آہ! خاموش لحن داؤدی

عالم نقوی

آج وہ کل ہماری باری ہے۔ حبیب معظم ڈاکٹر داؤد کشمیری  بھی نہیں رہے۔ وہ ہر فن مولا قلم کار، فلم کار ، ادیب، شاعر  اوردانشور نقاد تھے۔ وہ  اُس فن ِ اِ ختِصار کے ماہر تھے جو عیب نہیں  ہنر ہے، سعادت ہے جو بازو  کے زور پر حاصل نہیں کی جا سکتی، تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔

مسعود حسن رضوی اپنی کتاب ’ہماری شاعری‘میں لکھتے ہیں کہ:

’’ اختصار یہ ہے کہ کم سے کم لفظوں میں مطلب ادا کر دیا جائے۔ بات کو ضرورت سے زیادہ طول نہ دیا جائے۔ تاہم، طول، اگر مناسبِ مقام ہو، طولِ فضول نہ ہو، تو وہ اختصار کے منافی نہیں۔ اختصار کا مطلب یہ ہے کہ کوئی لفظ، کوئی فقرہ، بے ضرورت، بے سبب اور بیکاراستعمال نہ کیا جائے۔ یہ ’ایجاز‘ کی قدیم اصطلاح  کا مترادف نہیں۔ ایجاز ہو یا ’اطناب ‘یا ’مساوات‘ اگر مقتضائے مقام کے موافق ہو تو اختصار ہی کہلائے گا۔ ایجاز یہ ہے کہ لفظ کم ہوں اور معنی زیادہ۔ مساوات یعنی جتنے لفظ اُتنے ہی معنی اور اطناب یہ کہ لفظوں کی بھرمار ہو، خواہ مطلب کچھ بھی نہ نکلے (ص ۲۷)۔

لیکن نثر ہو یا نظم ’اختصار ’ داؤد کشمیری مرحوم کا طرہ امتیازتھا۔ مثال کے طور پر اُن کی محض ۱۱۲صفحات کی  ایک کتاب ’اردو شاعری میں امیجری ‘کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے خوجہ الطاف حسین حالی کے ’مقدمہ شعرو شاعری، مسعود حسن رضوی ادیب کی ’ہماری شاعری ‘اور شمس ا لرحمن فاروقی کی ’شعر شور انگیز ‘ کے کم و بیش ہم پلہ ٹھہرتی ہے۔ ۱۸۹۳ میں حالی کے اردو دیوان کے دیباچے کے طور پر ’مقدمہ شعر و شاعری ‘ کی اشاعت سے لے کر ۲۰۰۹ میں داؤد کشمیری کی ’اردو شاعری میں امیجری‘ کی اشاعت تک کے ایک سو سولہ برسوں میں سخن فہمی اور اَبلاغیات ِ شعر کے موضوع پر شایع ہونے والی تمام کتابوں میں یہ آخر ا لذکر کتاب اِن معنی میں نمایاں اَہمیت کی حامل ہے کہ آپ اسے ’’شعر فہمی کی پرائمر ‘‘کہہ سکتے ہیں۔

 میر غالب اقبال اور فیض کو سمجھنے کے لیے ’اردو شاعری میں امیجری ‘ سب کے آخر میں شایع ہونے کے باوجود ’بنیاد کے پتھر ‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہم نے دس برس قبل لکھا تھا لیکن  یہ ’ فغان درویش ‘ صدا بصحرا ثابت ہوئی کہ ’ہر اُس دَرسگاہ میں جہاں اردو پڑھائی جاتی ہو اِس کتاب کو نصابِ شاعری کا لازمی جزو بنا لیا جائے۔ بلا شبہ مسعود حسن رضوی ادیب کی معرکہ آرا کتاب ’ہماری شاعری ‘میں ’اردو شاعری میں امیجری ‘کے  سبھی مباحث کم و بیش شامل ہیں اور ہماری شاعری متعدد جامعات کےایم اے اردو نصاب کا حصہ بھی ہے لیکن، داؤد کشمیری نے چونکہ مثالیں دے کر، مختصر ترین لیکن واضح الفاظ میں تشریح کر کے، اردو شاعری میں پیکر تراشی، امیج سازی اور تمثیل نگاری کو آٹھ اہم شاعروں میر، سودا، غالب، حالی، اقبال، اصغر گونڈوی، فانی بدایونی اور حسرت موہانی کے محض دو سو چھے منتخب و مشہور اشعار کی مدد سے سمجھا دیا ہے، اس لیے، اگر اِس کتاب کو گریجوئیشن ہی کی سطح پر نصاب میں شامل کر دیا جائے تو نہ صرف  آگے چل کر ’’ شعر ِ شور انگیز ‘‘ جیسی دقیق کتابوں کی تفہیم آسان ہو جائے گی بلکہ اردو شاعری کے طلبا کے لیے بذاتِ خود ’شعر فہمی ‘ کا مسئلہ پانی ہوجائے گا۔

