آلودگی کے خاتمہ کا یہ انداز بہی خواہانہ

عمیر کوٹی ندوی

نیشنل گرین ٹریبیونل (این جی ٹی)نےگنگا ندی کی آلودگی کو ختم کرنے اور اس کے پانی کو صاف وشفاف بنانے کے مقصد سے کچھ فیصلے لئے ہیں ۔ ان میں گنگاندی میں کوڑا کرکٹ پھینکنےوالے پر’پچاس ہزار روپئےجرمانہ عائد ‘کرنے کے ساتھ ہی اس ندی کے 100میٹر کے علاقہ کو’ نوڈیولپمنٹ زون’ قرار دینا شامل ہے۔آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی ہمارے ملک ہی نہیں اس وقت پوری دنیا  کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ ہر کوئی اس سے پریشان ہےاور اس کے تباہ کن اثرات کو کھلی آنکھوں دیکھ رہا ہے۔ لیکن نہ یہ تباہی کسی اور کی دین ہے اور نہ ہی قدرت کے فیصلہ کا اس میں کوئی دخل ہے۔ یہ انسانوں کے اپنے کرتوتوں کا کیا دھرا ہے جس کی وجہ سے آب وہوا،  بر وبحر میں ہر سو فساد برپا ہے۔  ذی روح اور غیر ذی روح سبھی اس کی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں۔

آلودگی خواہ پانی کی ہو یا فضا کی، خشکی کی ہو یا تری کی،  انسانی زندگی ہی نہیں پوری کائنات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ اس فطرت کے خلاف ہے جس پر کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ استفادہ کائنات کے وجود کا مقصد ہے، اس لئے کہ دنیا کو انسان کے فائدہ اٹھانے کے لئےبنایا گیا ہے”دنیا تمہارے (انسانوں کے)لئے بنائی گئی ہے”(حدیث)۔ اس کی فطرت ہی یہ ہے کہ آب وہوا اور بحرو بر صاف وشفاف رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں فطری طور پر صاف وشفاف بنایا گیا ہے  اور اس میں کسی بھی قسم کی گندگی ڈالنے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔

انسانوں کے خالق نے انسانی زندگی کی بقا کے لئے جو چیزیں بنیادی قرار دی ہیں وہ یہی ہیں۔ اسی لئے اس کی فراوانی بھی ہے اور اس تک رسائی بھی ہر کس وناکس کے لئے آسان ہے۔ خاص طور پر آب وہوا کو خالق کائنات نے ہر ایک کے لئے عام کردیا ہے۔ہوا جنگل ہو کہ شہری آبادی ہرجگہ موجود ہے ۔ اسی طرح پانی بھی زمین کے باہر اور زیرزمیں  ہرکہیں موجود ہے۔ہوا اور پانی کی صفت صاف وشفاف ہونا ہے تب ہی کائنات اس سے استفادہ اور صحت وتوانائی حاصل کرسکتی ہے۔ اس لئے قدرتی طور پر ان میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ ہوا کی طرح پانی کے ظاہری اور باطنی دونوں ذخائرصاف وشفاف اور کائنات کے لئے ضروری توانائیوں سے بھرپور ہوتے ہیں ۔ لیکن انسان نے اپنی خود غرضیوں ، مفادات، حرص وہوس اور ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے ان قدرتی اشیاء جن کی فراہمی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہےاس کے باوجود اس نےنہ صرف ان کا بیجا استعمال کیا ہے بلکہ اپنے غرض مندانہ عزائم کی وجہ سے انہیں آلودہ بھی کردیا ہے۔ اس آلودگی کا عالم یہ ہے کہ اس نے آب وہوا جیسے قدرتی وسائل زندگی کو  بری طرح متاثر کیا ہے۔فضا اس قدر زہر آلود ہوتی جارہی ہےکہ شہری زندگی میں انسان کے لئے سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔سانس کے ذریعہ جسم میں زہریلے عناصر داخل ہوکر فساد برپا کر رہے ہیں ۔عام انسان کو پینے کے لئے صاف پانی میسرنہیں ہے۔ ظاہری اور زیر زمیں آبی ذخائر بدترین آلودگی کا شکار ہیں ۔

