آستھا اور پرمپرا کے نام پر روا حیوانیت کے تماشے!

عمیر کوٹی ندوی

"آستھا” اور "پرمپرا” کیاسے کیا کرادیتی ہے اور کس طرح پل بھر میں آدمی کو انسان سے حیوان بنادیتی ہےاس کے تماشے ہمارے ملک میں آئے دن دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔ حالیہ تماشا ہریانہ میں دیکھنے کو ملا جس نے پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کرلیاتھا اور اس وقت بھی ہر طرف اس کے چرچے ہورہے ہیں۔ اس واقعہ پر خود ملک کے وزیر اعظم اپنی ناراضی کااظہار کرچکے ہیں ۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ "آستھا کے نام پرتشدد برداشت نہیں کیا جائےگا”۔

معاملہ یہ ہے کہ تشدد آستھا کا صرف ایک جز ہے جب کہ آستھا کے نام پر نہ جانے کون کون سے کام انجام دے دئے جاتے ہیں اور پرمپرا کے نام پر انہیں برداشت بھی کرلیا جاتا ہے۔ خال خال اکّا دکّا معاملات ہی ایسے ہیں جو منظرعام پر آجاتے ہیں اور ان کے خلاف قانون کے محافظ قانون کا نفاذ کرتے ہوئے بھی نظر آجاتے ہیں ۔ حالیہ معاملہ بابا رام رحیم کا ہے، ان کے علاوہ بھی آسا رام، نرمل بابا،سنت رام پال، ایکشادھاری سنت سوامی بھیمانند جی مہاراج اور سوامی نِتیانند جیسے نہ جانے کتنے نام ہیں جن کے آشرموں میں "آستھا” اور "پرمپرا”کا سہارا لے کر کھیلے جانے والے حیوانیت کے کھیل کی بے شمار کہانیاں میڈیا کی زینت بنی ہیں اور آئے دن ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس حیوانیت میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور ان کا بدترین استحصال سب سے اہم ہے اور استحصال کی شکار کم ہی خواتین اس کے خلاف آواز بلند کرپاتی ہیں ۔

"آستھا” اور "پرمپرا” کی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ  خواتین کے ساتھ زیادتی اور ان کے بدترین استحصال کے بیشتر معاملات میں خود ان کے اہل خانہ ہی انہیں اپنی زبان بند رکھنے کے لئے مجبور کردیتے ہیں ۔”آستھا” اور "پرمپرا”کا سہارا لے کر خواتین کے ساتھ زیادتی اور بدترین استحصال کے معاملات میں ذاتی طور پرخواتین کا استحصال کرنے، دوسروں کے سامنے بھی انہیں پیش کرنے کے علاوہ بڑے پیمانے پر ان سے جنسی کاروبار کرانے تک کی باتیں سامنے آئی ہیں ۔ ایکشادھاری سنت سوامی بھیمانند جی مہاراج  کو 26؍فروری2010کو جنوبی دہلی سے پولس نے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ پروچن کے بہانے لڑکیوں کو پھنسا کر سیکس ریکٹ کا کاروبار کرتا تھا اس کے نیٹ ورک میں تقریبا چھ سو ہائی پروفائل لڑکیاں شامل تھیں ۔جہاں تک اس طرح کی مذموم حرکات کو انجام دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی بات ہے تو سنت سوامی بھیمانند گرفتاری کے کچھ دنوں بعد ضمانت پر رہا ہوگیا تھا ۔

اس کے بعد ابھی دو روز قبل 27؍اگست کو دھوکہ دھڑی کے ایک معاملہ میں پولس نے اسے ایک بار پھر گرفتار کیا ہے۔ اسی طرح سوامی نِتیانند کو 21؍اپریل2010کو جنسی استحصال کے معاملہ میں پولس نے گرفتار کیاتھا اور دوماہ کے اندر ہی 11؍جون2010میں وہ ضمانت پر باہر آگیا اور "آستھا” اور "پرمپرا” کے نام پر شان وشوکت، عیش وعشرت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔سنت رام پال کی گرفتاری کے وقت کس قدر معاملہ ہنگامہ خیز بن گیا تھا، دو لوگوں کی جان گئی تھی اور متعدد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ لوگوں کو زبردستی آشرم کے اندر روکنے اور انہیں ڈھال بنانے کی بات بھی میڈیا میں زورشور سے کہی گئی تھی، اسی طرح سرکاری کام کاج میں رخنہ ڈالنے کی بات بھی سامنے آئی تھی۔

 اب 29؍اگست2017کو ہریانہ کی جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت نے انہیں سرکاری کام کاج میں رخنہ ڈالنے اور راستہ روک کر لوگوں کو یرغمال بنانے کےدونوں معاملوں میں بری کردیا ہے۔لیکن چونکہ ابھی ان پر اور بھی معاملات کے تحت کیس چل رہا ہے اس لئے ابھی وہ جیل کے اندر ہی ہیں ۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں "من کی بات” پروگرام میں جہاں یہ بات کہی تھی کہ "آستھا کے نام پرتشدد برداشت نہیں کیا جائےگا” وہاں انہوں  نے یہ بھی کہا تھا کہ "میں نے لال قلعہ سے بھی کہا تھا کہ آستھا کے نام پر تشدد برداشت نہیں ہوگا۔ چاہے وہ فرقہ وارنہ تشدد ہو، چاہے وہ نظریات کے تئیں تشدد ہو،چاہے وہ فرد کے تئیں تشدد ہو۔ آستھا کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔بابا صاحب نے ہمیں جو دستور دیا ہے اس میں ہر شخص کو انصاف پانے کا نظم ہے”۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ”قانون کو ہاتھ میں لینے والے، تشدد کی راہ پر چلنے والے کسی کو بھی خواہ وہ فرد ہو یا سموہ (گروپ) ہو، نہ یہ ملک کبھی برداشت کرے گا اور نہ ہی کوئی حکومت برداشت کرے گی”۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ "ہر کسی کو قانون کے آگے جھکنا ہوگا، قانون جوابدہی طئے کرے گا اور قصور واروں کو سزا دے کر رہے گا”۔ لیکن اتفاق دیکھئے کہ جس دن وزیر اعظم نے یہ بات کہی اسی دن مغربی بنگال  کے جلپائی گوڑی میں گئورکھشکوں کے ایک "سموہ”(بھیڑ) نے19برس کے دو نوجوان انور حسین اور حفیظ الشیخ کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا  اس سے قبل اسی ریاست کے شمالی دیناج پور میں گئورکھشا کے نام پر  ایک "سموہ”(بھیڑ) نے ایک نوجوان کو ہلاک کردیا تھا۔

دیگر ریاستوں میں جوہلاکتیں ہوئیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن "سموہ”(بھیڑ) ہے کہ "قانون کے آگے جھکنے”کو تیار نہیں ہے اور نہ  ہی کوئی ان کی جوابدہی طئے کررہا ہے اور نہ کہیں سے قصور واروں کو سزادلانے کی کوئی کوشش ہوتی ہوئی دکھ رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک تو نہیں ہاں اس وقت برسر اقتدار لوگ اس صورت حال کو ضروربرداشت کرر ہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