ڈاکٹر داؤد کشمیری کی ایک اور کتاب ’شرح ِکلامِ فیض ‘ بھی، جو اکتوبر ۲۰۰۱ میں چھپی تھی، اس لائق ہے کہ اسے ایم اے اردو کے خصوصی مطالعے کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ میر غالب، اقبال اور فیض کے کلام کی اب تک جتنی بھی شرحیں لکھی گئی ہیں، یہ کتاب اُن سبھی تفہیمات شعر کی صف اول میں شامل ہے۔ ڈاکٹر داؤد کشمیری مرحوم اُن معدودے چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں قدرت نے ’سخن فہمی ‘ کا غیر معمولی ملکہ عطا کیا تھا۔

داؤد کشمیری مرحوم کا شعری مجموعہ ’عجیب و غریب ‘ بھی اختصار، ایجاز، تاثیر، تمثیل، پیکر تراشی، امیجری ،  فرحت بخش ندرت اور فکر انگیز بصیرت کا نادر  نمونہ ہے :

پھر اُس کے بعد ہم بھی جلیں طور کی طرح

بس ایک بار دیکھ لیں اُن کو قریب سے

بر ملا دیکھو گے اُس کو جو چھپا ہے  اب تک

چشم ِ شائستہ ِ دیدار تو پیدا کرلو !

ختم ہو جائے گا ہر جبر، ہر اِک ظلم و ستم

اِک ذرا جرئت ِ انکار تو پیدا کر لو !  

 داؤد کشمیری امیج سازی، اور ڈرامے کا گہرا شعور رکھتے تھے اسی لیے وہ کئی کامیاب فلمیں بھی لکھ سکے۔ منوج کمار کی سبھی کامیاب فلمیں کہانی اور مکالموں سے لے کر منظر نامے تک انہیں کے زور قلم کا نتیجہ ہیں۔ الفاظ میں صورت گری اور منظر تراشی کے یہ نمونے ملاحظہ ہوں :

میری وفا مقیم ہے گردو غبار میں

آہستہ چلنا  باد صبا  کوئے یار میں

ہر طرف چیختا ضمیر ملا

ایک درویش کی صدا کی طرح

ظلمتوں کی عریانی چھا گئی فضاؤں پر

تنگ ہوگیا جب سے روشنی کا پیراہن

جگر مراد آبادی نے اپنی ایک مشہور غزل کے مطلع  میں ہمارے عہد کا یہ مرثیہ کہا تھا کہ :

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

داؤد کشمیری مرحوم بھی رشید کوثر فاروقی، محمد مجاہد سید، خرد فیض آبادی اور انجم عرفانی جیسے  شاعرانِ بے بدل اور آقایان ِ ادب  کی اس فہرست میں شامل ہیں جنہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا  گیا ہے۔ ان کی نظم ’تنہائی ‘ کے یہ اشعار اُس ’سبب ‘ کی واضح نشاندہی کتے ہیں جس کا ’اثر ‘ انہیں شعوری طور پر نظر انداز کیا جانا ہے:

ٹوٹے آئینے ہیں اور عکس بھی ہیں مسخ شدہ

یہ صداقت کسے مطلوب ہے، تنہا ہی رہو !

اب تو ہر سمت تماشے ہیں ’وَ ما اَدرَاک َ

بے اثر صحبت ِمجذوب ہے، تنہا ہی رہو !

تم جسے ’شافع ِحاجات سمجھتے ہو یہاں

وہ کسی اور کا مندوب ہے، تنہا ہی رہو !

یا پھر اُن کے یہ اشعار:۔

داڑھی کا تنکا آنکھ کا شہتیر عام ہے

دہشت گری اِسی لیے تو بے لگام ہے

طبلوں کی تھاپ نے جنہیں بہرا بنا دیا

وہ کان سن سکیں گے بھلا کیا لہو کا راگ !

’اِزم ‘سارے، انساں کو بے لباس کرتے ہیں

تار تار ہے رب کی بندگی کا پیراہن

ہماری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ داؤد کشمیری کی مغفرت فرمائے ان کی روح کو اَبدُ ا لآ باد تک  اپنے جوارِ رَحمت میں اور اُن کے نام کو رہتی دنیا تک روشن و تابندہ رکھے ! آمین۔

تبصرے بند ہیں۔