آنکھ سے آتا ہے اب میری نظر دو بٹہ تین

احمد علی برقیؔ اعظمی

آنکھ سے آتا ہے اب میری نظر دو بٹہ تین
منزلِ عمر کا کٹ جائے سفر دو بٹہ تین

کرۂ ارض ہے اب زیر و زبر دو بٹہ تین
جس کو کہتے ہیں بشر اُس میں ہے شر دو بٹہ تین

جس کو میں اپنا سمجھتا تھا پرایا نکلا
کرلیا غصب مرا اُس نے ہی گھر دو بٹہ تین

وقت یکساں نہیں رہتا ہے ہمیشہ سب کا
گھٹ کے رہ جاتے ہیں یہ شمس و قمر دو بٹہ تین

سیرِ حاصل میں کروں تجزیہ اُن کا کیسے
قابلِ دید ہیں یہ لعل و گُہر دو بٹہ تین

چار دن کی ہے فقط چاندنی یہ عمرِ عزیز
جو بچی ہے اُسے کرلیں گے بسر دو بٹہ تین

میں مکمل نہیں کر سکتا بھروسہ اُس پر
وہ ہے برقیؔ مرا منظورِ نظر دو بٹہ تین

تبصرے بند ہیں۔