آقا ﷺ پر جان بھی قربان!

ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

اس محاذ  جنگ پر کام کرنے کے تین پہلو ہیں۔ ایک بین الاقوامی، دوسرا قومی اورتیسرا اندرونی ہر فرد کی سطح پر۔ ہمارے ہاں عموماً خارجی پہلو پراوراس میں بھی بین الاقوامی پہلو پر بہت زور دیا جاتاہے۔ اس پر بھی عملی اقدامات کرنے چاہئیںاگر قوت اورطاقت ہو!نیزسنجیدہ، باوقار، عشق مصطفیٰ ﷺ سے لبریز علماء کا طبقہ علم و دانش  اوردلائل کی سطح پر اس شرکا مقابلہ کرے۔

قومی سطح پر ہماری حکومتیں اورمقتدر طبقہ ایسے مواد کو بالکل واش آؤٹ کرے۔ اس ناپاکی کو تمام مقامات سے بہادیاجائے۔ اورہمارے علماء کرام حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں پر اس انداز  میں روشنی ڈالیں تاکہ لوگ خود حضورﷺ کی سیرت پر  عمل  کرنے میں فخر محسوس کریں۔

ان تمام پر مستزاد اس مسئلہ کا بنیادی حل صرف اورصرف تعمیری فکر، اصلاح معاشرہ، اورکردار سازی میں ہے۔ کردارسازی  کا آغازمیری۔ ۔ ۔ میری اور صرف میری  ذات سے شروع ہوگا۔ اس کردار سازی کے لئے نہ مال ودولت درکار ہے، نہ اسلحہ نہ فوج درکار ہے۔

آج پھر مغرب (ہالینڈ اور دیگر ممالک) سے حضور ﷺ کی ناموس پر رکیک حملے کئے جارہے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے متواتر یہی عمل جاری ہے۔ کبھی ہالینڈ، کبھی فرانس، کبھی ناروے، کبھی ڈنمارک۔ اس میں کوئی شک نہیں اغیار، افرنگ، یہود وہنود ونصاریٰ ودیگر ادیان باطلہ مسلمانوں کے خلاف روز اول ہی سے  سازشوں اور مکروفریب کے جال بچھانے میں مصروف ہیں۔ کبھی وہ مسلمانوں پر ظلم وفرنگیت کے پہاڑ توڑتے ہیں اورکبھی وہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی  ناپاک جسارت کرتے ہیں۔ (ان گالیوں اوردشنام ترازی کی آڑ میں اصل مقصد ان کا کیا ہے؟اس پر بھی غورکرناچاہئے۔ )توہین رسالت و انبیاء کی یہ کڑی بہت پرانی ہے۔  یہ تو وہی ابلیسیت ہے جو تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت خود ابلیس لعین کی شکل میں موجود تھا، اوراس کے بعد مختلف ادوار میں اس کے پرتو اور پیروکار دورابراہیمی( خلیل اللہ علیہ السلام) میں نمرود، دور موسوی ( کلیم اللہ علیہ السلام)  میں فرعون  اور حضور ﷺ کے دور میں ابو جہل و ابولہب  اور اس وقت سے آج تک مختلف مکروہ شکلوں میں نمودار ہوتے آرہے ہیں۔ اور وہ یہ مکروہ کام کرتے رہیں گے۔ کیونکہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں نہ تو قوت ہے اور نہ ہی طاقت۔ کفار ہی کی بنائی ہوئی اور ان ہی کے کنٹرول میں موجودانٹرنیٹ، الیکٹرونک میڈیا اور  سوشل میڈیا (  فیس بک، ٹویٹر، جی میل، یاہو، میسنجر، واٹس اپ، یوٹیوب) استعمال کرتے ہوئے  ان ہی کے خلاف مواد شیئر کرتے ہیں۔ یا پھر ان کے کرتا دھرتاؤں سے درخواست کرتے ہیں کہ یوٹیوب سے گستاخانہ مواد ہٹادیں !!! خودتو   سوشل میڈیاکے بائیکاٹ کی بھی طاقت نہیں(یا پھر کیوں نہیں کرتے)۔ اپنا کچھ بھی تو نہیں اپنے پاس  مجھے حضورﷺ سے محبت ہے  کا نعرہ بہت جاندار اور زوردار ہے لیکن افسوس عمل کچھ بھی نہیں۔

