قرآن کا پیغام والدین کے نام –کیریئرگائیڈنس اور والدین؟ (16)

مولانا عبدالبر اثری فلاحی
’’وَ دَاؤدَ وَ سُلَیْمَانَ اِذْ یَحْکُمَانِ فِیْ الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتُ فِیْہٖ غَنَم الْقَوْمِ وَ کَنَّا لِحْکُمِھِمُ شَاھِدِیْنَ۔ فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْمَانَ وَ کُلا اٰتَیْنَاحُکْماً وَّ عِلْماً‘‘(الانبیاء:78۔79)
ترجمہ:- ’’اور ہم نے داؤد و سلیمان کو نوازا،یاد کرو وہ موقع جب کہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کررہے تھے۔ اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھادیا۔ حالانکہ قوت فیصلہ اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا‘‘۔
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے دونوں جلیل القدر پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب نوازا تھا۔ ان آیات میں ان کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ فیصلہ کرنے کیلئے باپ بیٹا دونوں بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے قوت فیصلہ اور علم دونوں کو عطا کیا تھا لیکن حضرت داؤد علیہ السلام صحیح فیصلے تک نہیں پہنچ سکے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو صحیح فیصلہ سجھادیا چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ نافذ کیا گیا۔ اس واقعہ سے کئی رہنمائیاں ملتی ہیں:
1۔ حضرت داؤد علیہ السلام حکمراں تھے۔ ان کے پاس مقدمات فیصلے کے لئے پیش کئے جاتے تھے۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام وہاں کیو ں بیٹھے تھے یا بیٹھائے جاتے تھے؟ اس کی تہہ میں آپ جائیں تو اس کے علاوہ اور کوئی سبب سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے بچپن ہی سے یہ بھانپ لیا تھا کہ سلیمان علیہ السلام کے اندر بے پناہ قوت فیصلہ ہے اس کی اس صلاحیت کو پروان چڑھانا چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھاناچاہئے چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام جب مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھتے تو اپنے لخت جگر حضرت سلیمان علیہ السلام (تاریخی روایات کے مطابق اس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر ۱۱؍سال تھی) کو بھی ساتھ بیٹھاتے تاکہ اس کی تربیت بھی ہو، اس کی صلاحیتوں کو جلا بھی ملے اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا جائے ۔ گویا حضرت داؤد علیہ السلام نے جوہر پہچان لیا تھا اور اسے نکھارنے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ آج کی زبان میں اسے ہی ’’کیرئیر گائیڈنس‘‘کانام دیا جاتاہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے اس طرز عمل میں ہر باپ کے لئے یہ رہنمائی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے اندر پائے جانے والے جوہر کو پہچاننے کی کوشش کرے اور جب اس کا اندازہ ہو جائے تو اسے نکھارنے کی کوشش کرے تاکہ اولاد کا مستقبل تابناک بنے۔
2۔ مخصوص امتیازی صلاحیتیں بھی اللہ کی عطا کردہ ہوتی ہیں۔ انسان صرف محنت اور تگ و دو سے ایسی کوئی صلاحیت حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب ایسی صلاحیت اللہ کی عطا کردہ ہوتی ہے تو اس سلسلے میں کچھ محنت اور جدوجہد کی ضرورت نہیں اس طرح کی صلاحیت ملتی تو یقیناًاللہ ہی کی طرف سے ہے لیکن اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے، اس کو پروان نہ چڑھایا جائے، اس کو کام میں نہ لایا جائے تو وہ صلاحیت زنگ آلود ہوکر دھیرے دھیرے ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے جس کے اندر بھی جو مخصوص صلاحیت اللہ تعالیٰ نے ودیعت کی ہے اس کے بارے میں ضروری ہے کہ وہ خود بھی اور اس کے والدین بھی اس مخصوص صلاحیت کی قدر کریں، اس کی حفاظت کریں، اس کو پروان چڑھائیں بالخصوص ابتدائی مراحل میں ہی والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی شناخت کریں۔ اسی کے مطابق اسے آگے بڑھائیں تاکہ واقعی مخصوص صلاحیت کا فائدہ ہر ایک کو پہنچ سکے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام کو صلاحیت تو اللہ تعالیٰ نے عطا کی تھی لیکن اسے نکھارنے میں والد نے اپنا رول ادا کیا چنانچہ وہ تاریخ کے مثالی حکمراں بنے۔
