آہ ! بیچاری مر گئی 

عزیز اعظمی

صبح واٹس اپ آن کیا تو میسج تھا کہ سروری آپا کا انتقال ہو گیا، یہ خبرمرگ نہیں بلکہ ایک جملے میں بیان کی گئی ظلم و ستم، درد و الم کی ایسی کربناک داستان تھی جوآج مکمل ہو گئی، دعاء کے ساتھ  دل سے ایک سرد آہ نکلی کہ آہ ! بیچاری مرگئی، کب تک سہتی، کہاں تک برداشت کرتی، صبح و شام اسکو مارتا تھا، شراب کے نشے میں گھر آتا تو اس پرظلم کی انتہا کرتا، مرحوم باپ نے بیٹی کی خوشی کی خاطر، سسرالی رشتے کو خوش رکھنے کی خاطر اپنی انا و دستارتک بیچ دی لیکن اس بیچاری کو پوری زندگی کبھی سکون نصیب نہیں ہوا، وہ ہر ظلم سہتی رہی مگر ماں باپ کی نصیحت، تربیت، عزت و عظمت پرکبھی حرف نہیں آنے دیا۔ اس نے ماں، باپ کے اس قول کونصیحت سمجھ کراپنے دامن سے باندھ لیا تھا کہ سسرال سے نکالی گئی عورت کا نا کوئی گھر ہوتا ہے نا کوئی مقام اور جس عورت کے پاس ماں، باپ کے بعد نہ کوئی بھائی ہو نہ بہن اسے کون پوچھے گا … وہ اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو مقدر کا حصہ، والدین کا فیصلہ سمجھ کر برداشت کرتی رہی، وہ بچوں کی محبت، خاندان کی عظمت میں سارے ستم سہتی رہی لیکن کسی سے اف تک  نہ کیا۔ لیکن آج وہ اس وقت ہار گئی جب اس کے بے حس، بے رحم، جاہل شوہر نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا تھا کہ دو بیٹیوں کے بعد اگر اس بار تیسری بیٹی ہوئی تو گھر میں  قدم مت رکھنا اس گھر کے دروازے ہمیشہ کے لئے تمہارے لئے بند، تو میرے لئے مر گئی۔ ۔

گھر سے نکالتے وقت سروری آپا کی ساس منھ میں پان دبائے وہیں بیٹھی تھیں لیکن بیٹے کے اس غیر انسانی اور جاہلانہ سلوک پر ایک لفظ نہ بول سکیں کیونکہ وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک تھیں، صرف شریک ہی نہیں بلکہ اس لنچنگ کو ہوا دیتے وقت حکومت انھیں کی تھی، سب کچھ انھیں کے اشارے پر ہو رہا تھا، نفرت و عداوت کے زہریلے جملے اسی کے تھے جسے ساس کہا جاتا ہے۔ اگر گھر کا یہ درخت مضبوط و توانا ہو تو رشتوں میں کبھی خزاں نہیں آسکتی لیکن اگر یہ کمزور ہو تو رشتوں میں کبھی خوشی و بہار نہیں آسکتی۔

 وہ ڈری، سہمی، گھبرائی ہوئی ڈاکٹر کے پاس گئی، مشورہ کیا، جانچ کرایا تواس بار بھی اسکی کوکھ  میں وہی رحمت تھی جسے زحمت سمجھ کراس کا بے رحم شوہر اس پر ظلم کے پہاڑ توڑتا تھا، اسکی بے رخی، بے رحمی، ظلم و ستم سے وہ اس قدر ٹوٹ چکی تھی کہ اس میں نہ تو اب مزید ظلم سہنے کی ہمت تھی اور نہ ہی طاقت، اس کی قوت برداشت نے جواب دیا تو بازار سے اسقاط حمل کی دوا منگائی اور گناہ و ثواب کو بھول کر تریاق سمجھ کر حلق سے اتار گئی،  کچھ گھنٹے بعد حالت غیر ہوئی تو بچوں کے رونے کی آواز سے محلے والے اکھٹا ہوئے اسپتال لے گئے لیکن اسے شفاء کہاں نصیب، بیٹی کا ہاتھ پکڑے، بچے کو سینے سے لگائے دنیا چھوڑ گئی۔ اللہ اسکی مغفرت فرمائے۔

بیٹے کے نام پر ظلم کرنے والا اسکول گیا ہوتا، پڑھا ہوتا، بزرگوں اورمدرسوں کی صحبت میں رہا ہوتا تو سمجھتا کہ بیٹی اور بیٹا  دینا انسانوں کے بس میں نہیں  یہ تو اللہ کی مصلحت اور حکمت پر ہے منحصر ہے،