ہے عمل لازم تکمیل تمنا کے لئے

ورنہ رنگین خیالات سے کیاہوتاہے

حضورپرنور آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں ﷺ کی (نعوذباللہ) یہ لوگ کیا اہانت کرسکتے ہیں اورخاکم بدہن ان کے  کارٹون اور  خاکے تو بناہی نہیں سکتے۔ انا سید ولد آدم ولا فخر۔ حضور ﷺ تو سید ولد آدم ہیں۔ آسمان پر تھوکنے والا درحقیقت اپنے ہی چہرہے پر تھوکتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک خباثت بھرا کام ہے۔ جس کام کی خباثت کو ہم جیسے جہلا وہاں تک پہنچادیتے ہیں جہاں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ نعوذباللہ ہم خود ان کے اس مکروہ، مذموم بلکہ غلیظ کام کو پھیلانے کا باعث ہیں۔ بعض افراد اس طرح کی ملعون مواد کو فوراً آگے بڑھاتے ہیں کہ مسلمانو! دیکھو تمہارے نبی ﷺ کی ذات مبارکہ پر کیسے حملے ہورہے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رہے۔ ان ناپاک زبانوں سے ناپاک جسارت کرنے والے افراد کی غلاظت کی ڈھیریاں خود دوسروں تک پہنچاکر ہم کون سا حضور ﷺ کی محبت کا دم بھر رہے ہیں۔

یہ بات بھی محل نظر رہے کہ گندگی، غلاظت، مکروہ اشیاء مسلسل دیکھتے رہنے سے ان سے ناگواری کم ہوتے ہوتے بعض اوقات ختم بھی ہوجاتی ہے۔ جس کی مثال روزانہ مردے نہلانے والوں  کو دیکھو کہ مردے  ان کے سامنے پڑے ہوں گے اور وہ کھانے پینے، ہنسی مذاق میں مصروف ہوں گے۔ یا گٹر صاف کرنے والے وہی غلاظت کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر خورد نوش میں مصروف ہوں گے لیکن انہیں ذرا بھی کراہت محسوس نہ ہوگی۔

جہاں تک ان خاکہ والوں کا تعلق ہے تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے  جن لوگوں کے ترکیب حیات کے آمیزہ میں ابلیسی، شیطانی  اوردجالی خمیر کی آمیزش ہو اور اجزاء ترکیبی  ہی خراب ہوں ان کی اصلاح کی کوئی  صورت ہے نہ ہی ضرورت اورنہ ہی ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی سدھر جائیں گے۔ لہذا ان پر ہمیں بھی گٹروں میں پڑی ہوئی گندگی کی طرح کوئی توجہ نہ دینی چاہئے بلکہ صرف نظرکرناچاہئے۔ لیکن سلیم الفطرت  اور صحیح النسب افراد کی اصلاح کی جاسکتی ہے اورکی جانی چاہئے خواہ وہ غرب میں ہوں یا شرق میں۔ لیکن وہ اصلاح   اس طرح نہیں ہوتی کہ ہر اینٹ کا جواب پتھرسے ہو، ہر کڑوی بات کا جواب گالی سے ہو۔

اگر دیکھا جائے توہم پچھلی کئی صدیوں سے ہر محاذ پر تنزل کاشکار ہیں۔ ایک وقت تھا دیگر قومیں کہا کرتی تھیں اگر مسلمان ایسے ہوتے ہیں تو ہم بھی مسلمان ہی بننا پسند کریں گے۔ لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پر  انتہا پسندی، دہشت گردی اورشدت پسندی کے ٹیگ آویزاں ہیں۔ اور ہم نظم وضبط سے عاری، انتشار و افتراق کا شکار، صفائی ستھرائی، دیانت و صیانت، عدل وانصاف سے محروم ہیں۔ ہماری نمازیں ہمیں بے حیائی اور برائی سے نہیں روکتی ہیں۔ کسی ایک مسلمان کی تکلیف تو ایک طرف پوری امت مسلمہ کی تکلیف ہمیں بے چین اور مضطرب نہیں کرتی۔ سود خوری جیسی لعنت (اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ)  میں ہم ملوث ہیں۔ ، رشوت، فحاشی، بے حیائی، یتیموں کا مال کھانا، ناحق کسی کا مال کھانا، جس کو جہاں موقع ملے سب ڈکار لے اور ڈکار کی آواز بھی نہ لے۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ہے! وہی مسلمانوں کا حال ہے۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