بالعموم والدین اپنی خواہش اور چاہت کے آگے اولاد کی مخصوص صلاحیتوں اور رجحانات کی رعایت نہیں کرتے چنانچہ ان کی فطری صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں بلکہ زنگ آلود ہوکر ختم ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ایک بچے میں صحافی بننے کی صلاحیت ہے لیکن ماں باپ اسے انجینئر بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اچھاانجینئر تو نہیں بن سکتا البتہ صحافی بننے کی صلاحیت بھی مردہ ہو جاتی ہے۔ اگر والدین مخصوص صلاحیت کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد کو آگے بڑھائیں تو اسی میں باپ بیٹے دونوں کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔ کیرئیر گائیڈنس سے یہی چیز حاصل ہوتی ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
بسا اوقات والدین مخصوص جوہر کو نہیں پہچان پاتے یا مجبوری کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دے پاتے ایسی صورت میں اساتذہ کو رہنمائی کرنی چاہئے اور آگے آنا چاہئے۔
امام ابویوسف رحمۃ اﷲ علیہ جو اپنے وقت کے بڑے فقیہ (قانون داں) تھے اور چیف جسٹس بھی بنے۔ وہ بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنا دشوار تھا۔ ان کی والدہ ان کو روزی کمانے کے لئے محنت مزدوری پر مجبور کرتی تھیں۔ آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے استاد امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوا تو وہ ان کی والدہ سے ملے۔ ان کی ضرورت کا سامان دے دیا اور یوسف ؒ کو اپنے پاس پڑھنے کے لئے بٹھالیا کیونکہ آپؓ نے یوسف ؒ کے جوہر کو بھانپ لیا تھا اور ان کے پیکر میں آپ کو مستقبل کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس ) نظر آرہا تھا۔
جوہر شناسی اور کیریئر بنانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آخرت کو فراموش کردیا جائے اور اس کی کوئی فکر نہ کی جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ کے سلسلے میں آتا ہے کہ وہ اکثر بیٹے کو نصیحت فرمایا کرتیں ’’بیٹا! رات بھر نہ سوتے رہا کرو! جو آدمی ساری ساری رات سوتا ہے قیامت کے دن اس کی نیکیاں کم ہو جانے کا ڈر ہے‘‘(ابن ماجہ)
آج کل کیرئیر بنانے کے چکر میں یہ پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے جو مناسب نہیں ۔ امتحان کے دنوں میں بہتر رزلٹ کے لئے رات دیر تک پڑھنے کا مطالبہ تو بچوں سے کیا جاتاہے لیکن فجر کی نماز کے وقت سوتا رہے تو یہ سوچ کر چھوڑ دیا جاتاہے کہ دیر تک جگا ہے ۔ نیند پوری ہو جائے تو اٹھ کر پڑھ لے گا۔
3۔ ہر انسان کے اندر صلاحیتوں میں فرق ہے۔ بعض صلاحیت بعض میں نمایاں ہوتی ہے اور دوسروں میں کم۔ یہ کوئی عیب نہیں بلکہ اللہ کا انتظام ہے ’’نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘(یوسف:76) ’’ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحب علم کے اوپر علم والا ہے‘‘۔
بیٹے کے اندر باپ سے الگ اور زائد صلاحیت ہوسکتی ہے جیسا کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے درمیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت فیصلہ دونوں کو عطا کیا تھا۔ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو زیادہ عطا کیا تھا۔ چنانچہ حضرت داؤدؑ صحیح فیصلے تک نہیں پہنچ سکے لیکن ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام صحیح فیصلے تک پہنچ گئے۔ ایسی صورت حال میں باپ کو کسی قسم کی سبکی اور جھجھک نہیں محسوس کرنی چاہئے بلکہ بیٹے کی نمایاں صلاحیت کی قدر کرنی چاہئے ، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے بلکہ اسے اپنے کاموں میں شریک کرناچاہئے ۔ یقیناًبیٹے کی ممتاز صلاحیت اس کے کام میں مددگار ثابت ہوگی جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے حق میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ممتاز صلاحیت مددگار ثابت ہوئی ۔
صلاحیتو ں میں جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ فرق و امتیاز آزمائش کے لئے رکھا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’وَھُوَ الَّذْیِ جَعَلَکُمْ خَلَاءِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا اٰتَاکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رََّحِیْمٌ‘‘(الانعام:165)
ترجمہ:- ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دئیے۔ تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے‘‘۔
ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس آزمائش میں پورا اترنے کی کوشش کرے ۔ تبھی وہ کامیاب قرار دیا جائے گا۔ ہر شخص جو کچھ کمائے گا اس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا’’وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلاَّ عَلَیْھَا وَلاَ تَزِرُوَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْرَیٰ‘‘(الانعام:146)

تبصرے بند ہیں۔