اللہ نے اپنی کتاب میں انسانوں کے سامنے واضح کردیا ہے کہ  ( لِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَاء  یَہَبُ لِمَنْ یَشَاء  إِنَاثاً وَیَہَبُ لِمَن یَشَاء  الذُّکُورَ،أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَاناً وَإِنَاثاً وَیَجْعَلُ مَن یَشَاء  عَقِیْماً : سورہ الشوریٰ، آیت:50-49 ﴾

آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔۔ یا لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، بے شک وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔

لیکن اللہ کے اس پیغام کو وہ کیا سمجھیں جنھوں نے کتاب کی شکل نہ دیکھی ہو، جو کبھی مدرسے کے گیٹ سے نہ گزرے ہوں، جن کا تعلیم و تعلم سے کوئی  رشتہ نہ ہو، جس کا بزرگوں و شریفوں کی محفلوں سے کوئی واسطہ نہ ہو وہ تو وہی کرے گا جو شیطان چاہے گا، وہ وہی کرے گا جو جہالت سیکھائے گی۔ افسوس ہے ایسے لوگوں پرجو عورتوں پر رحم کرنے کے بجائے ان پر ظلم کرتے ہیں۔ شعور رکھنے والوں کے لئےعورتیں زحمت نہیں بلکہ وہ تو محبت، رحمت اور آرام وسکون کا باعث ہوتی ہیں اور سروری آپا جیسی با اخلاق و با مروت عورتیں تو رحمت بھی ہیں اور نعمت بھی لیکن کم عقل نہیں سمجھتے۔

پچھلی چھٹی میں گھر گیا تھا بیچاری ملنے آئی تھی، چھوٹے بیٹے کو گود میں لئے اداس بیٹھی تھی، مرجھائی ہوئی تھی میرے پو چھنے پر کہ آپا کیسی ہو تو کچھ نہ بول سکی وہ تو خاموش تھی لیکن اسکی آنکھوں سے چھلکتے آنسو یہ کہہ رہے تھے کہ کہاں ٹھیک ہے، اس کی بے بسی، اس کی مجبوری، اسکے آنسووں کو دیکھ کر کچھ اور پوچھنے کی ہمت نہ ہوسکی پیچھے بیٹھی اماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ صبر کر سروری اللہ بہت بڑا ہے اماں کے کندھے پر سر رکھ کر یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روپڑی کی چچی اب صبر نہیں ہوتا، تھک گئی ہوں، زندگی عذاب بن گئی ہے اس گھر میں ایک ایک رات مجھ پر قہر بن کے ٹوٹتی ہے بچوں کی محبت، خدا کا خوف نہ ہوتا تو جان دے دیتی۔ کیا اللہ نے سارے دکھ میر ے ہی مقدرمیں لکھ  دیئے ہیں، وہ کہتی جارہی تھی اور ہم بے بس سنتے جا رہے تھے ، اس کے ساتھ اگر ہمارا بھی ضبط ٹوٹتا وہ آنسوں میں ڈوب جاتی، اماں اپنے جذبات کو روکتے ہوئے، اسے سہارا و تسلی دیتے ہوئے، اس کے بوسیدہ و پھٹے آنچل سے آنسووں کو پوچھتے ہوئے اپنے کمرے لے گئیں کہ بس کر بیٹا اللہ تو اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، وہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا ، وہ تو مشفق و منصف ہے تمہارے ساتھ بھی انصاف کرے گا، تمہاری زندگی میں سکون لائے گا، تمہارے دامن کو بھی خوشیوں سے روشن کرے گا بیٹا اسکی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہونا۔ بیٹا یہ دنیا ایک امتحان گاہ اللہ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے لیکر، کسی کو ظالم بنا کر تو کسی کو مظلوم، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم، کسی کو امیر تو کسی کو غریب اور توں تو بیٹا ہر آزمائش پر کھری اتری ہے توں نے تو شکر و صبر کا وہ اعلی نمونہ  پیش کیا کہ میں کیا پورا گاوں اس کا گواہ بن گیا اللہ تمہیں بہترین بدلہ دے گا۔