توہین رسالت کے حساس معاملہ میں بھی  اگرچہ پوری مسلم دنیا اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہی ہے۔ ہالینڈ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا شور برپا ہے۔ کبھی ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیاجاتاہے۔ (بائیکاٹ بھی ایک حل ہے لیکن(احباب! سوچتے ہیں کہ ) اپنی مصنوعات اس معیار کی ہیں ہی نہیں، اور پھر ہم ان تعیشات سے زیادہ عرصہ کنارہ بھی نہیں کرسکتے۔ )اورآئے دن جلسے جلوس اورریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ آٹھ دس سال قبل اس عنوان پر ہڑتالیں بھی کی جاچکی ہیں۔ لیکن کیا اسی قدر آواز بلند کرنے سے ہم اپنا حق ادا کررہے ہیں۔ کیا نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی دوررس تبدیلی لانے میں کچھ کردار ادا کرسکتی ہے۔ کیا بھڑک اورپھڑک کرجواب  دینے سے ہمارے مقاصد کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ کیا ہمارے آئے دن کے احتجاج، اپنی ہی چیزوں کی توڑپھوڑ، املاک کا نقصان، جانوں کا ضیاع کسی بھی صورت میں اس سیلاب خباثت کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب ہوا ہے یا ہوسکتاہے۔ آیا اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے یا پھر یہ غلاظت کا سیلاب بڑھتے بڑھتے خود ہمارے اپنے معاشرے سے ابلنا شروع ہوگیا ہے۔

ہم ایک ایسی قوم کے فرد ہیں جو جذبات میں بہہ جاتی ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ یہ محل گرادو۔ پھر رہنا کہاں ہے وہ دیکھا جائے گا۔ تخریب کے بعدکا نہ کوئی حل اور نہ ہی حل کی کوئی سوچ  کسی کے پاس۔ اس کے بعدصرف تنقید، الزام اور دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے کے منہج پرگامزن ہیں۔ اس طریق پر ہم گزشتہ طویل عرصہ سے عمل پیرا ہیں  اور اس سے ہمیں کوئی خاطر خواہ فائدہ  بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔

ہم ان معاملاتکےصرف ظاہرکودیکھ رہےہیں اوراس کے باطن وروح سے یاتوناواقف ہیں یا نظراندازکررہےہیں۔

کسی مرض کی اگر صرف ظاہر ی کیفیات کو دیکھ کر اسکا علاج کیا جائے اور مرض کی حقیقی علامات و اسباب و اندرونی کیفیات کونظراندازکردیاجائےتوایسا علاج کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا اورنیم حکیم خطرہ جان والی بات ہوجائےگی۔

