آپ کے کتنے غیر مسلم دوست ہیں؟

مسعود جاوید

یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ 1947 میں آزادی اور تقسیمِ ہند کے بعد بهی 80% غیر مسلموں کی اکثریت نے ہر دور میں 20% اقلیتوں کا ان کے مذہب اور رسم و رواج کا احترام کیا ہے۔ بقائے باہمی کا جذبہ ان کے خمیر میں ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کے نظریات اور تصرفات سے قطع نظر اکثریتی طبقہ کی اکثریت peaceful coexistence میں یقین رکهتی ہے اور عملاً اس پر کاربند ہے۔ ایسا میں اپنے ذاتی تجربات مشاہدات اور مختلف لوگوں کے ساتھ پیش آئے واقعات کہ روشنی میں کہ رہا ہوں۔ آج کل سڑکوں پر جمعہ کی نماز موضوع بحث ہے۔ میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا کہ جمعہ کی نماز کا وقت ہو گیا تو نزدیک جو مسجد نظر آئی وہاں کا رخ کیا۔ ایک بار قرول باغ میں ایسا ہوا مسجد بهر چکی تهی نمازی۔ سڑک پر صف لگا رہے تهے غیر مسلم دکانداروں نے فٹ پاتھ کی خود سے صفائی اور دکان کے باہری حصہ نماز کے لئے آفر کیا کئی مقامات پر غیر مسلموں نے وضو کے لئے پانی مہیا کرایا۔

جہاں متعدد خالی برتن ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فسادات اسی کا مظہر ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر نہیں فرقے کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہ ایک فطری عمل ہے لیکن عموماً دو فریق کے آپسی تنازعہ کو ہندو مسلم کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ clash of interest اور دیگر انفرادی نوعیت کے جھگڑوں کو کچھ غیر سماجی عناصر فرقہ وارانہ فساد میں بدل دیتے ہیں۔  کسی مسلم  دکان کے سامنے کسی غیر مسلم نے گاڑی لگادی یا اس کے عکس ، دکاندار کو اعتراض ہوا لیکن وہ اکیلا الجھنا نہیں چاہتا ہے اس لئے کچھ الفاظ اور جملے نقل کرکے اس مسئلے کو مذہبی رنگ دے دیتا ہے اور اپنے لوگوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتا ہے ۔ اس طرح دو فریق کا جهگڑا دو فرقے کے جهگڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

مسلم حکمرانوں سے لے ک مسلم رعایا اور آج کے مسلمان اور ان کی تنظیمیں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے میں قاصر رہے۔ ایک مخصوص طبقہ عام لوگوں کو یہ باور کراتا رہا کہ ‘اسلام اور مسلمان تمہیں کافر کہتا ہے اورقران کافروں کو مارنے کا حکم دیتا ہے’۔ یہ اور اس قبیل کی دوسری غلط فہمیوں کو اکثریتی طبقہ کے ذہنوں سے ہم نکال نہیں پائے۔ بعض لٹریچر تقسیم کرکے اپنی ذمہ داری سے بری ہونے کا رجحان  سب سے زیادہ مضر ثابت ہوا ہے۔ کسی اجتماع اور کانفرنس میں اکثریتی فرقہ کے بعض لوگوں کو مدعو کرنا اور مدارس و مساجد کی زیارت کرانا اس لئے بہت مفید نہیں ہے کہ اس سے یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ ‘ ہمارا ذہن صاف کرنے کے لیے خاص طور پر ہہ پروگرام مرتب کیا گیا ہے اور جو قابل اعتراض مواد یا باتیں ہیں اسے چهپا دیا گیا ہے۔

خصوصی طور ہر اسٹیج کئے ہوئے ایونٹس اور نیچرل نارمل ایونٹس کا یہی فرق ہوتا ہے ایک مصنوعی ہے تو دوسرا فطری اور ظاہر ہے فطری روز مرہ کے معمولات کے ابداز میں واقف کرانا زیادہ مفید اور موثر ہوتا ہے۔

اسی لئے اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ بڑهانا interaction اور دوستی کے راستے ان کو ہمیں ہمارے مدارس کے نصاب  مساجد کے اعمال  اور تنظیموں کی کارکردگی سے واقف کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کی ایک بہترین شکل یہ ہے کہ رفاہی کاموں میں ان کو شریک کیا جائے مثال کے طور پر مسلم محلوں اور کچی بستیوں میں صفائی ابهیان کے تحت مدارس و مساجد کا بهی دورہ کرانا تاکہ ان کی یہ غلط فہمی دور ہو کہ بعض آشرموں کے بر عکس مساجد میں نہ ہتھیار ہوتے ہیں اور نہ ہتھیار جمع رکھنے کے لیے تہ خانے۔ نہ شاخائیں لگائی جاتی ہیں  اور نہ  مارشل آرٹ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔  مدارس کی کتابوں میں کوئی صفحہ یا باب ایسا نہیں ہے جس میں برادران وطن کے خلاف نفرت سکھائی جاتی ہو۔ مدارس کے طلباء اکثر یتیم و نادار ہوتے ہیں جن کو مفت کهانے پینے اور رہائش کی سہولیات کے ساتھ دینی اور کچھ بنیادی عصری تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ مدارس حکومت سے کوئی مالی امداد نہیں لیتے ان کے اخراجات عام مسلمانوں کے چندے سے پورے ہوتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