آنحضرت ؐ کی رواداری اورہماراکردار

تحریر: قانتہ صدیقہ – ترتیب: عبدالعزیز
حیات طیبہ کوپیش کرنیوالوں نے حضرت محمد ؐ کی زندگی کی ایک ایک بات کوتاریخ کے صفحات پرکھول کررکھ دیاہے ۔ حضورؐکے اس دنیامیں تشریف لے آنے کے بعدسے آپؐ کے واپس تشریف لے جانے تک کے حالات کابہ غورمطالعہ کریں تواس نتیجے پرپہنچے بغیرنہ رہ سکیں گے کہ حضورؐ کی سندگی سراسرعفوودرگزر، انسانی ہمدردی وخدمت اوررواداری کاایک لامتناہی تسلسل ہے ۔ حضورؐ نے دیگرمذاہب کے لوگوں اوراپنے دشمنوں تک سے رواداری کاجوسلوک کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
نبو ت سے پہلے کے دورمیں اہل عرب کی قبائلی جنگوں اورآپسی لڑائی سے سینکڑوں گھرانے بربادہوگئے تھے ۔ بات بات پرتلواریں نکالنااورقتل وسفاکی ان کے موروثی اخلاق بن گئے تھے ۔ ان حالات کے پیش نظرزبیربن عبدالمطلب نے جنگ وجدال اورظلم وستم کے خاتمہ کے لئے تمام قبائل کے درمیان ایک امن معاہدے کے لئے کوششیں کیں تورسول اللہ ؐ نے اس معاہدے میں بڑھ کرحصہ لیا۔ تاریخ اسے حلف الفضول کے نام سے یادکرتی ہے ۔ آپؐ عہدنبوت میں فرمایاکرتے تھے کہ ’’معاہدے کے مقابلے میں اگرمجھ کوسرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تومیں نہ بدلتااورآج بھی ایسے معاہدے کے لئے کوئی بلائے تومیں حاضرہوں۔‘‘
آج کی نام نہادمہذب قومیں اورترقی یافتہ ممالک انسانیت کی حفاظت کے لئے اورانسانی رواداری کے لئے آئے دن معاہدے کرتے ہیں مگران کی حیثیت مفادپرستی اورخوش نماکاغذی کاروائی سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ لیکن حضورؐکے معاہدے کاایک ایک لفظ عمل کی کسوٹی پرپورااترتاتھا۔
جب اسلام آیاتواسلامی اصولوں پرحکومت الٰہیہ کی بناء ڈالی۔ جس میں انسان خلیفۃ اللہ کی حیثیت سے اس حکومت کے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری سے نوازاگیا۔اوریہ حکومت بنی نوعِ انسان کے لئے امن وامان اورعدل وانصاف کی ضامن بن گئی ۔اوروہ امتیازات جوسرمایہ داری کے اصولوں پرقائم تھے، حرف غلط کی طرح مٹ گئے ۔اورانسان آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کااحترام کرنے لگے غیرمذاہب کے افرادکے ساتھ ہمدردانہ وروادارانہ سلوک کیاجانے لگااورانہیں ان کے ذاتی قانون ہی کے مطابق اپنے مقدموں کے فیصلے کرنے کاحق دیاگیا۔اوران کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ رواداری اوراحترام کوملحوظ رکھاگیا۔ یہی نہیں بلکہ غیرمذاہب کے افرادکی عبادت گاہوں کی حفاظت کی گئی اوران کے ساتھ پوراپوراانصاف کیاگیاتاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بعض دفعہ مسجدکی عمارت کوصرف اس لیے ڈھایاگیاکہ یہ دوسروں کی زمین پربغیرمعاوضہ دیئے بنائی گئی تھی۔
ہجرت سے قبل جب حضورؐ قبائل میں دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ کی غرض سے تشریف لے جاتے توکافر آپؐ کاپتھروں سے استقبال کرتے ۔ ایک دفعہ جب آپ ؐطائف کے لوگوں کودین حق کی دعوت دے رہے تھے توان کے زخموں سے بے ہوش ہوگئے ۔ اس دن آپؐ نے اہل طائف کی طرف سے اتنی تکلیف سہنے کے باوجودان کے حق میں بددعانہیں کی ۔ یہی اہل طائف جب جنگ حنین کے بعدمعافی کی درخواست لے کرآپؐ کے پاس آئے توآپؐ نے سب کومعاف فرمادیا۔