ہم بظاہر تعمیری انداز سے ہی کام کررہے ہیں۔ لیکن شاید اس کی تخریبی انداز سے کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات غلط انداز سے تعمیری کام بھی تخریب کا باعث ہوتا ہے۔ جیسا کہ  اذان دینا اک انتہائی مقدس اوربابرکت کام ہے۔ اور اسلام پھیلانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ لیکن حکایات میں ملتا ہے کہ ایک انتہائی بے سرا اور بھونڈی آواز سے اذان دینے والا شخص ہر مقام پر اذان دینے کی کوشش کیا کرتاتھا۔ ایک بارجب یہ قافلہ نصاریٰ کی بستی کے قریب سے گزررہاتھا  تووہاں اس شخص نے اپنی بھونڈی آواز میں اذان دی۔ اذان دیئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ کچھ لوگ ہاتھوں تحائف لئے وہاں نمودار ہوئے اور کہا کہ ہمارے سردارنےاس اذان دینے والے کے لیے تحائف و انعامات بھیجے ہیں۔ قافلہ والوں نے حیرت سے ان لوگوں سے کہا!اتنی بے سری آواز کے باوجود اس قدر انعام واکرام دیاجارہا ہے ہم تو اس سے عاجزاورتنگ آچکے ہیں۔ اب تو یہ ہمیں اور تنگ کرے گا۔ انہوں نےکہا درحقیقت یہ عیسائیوں کاعلاقہ ہے اورہمارے سردار کی بیٹی ایک عرصہ سے اسلام قبول کرنے کی ضد کر رہی تھی۔ ہم اسے سمجھا سمجھا کرتنگ آچکے تھے لیکن وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے تیارنہ تھی۔ آج جب اس نے یہ آواز سنی تو دریافت کیا کہ یہ کس کی آوازہے۔ ہم نے بتایا کہ یہ مسلمانوں کاعبادت کے وقت بلانے کاطریقہ ہے۔ اس نے کہا اگر اتنا بھونڈا اوربےسرا طریقہ ہے تومیں ایسے اسلام سے بازآئی۔ اس طرح اس شخص نے ہماری وہ مددکی جس کا ہم احسان کبھی نہیں چکاسکتے۔ اس نے ہمارا لاینحل مسئلہ حل کردیا اس وجہ سےاسے انعام واکرام سے نوازاجارہاہے۔

اس حکایت سے یہ ثابت ہواکہ بعض اوقات لوگ دین کی خدمت اس طریق سے انجام دیتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کے بجائے اسلام دشمنی کاعملی ثبوت بن جاتی ہے۔ (العیاذ باللہ)

اب کیا وقت نہیں آیا کہ ہم حق و راست کا پیغام تحمل و بردباری سے  اوراپنے کردار سے شرق و غرب میں عام کردیں۔ ایک بار ہم اس طریقہ کو بھی آزما کر دیکھ لیں ممکن ہے کہ خاموش کھڑےا فرد گستاخوں سے ملنے کے بجائے خود حضور ﷺ کی شان میں مدح سرائی کرنے لگیں اور ہمارا دفاع کرنے لگیں  جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے۔

عملی پہلو:

میری ناقص رائے میں اس محاذ  جنگ پر کام کرنے کے تین پہلو ہیں۔ ایک بین الاقوامی، دوسرا قومی اورتیسرا اندرونی ہر فرد کی سطح پر۔ ہمارے ہاں عموماً خارجی پہلو پراوراس میں بھی بین الاقوامی پہلو پر بہت زور دیا جاتاہے۔ اس پر بھی عملی اقدامات کرنے چاہئیںاگر قوت اورطاقت ہو!نیزسنجیدہ، باوقار، عشق مصطفیٰ ﷺ سے لبریز علماء کا طبقہ علم و دانش  اوردلائل کی سطح پر اس شرکا مقابلہ کرے۔ نیز ضرورت اس امر کی ہے ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی کتابMuhammad(SAW): The Glory of the Agesزیادہ سے زیادہ مغربی اقوام میں عام کی جائے۔ جب وہ تعصب کی عینک ہٹا کر کم از کم اپنے ہی وضع کردہ تحقیقی اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے سیرت رسول عربی کا مطالعہ کریں  گے تواگر ان کا خمیر صحیح النسب ہوا توشاید انہیں  اپنے اس رویہ پر ندامت ہو اور وہ اپنی اصلاح کرلیں۔

قومی سطح پر ہماری حکومتیں اورمقتدر طبقہ ایسے مواد کو بالکل واش آؤٹ کرے۔ اس ناپاکی کو تمام مقامات سے بہادیاجائے۔ اورہمارے علماء کرام حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں پر اس انداز  میں روشنی ڈالیں تاکہ لوگ خود حضورﷺ کی سیرت پر  عمل  کرنے میں فخر محسوس کریں۔

ان تمام پر مستزاد اس مسئلہ کا بنیادی حل صرف اورصرف تعمیری فکر، اصلاح معاشرہ، اورکردار سازی میں ہے۔ کردارسازی  کا آغازمیری۔ ۔ ۔ میری اور صرف میری  ذات سے شروع ہوگا۔ اس کردار سازی کے لئے نہ مال ودولت درکار ہے، نہ اسلحہ نہ فوج درکار ہے۔

