل ہے۔ ۔تو   ہماری  بھلا کیا بساط و اوقات ہے !

 اور پھر اگر ہم مسلمان اللہ کی تمام مخلوق اور پوری دنیائے انسانیت کے لیے مفید اور نفع بخش نہیں تو  پھر فنا ہوجانا ہی ہمارا مقدر ہے کہ ’’۔۔جھاگ تو خشک ہوکر فنا ہوجاتا ہے، اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے بس وہی زمین میں باقی رہ جاتا ہے۔ ۔۔‘‘(الرعد۔ ۱۷)فھل من مدکر ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