دوسراواقعہ وہ ہے کہ جب کہ حضورؐ کوہجرت کی اجازت مل گئی ۔آپؐ ادھرہجرت کی تیاری میں مصروف ہیں تودوسری طرف حضورؐنے ہجرت سے پہلے حضرت علیؓ کے سامنے سارامال رکھ کرانہیں ہدایت فرمائی کہ فلاں مال فلاں شخص کاہے اورفلاں مال فلاں شخص کاہے ۔اورصبح سارامال پہنچادینا۔ جب کہ وہی اہل قریش آپؐ کے قتل کی سازش میں مصرف تھے ۔
حضور ؐ اکثریہودی ہمسائیوں کی خاطرمدرات کرتے اوربہ نفس نفیس ان کے بیماروں کی عیادت کرتے ۔ ان کے جنازے گلیوں سے گزرتے توآپؐ بیٹھے ہوئے ہوتے تواُٹھ کھڑے ہوجاتے تھے ۔
فتح مکہ کے دن جب ان مہاجرمسلمانوں نے جوکفارقریش کے مظالم سے تنگ آکرمدینہ منورہ ہجرت کرگئے تھے اورجن کی زمینوں اورمکانوں پرمشرکین نے قبضہ کرلیاتھا، اپنے مکانوں اورزمینوں کی واپسی کے لئے حضورؐ سے درخواست کی توآپؐ نے ان کی اس درخواست کونامنظورکردیا۔کیوں کہ ایک بارراہِ خدامیں وہ لوگ اپنی زمینیں اورمکانات سے دست بردارہوچکے تھے پھرکیسے وہ دوبارہ اس کوحاصل کرسکتے تھے ۔
حضورؐکی ساری حیات طیبہ کوسامنے رکھیں توہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ نے مزدوروں ، غرباء اورمحنت کش عوام سے حتی کہ دشمنوں سے بھی ہمدردی واررواداری کاجوسلوک کیاوہ اپنی مثال آپ ہے ۔
حضورؐکاغلاموں پرایک احسان عظیم ہے ۔ آپ ان سے جس ہمدردی ومحبت سے پیش آئے تھے تاریخ عالم میں اس کی نظیرملنی مشکل ہے ۔آپؐ کی بعثت سے قبل غلاموں سے جوسلوک روارکھاجاتاتھااس کوسن کرہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آپ نے اپنے اعمال اوراقوال سے اس طبقہ کی زندگی یکسربدل دی۔ یہ آپؐ کی رواداری کااعلیٰ نمونہ ہے ۔آپ نے اس کوایسی اچھی شکل میں ڈھال دیاکہ غلامی کاتصوریک لخت ختم ہوکررہ گیا۔ چنانچہ ابوذرغفاریؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا : ’’تمہارے بھائی تمہارے خدمت گارہیں۔ خدانے انہیں تمہارے قبضے میں دیاہے ۔ بس جس شخص کابھائی اس کے قبضے میں ہواس کوچاہئے کہ جوخودکھائے وہی اس کوبھی کھلائے اورجوخودپہنے وہی اس کوبھی پہنائے اورتم ان سے اس کام کہ نہ کہوجوان سے نہ ہوسکے اوراگرتم اس کام کے لئے ان سے کہوتوخودبھی ان کی مددکرو۔‘‘
حضورؐطبقۂ مزدورمحنت کش عوام اورغرباء سے جس ہمدردی سے پیش آئے تھے ، تاریخ میں ایسی مثالیں ملنی مشکل ہیں ۔ ان واقعات میں ہمارے لیے سبق ہے ۔ ہمارے اطراف جومتمدن اقوام ہیں ان پرنظرڈالیں تومعلوم ہوگاکہ ان کمزورطبقات سے ہمدردی کے بلندوبانگ دعووں کی حقیقت کیاہے ۔ان کے قول وفعل میں زمین وآسمان کافرق ہے ۔ اس تناظرمیں حضورپاکؐ کی زندگی اورآپ کی سیرت طیبہ کی عظمت بھی ثابت ہوتی ہے اورمسلم سماج سے اس نمونہ کوپیش کرنے کاتقاضابھی ثابت ہوتاہے کہ آج دنیااس کی حاجت مندہے۔