جواب بھڑک اورپھڑک کر دینے کے بجائے فہم و فراست سے دیا جائے۔ مقصد ناموس کی حفاظت ہے جو حل کیا جائے۔ ناموس آقا ﷺ پر جان بھی قربان کردینی چاہئے لیکن اگر ناموس کی حفاظت اس ذہانت اور انداز سے کی جائے  کہ سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے بلکہ   دشمنوں سے ہمنوا مل جائیں تو کیا برا ہے۔ الزامی اورتنقیدی طریقہ کار کا حاصل صرف  دل کی بھڑاس نکالنا ہے  اوراس کے بعد پھر وہی شب و روز جیسا کہ اگر ملین مارچ نکالا جائے  لوگ اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے نظرآئیں گے لیکن اس ملین مارچ میں شامل افراد کی  اکثریت کو دیکھا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ایسے افراد ہی کی ہوگی۔ تنقید کرنے اور دوسروں کو گالیاں دینے کے بجائے اس کا تعمیری طریقہ کار اختیار کیاجائے۔ آج بھی ہمارے لئے حضور ﷺ کا راستہ، عمل، اوربیان ہی واحد علاج ہے۔ جس نے منطقیوں کی الجھنیں اور فلسفیوں کی مشکلات حل کی تھی۔ نواب بہادر یار جنگ اپنی نعت میں فرماتے ہیں:

تیرےبیاں سےکُھل گئیں تیرےعمل سے حل ہوئیں

منطق یوں کی اُلجھنیں، فلسفیوں کی مشکلات

حضور ﷺ کا راستہ جلسے  جلوس ریلیاں  نہ تھا  اور نہ ہی حضور ﷺ کا انداز تبلیغ، مناظرانہ، مجادلانہ اورمعاندانہ  تھا  بلکہ آرزومندانہ، مشفقانہ، داعیانہ، مدللانہ تھا۔

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورآپ ﷺ نے ہرلحاظ سے کامل واکمل نمونہ پیش فرمایالیکن ہم نے بدقسمتی سے دین اسلام کو چندمخصوص عبادتوں تک محدود کرلیا ہے۔ یہ عبادات بلا شک وشبہ دین کا ایک بہت بڑا اوراہم حصہ ہیں۔ لیکن اگر صحیح طریقہ  سے ادا کی جائیں نہ کہ روبوٹ کی طرح ادا کی جائیں۔

بائیکاٹ بھی ایک حل ہے۔ لیکن اصل اورمرکزی حل تبدیلی ہے۔ کردار کی۔ گفتار کی، انداز کی، افکار کی، اکثر اس نقطہ کو فراموش کردیاجاتاہے کہ تبدیلی کا آغاز خود سے شروع ہوتاہے۔ کیوں نہ میں اس تبدیلی کا باعث بنوں۔ آج سے عہد کروں میں کبھی کوئی فرض نہ چھوڑوں گا۔ فرائض کے ساتھ ساتھ سنتوں کا بھی حتی الامکان اہتمام کروں گا۔ میں کوئی کام سنت کے برخلاف نہ کروں گا۔ لیکنیہ کیوں نہ عہد کریں کہ  روزانہ کم از کم 313 دفعہ حضور پرنور ﷺ پر درود کا تحفہ بھیجوں گا۔ اپنے اخلاق، کردار سے دوسروں کو بتاؤں گا کہ ایک مسلمان کیسا ہوتاہے۔ میں کسی کو تکلیف نہیں دوں گا، جھوٹ نہیں بولوں گا، گالی نہیں دوں گا، سود خوری نہیں کروں گا، ملاوٹ، دھوکہ دہی، رشوت سے دور رہوں گا۔ آئیے ہم پہلے ایسے مسلمان بن جائیں!!!پھر انشاء اللہ کوئی کبھی مسلمانوں پر ظلم  نہیں کرسکے گا اورہمیں کبھی اس طرح کی خرافات کاسامنا  نہیں کرناپڑے گا۔

تبصرے بند ہیں۔