شادی سے پہلے سروری آپا گاؤں کی ایک خوش مزاج اور خوش اخلاق بیٹی تھی اس قدربا مروت اور مخلص  تھی کہ محلے، پڑوس کے دکھ  درد میں اس طرح کھڑی رہتی گویا وہ اس کا اپنا درد ہو، محبت ایثار و قربانی کے جذبے سے اس کا دامن اس قدر وسیع تھا کہ دوسرے کے درد و غم کو اپنے دامن میں ایسے سمیٹ لیتی جیسے سمندرسارے خس وخاش کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے، غفار چاچا کے پاس دوکمرے کا گھر، تھوڑی سی زمین، ایک چھوٹی سی پرچون کی دوکان اور بینک بیلنس میں محبت کے سوا کچھ نہیں تھا، بہترین تربیت پیسے کی مجتاج نہیں اس لئے انھوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی اس طرح تعلیم و تربیت کی تھی کہ وہ گاؤں میں حسن و سلوک، اخلاق و کردارکی اعلی مثال تھیں اس میں شک نہیں کہ بیٹیاں پھول جیسی ہوتی ہیں وہ محبت و مروت، صبر و شکر کا پیکر ہوتی ہیں، بیٹیاں والدین پر کبھی بوجھ تونہیں ہوتیں لیکن یہ فطرت ہے کہ انکو اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ایک ایسےگھرکو بسانا ہوتا ہے جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن نکاح کی شکل میں قدرت کا دیا ہوا ایک ایسا خوبصورت اور پاکیزہ نظام ہے جس پر چل کر خوشگوار زندگی کی منزلیں طے کی جاتی ہیں اور اسی وصول و ضابطے کے تحت غفارچاچا نے بھی اپنی اس بیٹی کا نکاح کردیا، ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیٹی جہاں بھی جائے خوش رہے اور اسی جذبے کے تحت انھوں نے اپنی بیٹی کا نکاح تو کیا لیکن خوشی کا معیار شرافت ومساوات کے بجائے، تعلیم  وتعلم کے بجائے پیسہ رکھا، انکی شرافانہ زندگی کی پہلی اورآخری یہ وہ بڑی غلطی تھی جس کا اظہار انھوں نے جبار بابا سے اس وقت کیا جب وہ عیادت کے لئے انکے گھر آئے، شدت غم کا اظہار کرتےہوئے رو پڑے کہ جبار میں نے بیٹی کے رشتے کے انتخاب میں ایسی غلطی کی جو مجھ جیسے سادہ مزاج انسان کے لئے کسی طور مناسب نہیں تھا، مجھے اس بات کا احساس تھا  لیکن اکلوتی بیٹی کو حد سے زیادہ خوش دیکھنے کی چاہ میں نہ چاہتے ہوئے دنیا کی چمک و دمک میں کھو کر بیٹی کی خوشی کا معیار شرافت وانسانیت کے بجائے دولت و ثروت سمجھ بیٹھا، گھر، گاڑی، گھوڑے، بنگلے کے پیچھے میں اس چیز کو بھی بھول بیٹھا کہ مادہ پرستی کے اس دور میں امیر شخص کا مجھ  جیسے غریب شخص کے گھر رشتہ کرنے کا مقصد کیا ہے، لوگوں کے منع کرنے کے با وجود شادی کے دن تک اپنی آنکھوں پر بندھی خوش فہیمی کی پٹی کے پیچھے بیٹی کی خوشی کا سنہرا خواب سجائے مہمانوازی کے پیچھے سب تو سب اپنی دستار بھی بیٹی کے سسرال کے سامنے رکھ دی۔ خواب پورا ہونا تو دور وہ سنہرا خواب اس  وقت  ٹوٹ کر بکھرگیا جب کچھ ہی دن بعد بیٹی کا فون آیا اور روتے ہوئے اس نے اپنی ماں سے یہ کہا کہ اماں میری قسمت پھوٹ گئی کس گھرآپ نے میرا رشتہ کردیا جہاں نہ نماز، نہ روزہ، نہ قران، نہ تلاوت یہ ہرروز شراب پی کر آتے ہی میرے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں آج میرے منع کرنے پر کہ شراب پی کر کیوں آتے ہیں تو مجھے مارتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا، خدا کی قسم ! ماں کی عزت باپ کی عظمت کا خیال نہ ہوتا تواس گھر میں ایک پل نہ رہتی سروری آپا کی باتوں کو سن کر غفارچاچا کو اس قدر صدمہ پہونچا کو بسترعلالت پر گئے تو پھر اٹھ نہ سکے اور یہ کہتے ہوئے دنیا چھوڑ گئے کہ کاش بیٹی کی خوشی کا معیار پیسہ اور خوشگوار زندگی کا مطلب  گھر، گاڑی، بنگلہ نہ سمجھ کر تعلیم و شرافت سمجھا ہوتا تو کسی باشعور محبت کرنے والے کے ساتھ کسی جھونپڑی میں بھی خوش رہتی۔

تبصرے بند ہیں۔