حضورؐجنگی قیدیوں کے ساتھ بھی خوش خلقی سے پیش آتے تھے ۔ چنانچہ جنگ بدرکے قیدیوں کاکہناہے کہ اہل مدینہ نے ان کواپنے بچوں سے بڑھ کررکھاتھا۔ جنگ بدرکے بعدغزوہ بنوالمصطلق میں سوسے زیادہ مردوعوتیں قیدہوئے تھے ۔ وہ بس بلاکسی معاوضے کے آزادکردیئے گئے اوران میں سے ایک خاتون جویریہؓ کوحضورؐنے ’’ام المومنین‘‘ ہونے کادرجہ عطافرمایا۔ حدیبیہ کے مدن میں بھی اسّی جنگی قیدہوئے تھے ۔ ان کوبھی حضورؐنے بلاکسی شرط وجرمانہ کے آزادفرمادیاتھا۔ اسی طرح جنگ حنین میں چھ ہزارمردوخواتین کوبھی بلاکسی شرط وجرمانے کے آزادفرمادیاتھا۔ ایک اورواقعہ یہ ہے کہ جب حملہ آوراحدکے میدان میں قیدکرلیے گئے توحضورؐکورات میں نیندنہیں آئی اورآپ ؐ اضطراب سیادھراُدھرکروٹیں بدلتے رہے ۔ ایک انصاری نے عرض کیا’’حضورکوکچھ تکلیف ہے ۔‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’نہیں‘‘ مگرعباس کے کراہنے کی آوازمیرے کان میں آرہی ہے ، اس لئے مجھے چین نہیں پڑتا۔ ‘‘ا نصاری وہاں سے چپکے سے اُٹھے اورجاکرعباس کی مشکیں کھول دیں اس پرعباس آرام سے سوگئے ۔ انصاری پھرحاضرخدمت ہوئے ۔حضورؐنے پوچھاکہ ’’اب عباس کی آواز کیوں نہیں آرہی ہے‘‘ انصاری نے کہاکہ میں نے ان کی مشکیں کھول دی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا : جاؤ ’’سب قیدیوں کے ساتھ ایساہی برتاؤکرو‘‘ جب حضورؐکواطلاع دی گئی کہ سب قیدی آرام سے سورہے ہیں توآپؐ کااضطراب کم ہوااورآپؐ بھی سوگئے ۔حضورنے جنگ کے قیدیوں کے ساتھ جورواداری اورحسن سلوک کوروارکھاتھااوروہ ہمارے لیے سبق آموزہے۔
حضورؐاپنے دشمنوں ، قیدیوں اورخدمت گاروں سے برابری کاسلوک کرتے تھے ۔ انہیں کھلاتے ، پلاتے ، پہناتے ، انہیں تکلیف اورمصیبت سے بچاتے تھے ۔ یہ حضورؐکاطریقہ کارتھا۔ مگرافسوس ہے کہ ہم آج ان کے نام لیوااسلام کے شیدائی حضورؐکی تعلیمات سے کوسوں دوردنیاکی رنگ رلیوں اورلہوولعب میں گھرکررہ گئے ہیں۔آج ایسے بہت سے مسلم گھرانے ملیں گے جہاں چھوٹے چھوٹے بچے ملازم ہیں۔جودن رات اپنے مالکوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں، مگران میں آج ایسے مسلم حضرات ہیں جوان بچوں کی حفاظت ، صحت ، لباس اورتعلیم کاخیال رکھتے ہیں۔کتنے ایسے بندے ہیں جن کے دلوں میں ان بچوں کے لئے شفقت ،محبت اورہمدردی کے جذبات موجزن رہتے ہیں۔اورکتنے ایسے ہیں جوان سے ان کی طاقت سے کم کام لیتے ہیں۔
حضورؐنے اُن کفارومشرکین کے ساتھ رواداری کابرتاؤکیاتھا، جنہوں نے مسلمانوں کوتباہ وبربادکرنے کے لئے اپناسارازورلگایااوراپنی ناپاک کوششوں میں برابرشب وروزمنہمک رہے۔ لیکن حضورؐنے ان سب کومعاف کردیا۔حضورؐکی رواداری کے یہ واقعات انسانیت پرایک احسان عظیم ہیں۔حضورؐکی رواداری سے اس نظارے سے قریش مکہ کی آنکھیں چکاچوندہوئیں اوروہ دائرۂ میں جوق درجوق داخل ہونے لگے ۔
یہ سب اس رواداری ہی کے کرشمے تھے جس کوحضورؐنے ہمیشہ اپنوں کے ساتھ ، غیروں اوردشمنوں کے ساتھ روارکھا۔ یہ ان ہی تعلیمات کااثرہے ، جس کوحضورؐنے دنیاکے سامنے پیش کیا۔
یہ چندواقعات تھے جن کے لفظ لفظ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ اللعالمین ہونے کاثبوت ملتاہے ۔ جس سے آپ کے روادارانہ سلوک کاپتہ چلتاہے ۔اوریہ واقعات ہمارے معاشرے ، تہذیب اورتعلقات کودرست اوراستوارکرنے کیلئے مصلح ورہبری کاکام دیتے ہیں۔اگرہم اپنے رویہ اورکردارکونہیں بدلیں گے توہمارے دشمن کیسے اپنے رویہ اورکردارکوبدلیں گے؟ غوروفکرکی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