13جولائی 1931: دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند

واحد بشیر

تاریخ کشمیر کے حوالے سے 13جولائی 1931ء کی اہمیت ایک سنگ میل کی سی ہے ۔ آزادی جیسی نعمت عظمیٰ کے حصول کے لئے ہر طرح کی قربانی دے کر منزلیں طے کر لینا غیرت مند قوموں کا خاصہ رہا ہے۔ دینی اور ملی تشخص کی حفاظت کے لئے سروں کی فصلیں بھی کٹ جائیں تو کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے ۔  اس سودے میں قربانی دینے سے قوم و ملت کی رگوں میں زندگی بخش لہو دوڑتا ہے ۔ یہ اس عروج کا پیش خیمہ ہوتا ہے جہاں قومیں اپنے پر شکوہ تہذیب اور روایات کی شان دار مثالیں قائم کرکے دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ کی صورت اختیا ر کرتی ہیں ۔

 جدو جہد اور مزاحمت مغلوب قوموں کا سب سے بڑا پر اثر ہتھیار ہے ۔ یہ وہ کلید ہے جس سے غلامی کی زنجیریں نہ صرف کھلتی اور کٹتی ہیں بلکہ ان زنجیروں کو اپنی کمزوری کا بھر پور اندازہ ہوجاتا ہے ۔ استبدادی قوتوں کو اپنی بے رحمی اور بے حسی کے باوصف اس خفتہ قوت کا اندازہ ہوجاتا ہے جو مقہور و مجبور قوموں کی رگوں میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ جموں و کشمیر کی ریاست کو ڈوگرہ شاہی کے پنجۂ استبداد میں ، انگریزوں نے ایک قلیل قیمت کے عوض دے دیا ۔  علامہ اقبال نے بیعہ نامہ امرتسر کو ایک قوم کی خرید وفروخت قرار دیا ہے۔ نہ صرف قوم کے ساتھ وابستہ لوگ اور کھیت کھلیان، بلکہ ندی نالے ، دریا ، پہاڑ ، سر سبز و شاداب میدان ، خوبصورت جنگل اور وادیاں ، غرض ہر ایک انمول چیز ارزاں قیمت پر بیچ دی گئی۔ یہ سودا ان لوگوں نے کیا جو دنیا میں اپنی تہذیب یافتگی اور ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے ہیں ۔ جن کے یہاں انسانی حقوق پر ضخیم کتابیں تصنیف کی جاتی ہیں اور جو عالمی سطح پر انسانی جان کی حرمت پر کٹ مرنے کے لئے اپنی قوموں کو وقف سمجھتے ہیں ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو عالمی عدالتوں کے مسند نشین ہیں اور جو دنیائے انسانیت کو اخلاقیات کے دروس دیتے نہیں تھکتے ہیں ۔ لیکن چشم فلک نے اس سودے کو دیکھ لیا جہاں ایک پوری قوم کو زمین و جائیداد کے ساتھ بہت ہی ارزاں اور کم قیمت پر بیچ دیا گیا۔ جموں و کشمیر کی سودا بازی کے بعد ڈوگرہ شاہی نے ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کیں ۔ ریاست کی مسلم آبادی اس جبر کی براہ راست شکار رہی ہے۔ یہاں کی غیر مسلم آبادی کا بہت بڑا حصہ سرکاری مشینری کا لازمہ بن کر رہا ۔ کلرک سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ہر عہدے پر یہاں کی غیر مسلم آبادی براجمان تھی ۔ نہ صرف یہ کہ سرکاری ملازمتوں سے مسلمانوں کو دور رکھا گیا بلکہ اقلیتی طبقے کو ان پر ہر ظلم روا رکھنے کی کھلی آزادی فراہم کی گئی تھی ۔ مسلمان جو کہ آبادی کا غالب اور اکثریتی حصہ تھے ان کو طرح طرح کے اذیت ناک سزاؤں کے ذریعے زیر کر کے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا۔ مرد و عورت کو جبری بیگار کے تحت جسمانی و ذہنی اذیتیں دی جاتی تھیں ۔ قالین بافوں ، شال بافوں اور پیپر ماشی صنعت کے ساتھ وابستہ مسلم عوام کا استحصال سرکاری سرپرستی میں انجام دیا جاتا تھا۔

 اس غریب طبقے کی آنکھوں کی روشنی ختم ہونے تک ان کی محنت اور مشقت طلب کام کو حکومتی استحصال کا شکار ہونا پڑتا تھا۔ سب سے بری حالت یہاں کے کاشت کاروں کی تھی۔ فصل کی کاشت پر جو بھر پور محنت کسان انجام دیتا تھا اور جو فصل حاصل کرتا تھا اس کے بڑے حصے کو حکومتی اہلکار بحق سرکار ضبط کر دیتے تھے۔ کمائی کرنے والے کسان اپنا پیٹ کاٹ کر جو محنت انجام دیتے تھے اس کا پھل ڈوگرہ شاہی اور اس کے حکومتی کارندے کھاتے تھے۔ اس ظلم کے ساتھ ساتھ ریاست کی سب سے بڑی مذہبی شناخت اور غالب اکثریتی مسلم آبادی کے مذہبی جذبات کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جاتا تھا ۔ قرآن مقدس اور دوسرے اسلامی شعائر کی بے حرمتی سے مسلمانوں کو ستایا جاتا تھا۔ اسی قسم کے ایک واقعے کے تناظر میں ریاست کے مسلمانوں میں عام بیداری پیدا ہوئی۔