 دیہی زندگی میں زیر زمیں آبی ذخائر کسی حد تک ہی پینے لائق بچے ہیں لیکن شہری زندگی میں ان کا راست استعمال بہ درجہ مجبوری دیگر ضرورتوں کے لئے ہی ہوپاتا ہے۔ جہاں تک زمین کی سطح پرندیوں ،تالابوں ، چشموں کی شکل میں موجودآبی ذخائر کی بات ہے توراست طور پر ان کا  پانی استعمال کے لئے کتنا دستیاب ہوپاتا ہےیہ ہم سب جانتے ہیں ۔اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے اپنے ملک کی ندیوں پر نظر ڈالناکافی ہوگاجو فی الوقت بدترین آلودگی کا شکار ہیں ۔ اس پر ملک کے تمام سنجیدہ اور ماحولیات وانسانی صحت کے لئے فکرمند حلقوں نے بارہا اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ملک کی عدالتوں کی طرف سے بھی آلودگی پر اظہار ناراضگی کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی ندیوں کو طنزاً گندگی ڈھونے والے نالوں سے تشبیہ بھی دی گئی ہے۔ اس کے باوجود آلودگی کم کیا ہوتی تسلسل کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ فضائی اورآبی آلودگی میں عوام سے کہیں زیادہ انتظامیہ کے ناقص فیصلوں کا دخل رہا ہے۔اس پر آلودگی کو دور کرنے کے لئے جو حکمت عملی تیار کی گئی اور جس طرح سے صفائی کے عمل کا آغاز کیا جاتا رہا ہےوہ خود بھی کمی کی جگہ آلودگی میں اضافہ کا ہی سبب بنتا رہا ہے۔ خود نیشنل گرین ٹریبیونل (این جی ٹی) کے فیصلہ کو دیکھیں، اس سے گنگا ندی صاف ہوگی یہ توقع شائد آرزو ہی بن کے رہ جائے گی۔

اس فیصلہ میں پوری گنگا ندی شامل نہیں ہے بلکہ اس فیصلہ کا دائرہ ہری دوار سے اناؤ کے درمیان  تک ہی ہے جب کہ یہ ندی ان دونوں شہروں کے درمیانی مسافت سمیت 2525 کلومیڑ تک بہتی ہے۔ اسی طرح اس فیصلہ میں کانپور کے جاجمئو کے چمڑا کارخانوں کو چھ ہفتوں کے اندر اناؤ کے چمڑا پارکوں یا کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے۔ حالانکہ ایک محتاط  اندازے کے مطابق جاجمئو کے علاوہ اترپردیش ہی کے متعدد شہروں اور دیگر ریاستوں کی تقریبا 760سے زائد فیکٹریوں اور صنعتی اکائیوں کا کچرا اور گندا پانی اس ندی میں ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح اس ندی کے ساحل میں واقع شہری آبادی کی بیشتر اور دیہی آبادی کی جزوی گندگی بھی اس میں ڈالی جاتی ہے۔ صرف گنگا ندی ہی کیا یہی صورت حال تقریبا ملک کی تمام ندیوں کی  ہے ۔ سب کی سب ندیوں کو گندے نالوں میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔یہی نہیں بلکہ مذہبی  رسوم بھی ان کے کنارے ادا کی جاتی ہیں اور مذہبی علامات کو بھی ان میں سِرایا  اور دریا برد کیاجاتا ہے۔

ایسی صورت میں کیا امید کی جاسکتی ہے کہ ایک چھوٹے سے علاقے پر گندگی پھیلانے والوں پر جرمانہ عائد کردینے اورایک شہر کے ایک محلے کی چمڑا صنعتوں کو بند کردینے سے گنگاندی پاک وصاف ہوجائے گی اور کیا اس طرح کا عمل ملک کی ندیوں کو صاف کرنے کےلئے سود مند ہوگا؟۔ یا اس پر کی جانے والی سیاست کی جگہ اس کے لئے مستقل قوت ارادی، واضح حکمت عملی، پائدار منصوبہ بندی اور وسیع النظری کی ضرورت ہے تا کہ خالق کائنات کا پیدا کردہ پانی فطری حالت میں مفت میں ہر ایک کو آسانی سے دستیاب ہوسکے۔

تبصرے بند ہیں۔