آہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوریؒ

عبدالرشیدطلحہ نعمانی ؔ

عجب قیامت کا حادثہ ہےکہ اشک ہےآستیں نہیں ہے

زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی میں مرنے والے،وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کامجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

یہ پرسوزاور دل گداز اشعاردراصل شورش کاشمیریؔ نے مولانا ابو الکلام آزادؔکے سانحہ وفات پر کہے تھے اوراب حال کچھ یوں ہےکہ محدث عصر ،ادیب وقت، قائدجمعیت،نمونہ اسلاف،استاذالاساتذہ،حضرت مولانا ریاست علی ظفرؔ بجنوریؒ کے حادثۂ ارتحال نے پھر سے ان اشعارکی یادتازہ کردی۔

ضعف ونقاہت کا سلسلہ تو عرصے سے دراز تھا؛مگر کسی کے حاشیۂ خیال میں نہ تھا کہ اس طرح اچانک داعئ اجل کو لبیک کہہ جائیں گےاور ہم سب متعلقین ومنتسبین کو داغ مفارقت دے جائیں گے۔

قحط الرجال کے اس دور میں آپ کا وجود مسعود ملت اسلامیہ کیلئے ایک عظیم سرمایہ اور قیمتی اثاثہ تھا،طویل عرصہ تک تشنگان علوم و معارف آپ سے اکتساب فیض کرتے رہے،اور آپ عشق و معرفت اور علم وحکمت کے خم کے خم لنڈھاتے رہےکہ آج یکایک آپ کی رحلت نے ہر درد منددل کو مغموم کردیا، ہر کوئی رنجوروحزیں ،افسردہ وغمگیں ہوگیا؛کیوں کہ دیکھتے ہی دیکھتےستم روزگار نے عالم اسلام کو ایک عظیم محدث کے ساتھ ساتھ نمونۂ سلف سے بھی ہمیشہ کے لئے محروم کردیاہے۔

ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس الم ناک خبر نے دل ودماغ کو ہر دوسرے موضوع سے بے گانہ کر دیاہے،ہرطرف محشر بپا ہے ،شور ہے ہنگام ہےہرکوئی ماتم کناں ہے،رنج ہےکہرام ہے ۔

یہ سچ ہے کہ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ جاتا ہے کہ اس کے پُر ہونے کی امیدکم ہی نظر آتی ہے؛مگرجہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہےتو اس کےلئے پھربھی مناسب افراد مہیا ہوجاتے ہیں ؛لیکن جماعت ومسلک کا ٹھیٹھ مزاج ومذاق ،اسلاف سا تقویٰ وطہارت،بزرگوں سی سادگی وقناعت اورتواضع وللہیت، جو کتابوں سے نہیں ، بلکہ صرف اور صرف بڑوں کی صحبت سے حاصل ہوتی ہے؛جس کا کوئی متبادل موجودنہیں اور یہ ایسا خلاء ہے کہ دور دور تک اس کے پر ہونے کی کوئی امید نہیں ۔

اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنا بعده واغفر لنا وله

مختصر سونحی خاکہ:

اسم گرامی :محمد ریاست علی بن جناب منشی فراست علی صاحب ۔

ولادت :9مارچ 1940 ء  محلہ حکیم سرائے علی گڑھ ۔

ابتدائی تعلیم :1951ءپرائمری چہارم ،علی گڑھ سے ادیب کامل

فراغت:1958ءاز دارالعلوم دیوبند

خدمات:دارالعلوم دیوبندکے عرصۂ دراز تک ناظم تعلیمات ،نائب مہتمم  اور تادم آخر مقبول مدرس رہے،جمعیت علماء ہند سے وابستہ اورتقریباً 10/سال تک اس کے نائب صدررہے،اس اثناء میں مختلف دینی علمی سرگرمیوں کی سرپرستی ونگرانی بھی فرماتے رہے۔

آپ کا قد درمیانہ پستی مائل ،روشن وسفید چہرہ؛ جس سے نورانی شعائیں پھوٹتیں ،کشادہ اور تجلیاتِ حق سے منور پیشانی، خندہ رخسار جن سے جلالت علمی عیاں رہتی،کھلا سینہ جو اسررورموز کا مخزن اور معارف و حقائق کا خزانہ تھا۔ پتلے لب جو بوقت تبسم پھولوں سے بھی خوش تر لگتے، قدرےگھنی اور خوبصورت داڑھی جو اتباع سنت کا نشان بنی رہتی، گفتگو میں آہستگی ،ٹھہراؤ اور لازوال شیرینی ، خوش خلقی اور خوش مزاجی موسلا دھار بارش کی طرح فیض رساں رہتی۔