جموں میں ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں قرآن مقدس کی بے حرمتی سے ریاست کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات برانگیختہ کردینے والے اس واقعے کے خلاف ساری ریاست نے احتجاج کیا۔ 21جون 1931ء کو جامع مسجد سرینگر میں اس زیادتی کے خلاف احتجاج میں عبدالقدیر نامی ایک انگریز کے ملازم نے تقریر کی۔ اس تقریر میں موصوف نے ریاست کے مسلمانوں کی ایمانی غیرت بیدار کرتے ہوئے ظالم ڈوگرہ شاہی حکومت کو للکارا۔ شیر گڑھی محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبدالقدیر نے نا انصافی ،ظلم اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلمانوں کو ابھارا ۔ ڈوگرہ شاہی نے اس تقریر کی پاداش میں عبدالقدیر کو گرفتار کرکے سینٹرل جیل سرینگر میں منتقل کردیا۔ اس گرفتاری کے خلاف یہاں کے عوام اور مسلم قیادت نے بھر پور احتجاج کیا اور اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ۔

غاصب ریاستی مشینری نے عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقدمے کی کارروائی سینٹرل جیل سرینگر کے ایک بند کمرے میں انجام پانی مطلوب تھی ۔ 13جولائی 1931ء کو سینٹرل جیل سرینگر سے باہر مسلمانوں نے جمع ہوکر اس کھلے ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج کیا۔  مقدمے کی کارروئی کے دوران نماز ظہر کا وقت ہوا ۔ نماز  سے پہلے اذان دینے کے لئے ایک مسلمان کھڑا ہوا اور اذان دینی شروع کی۔ ابھی اس نے صرف اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ ڈوگرہ راج کے ظالم سپاہیوں نے اس کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کردیا ۔ اذان مکمل کرنے کے لئے ایک دوسرا مسلمان کھڑا ہوا اور اس کو بھی شہید کر دیا گیا۔ یوں درجنوں مسلمان شہادت کے منصب پر فائز کردئے گئے۔ 13جولائی کی ان شہادتوں نے ایک بڑی تحریک کی صورت اختیار کی اور غاصب حکومت کے خلاف ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو لا کھڑا کیا۔ اس واقعے سے غلامی کی زنجیروں میں حرکت پیدا ہوئی اور ان زنجیروں کو کاٹنے کی سعی میں ہر مغلوب جٹ گیا۔ مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم کے تحت آزادی کی اس تحریک نے ابھی تھوڑی ہی مسافت طے کی تھی کہ اپنے ہی صفوں میں چھپے بیٹھے میر صادقوں اور میر جعفروں کو ملت اسلامیہ کشمیر کو دھوکہ دے کروطنیت کے غلیظ گورکھ دھندوں میں الجھا دیا۔ تحریک آزادی نے جو کروٹ لی تھی اس کو غلط رخ پر ڈال کر ابن الوقتوں اور کرسی کے پجاریوں نے اپنی ذاتی انا اور تسکین کا سامان بنا دیا۔

ہماری تحریک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ 1938ء ، 1947ء اور 1975ء میں سب سے بڑا نقصان اس تحریک کا ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا، جن کا سارا سیاسی قد کاٹھ تحریک آزادی کشمیر کا ہی مرہون منت ہے۔ شیخ محمد عبداللہ نے سیاسی آوارہ گردیوں میں ملی اور قومی کاز کو جو نقصان پہنچایا اس کی بھر پائی ہونی ہنوز باقی ہے۔ نیشنل کانفرنس نے کرسی کے ارد گرد گھومنے والی سیاست پر ایمان لاکر یہاں کی سیاسی فضا کو ہی مکدر کر کے رکھ دیا ہے۔ اور ہر آنے والے ملت فروش اور حریت فروش سیاسی تنظیم اور بونے لیڈروں کے لئے ایک راہ مقرر کردی ہے۔ اس ذلت اور خواری کی راہ پر بعد میں چلنے والے لوگوں کو بھی اپنی قوم کی بے بسی اور مظلومیت پر کوئی ترس نہیں آرہا ہے۔ بلکہ یہ ملت فروش اب بھی اس قوم کی بچی کھچی طاقت ، قوت اور صلاحیت کو غاصب قوت کے سامنے اپنی کرسی کے عوض بیچ دینے پر تلی ہوئی ہے۔

13 جولائی 1931ء کے شہداء کی قبروں پر آج بھی یہ ظالم اپنے حقیر مفادات پر پردہ ڈالنے کے لئے حاضری دے کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔  شہداء کے حقیقی وارثین پابند سلاسل ہیں اور ان کے خون کے ساتھ سودے بازی کرنے والے خراج عقیدت کی پھول مالائیں لے کر اپنی سیاست کی دوکان کو چمکا رہے ہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جبر وغصب کا مردانہ وار مقابلہ کرے۔ غلامی کی زنجیریں کمزور ہوتی ہیں ، اور جہد مسلسل سے اس منزل کو پانا بالکل عین ممکن ہے جو مقہور و مجبور قوم کا خواب ہوتا ہے۔ صبح نو کا ستارہ اگر دیر سے بھی طلوع ہوگا لیکن اس کے طلوع ہونے میں شک کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہے ۔ عزم و ہمت کے پیکر بن کر اس خوبصورت صبح نو کے طلوع ہونے میں آئیے اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیں اور نشان راہ بن کر آنے والوں کے لئے زندہ مثال بن جائیں ۔

دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

تبصرے بند ہیں۔