مختصر یہ کہ آپ نے جس گھرانے میں آنکھیں کھولی وہ شرافت اور دینداری میں ضرب المثل تھا اور جن اساتذۂ کرام سے شرفِ تلمذ حاصل کیا وہ رشدو ہدایت کے روشن مینار اور علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے ۔

اوصاف حمیدہ :

آپ جہاں ایک متبحر عالم ،مقبول مدرس، ماہر منتظم،عظیم دانشوراوربلندحوصلہ قائد تھےوہیں اردو کےزبردست نقاد،خوش فکر و خوش کلام شاعر اور بہترین،صاحب طرز ادیب بھی تھے۔

آپ صبرواستقامت اورتسلیم ورضا کے پیکر،مستقبل بینی، دوراندیشی اورمضبوط قوت ارادی کےمالک،سادہ انداز،شگفتہ مزاج،خوردنواز،خندہ رو اوروضع دار تھے۔

آپ کی زندگی کا ہر پہلو ستاروں کوجلا بخشنے والا اور حیات کا ہر لمحہ راہ ِحق کے مسافروں کی راہنمائی کرنے والا ہے، آپ علم و فضل کے منبع اور تواضع وا نکساری کے مرقع تھے، علماء کی آنکھوں کا تارا اورتلامذہ کا بہترین سہارا تھے، مدرسین کی محفل کا نور اور اساتذہ کے دلوں کا سرور تھے،سامعین کے لیے خوش بیاں اورقارئین کے لئے خوش نویس تھے، ملت کے لیےمفکر و مدبر اور افرادِامت کے لیے بلند پایہ عالم دین اوربااعتماد مفکر تھے۔

دارالعلوم دیوبند آپ کی ہمہ جہت خدمات کا معترف ہے،شیخ الہند اکیڈمی آپ کے ادبی ذوق اور علمی وتحقیقی  مزاج کی گواہ ہے،جمعیت علماء آپ کی بےلوث قیادت و سیادت پرشاہد ہے ،ایضاح البخاری آپ کےعشق رسول اور تبحر علمی کی دلیل ہےاور نغمہ سحر ایک قادرالکلام بلند رتبہ شاعر کی بہترین تخلیق ہے اور ترانۂ دارالعلوم ؛جن کی عبقریت و نابغیت،اعتدال فکروپاکیزگیٴ مذاق کا ترجمان ہے ۔

تصنیفات وتالیفات :

ایضاح البخاری :فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب ؒ کے علوم و معارف کا گنجینہ ہے ؛جسے حضرت مولانا ریاست علی صاحب ؒ نے نہایت عرق ریزی اور دیدہ وری سے مرتب فرمایا ہے۔

شوری کی شرعی حیثیت :مجلس  شوری کی ایماء پر مرتب کردہ معرکۃ الاراءضخیم کتاب ؛جس میں شوری کی اہمیت وافادیت،اس کی شرعی ودینی حیثیت  اور مدارس اسلامیہ کے لئے اس کی ناگزیر ضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ؛اور حضرت والا کے سلیس قلم نے موضوع کی خشکی کو عجب چاشنی  میں تبدیل  کردیا ہے۔

نغمہ سحر :آپ کاشعری مجموعہ کلام ہے ؛جو ندرت آفرینی ،جادو بیانی اور جاذبیت وکشش میں اپنی مثال آپ ہے۔

 آپ کی وفات حسرت آیات پر آپ ہی کے کسی کفش بردار نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے ؛جس کے کچھ اشعار ذیل میں پیش خدمت ہے :

فراست کی جہاں بانی کے فرزانے کی رحلت ہے

حریم ناز عنقا ہے صنم خانے کی رحلت ہے

نسیم بادیہ کی اشک افشانی کا چرچا ہے

صداے آہ وہو سے اک انوکھا شوربرپا ہے

ہتھیلی پر کلیجے ہیں دلوں میں کیف عنقا ہے

نشیمن زد میں آیا ہے عجب صرصر کا غوغا ہے

ہے صحراؤں پہ سناٹا کہ دیوانے کی رحلت ہے

فراست کی جہاں بانی کے فرزانے کی رحلت ہے

تبصرے بند ہیں۔