آہ! میراثِ سلف کا پاسباں جاتارہا

عبدالرشید طلحہ نعمانی

امید افزا اور مایوس کن اطلاعات کے درمیان کچھ ہی دیر قبل یہ خبر صاعقہ اثر پہونچی کہ خطیب الاسلام، روایاتِ اسلاف کے نگہبان، معارف قاسمیہ کےترجمان، پاکیزہ، روحانی اورخاندانی نسبتوں کے امین، والد ماجدکے مسند نشین وجانشین، عالم اسلام کی نامور شخصیت، آبروئے خطابت، پیرطریقت، رہبرشریعت، حضرت اقدس مولانامحمد سالم صاحب قاسمی اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔

شوریدگی کے ہاتھ سے سرہے وبال ِدوش

صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

آپ کی رحلت جہاں دیوبند، اور دارالعلوم کےلیے سانحۂ جاں کاہ ہے وہیں پوری ملت اسلامیہ کےلیےعظیم خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے، آج پرسنل لاء بورڈ اور مجلس مشاورت اپنے دوراندیش  ذمہ دار سے، ندوۃ العلماء اور مظاہر علوم وقف اپنے تجربہ کارمشیرسے، کل ہند اسلامک فقہ اکیڈمی اور رابطۂ مساجد اپنے بے بدل سرپرست سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔

آپ علماء ربانیین کے اُس طبقے کے گنے چنے اَفراد میں سے تھے جن کا علم اُن کے عمل سے چھلکتا ہے، آپ اس دور قحط میں طریقِ سلف کی علامت و نشانی اوراس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی سمجھے جاتے تھے، آپ عزم و اِستقلال کے گوہ گراں اور اسی منہج اعتدال کے داعی تھےجو ہمارے اَکابر کا اَصل ورثہ اور طرہ امتیاز ہے، آپ کے وجود باجود سےلاکھوں تشنگان علوم سیراب ہوئے، ہزاروں مئے خواروں نے بادۂعشق و عرفاں نوش کیا، ان گنت افراد نے زندگی میں صالح انقلاب برپا کیا، اس طرح ایک عالَم ان کے روشن کارناموں اور  مخلصانہ خدمات سے آج بھی درخشاں ہے اور ان شاء اللہ  تاقیامت رہے گا۔

آپ کا شمار ان علماء راسخین میں تھا، علم جن کا اوڑھنا بچھونا، درس وتدریس جن کا محبوب مشغلہ، وعظ و تذکیرجن کا مقصد حیات، اصلاح وراشاد جن کی پشتینی خدمت، ملت  مرحومہ کی رہبری و بہی خواہی جن کا سب سے بڑا تعارف ہے۔ ان کی تمام عمر علم حاصل کرنے، علم بانٹنے اور علم کا نور پھیلانے میں گزری۔ دارالعلوم وقف کی تاسیس کے بعد وہاں کی  مسندِ حدیث  پر جلوہ اَفروز رہے اور اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اسی گلشن کی آبیاری میں صرف فرمادیا، اس کے علاوہ درجنوں مدارس کی سرپرستی کی، مختلف دینی تحریکات کے بہی خواہ اور مشفق نگران رہے، ملک و بیرون ملک متعدد اسفار کے ذریعہ مسلک دیوبند کی ترجمانی کا حق ادا فرمایا۔

سوانحی نقوش:

آپ کا نام نامی :محمد سالم، والد کا نام:محمد طیب، دادا کا نام :محمد احمد اور پردادا کا نام :محمد قاسم۔  ۲۲ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ءکو ضلع سہارنپورکے معروف قصبے دیوبند میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم والد ماجد کی نگرانی میں مختلف اساتذہ سے حاصل کی، پھر۱۳۵۱ھ/ ۱۹۳۳ءمیں دارالعلوم میں داخل ہوئے اور پوری تعلیم وہیں مکمل کی۔ ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء میں شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، آپ کے معروف اساتذہ میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ، شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ، امام المعقولات علامہ ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ، محدث وقت مولانا فخر الحسن گنگوھیؒ اورشیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ  جیسی یگانۂ روزگار شخصیتوں کے نام شامل ہیں۔ علوم ظاہرہ کی تحصیل کےبعد تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن کے لیے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری سے بیعت و ارادت کا تعلق قائم کیا، اسی کے ساتھ اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ سے لیتےرہے، بالاخر انہیں کی جانب سے اجازت وخلافت سے سرفراز کیے گئے۔

آپ شکل و شباہت، عالی نسبت، شخصی وجاہت  اور حسن خطابت میں اپنے والدماجد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کاعکس جمیل تھے۔ گفتگو میں تسلسل و روانی، انداز میں متانت و سنجیدگی، الفاظ میں ندرت ونایابی، معانی میں گہرائی وگیرائی  کی وجہ سے آپ کو خطیب الاسلام جیسے بلندپایہ لقب سے سرفرازکیاگیا؛جس کے آپ بجا طور پرمستحق تھے۔

ویسےپیہم مصروفیت، مسلسل اسفاراور مختلف امراض کی بناء پر آپ کو تصنیف و  تالیف کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے کا زیادہ موقع فراہم نہ ہوسکا، تاہم مختلف عنوانات پر آپ نےبیش قیمت مقالے تحریر کئے، کتابوں کے لیے تمہیدی مقدمات اور تقریظات لکھیں، مبادیٔ التربیۃ الاسلامیۃ (عربی)، تاجدار ِ ارضِ حرم کا پیغام، مردانِ غازی وغیرہ جیسی علمی یادگاریں چھوڑیں؛جن سے ہردم استفادہ کیاجاتارہے گا۔

اوصاف وخصائل :

اکثر وبیشترعلمی خانوادے سے انتساب، بعد کی نسلوں کے لیے محض وجہ افتخار بن کے رہ جاتاہے اور  اخلاف و جانشیں، پدرم سلطان بود کے نعروں میں مست ومگن  شخصی نسبت پرمفاخرت ہی کو کل سرمایہ تصور کرنےلگتے ہیں ؛مگر حجۃ الاسلام حضرت قاسم نانوتوی ؒ کا پڑبوتا ہونے اور اس عظیم خاندان سے منسوب ہونے کےعلاوہ  آپ شخصی طورپر بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے حامل تھے، کمال علمی، تواضع و انکساری، محبت و رواداری، حوصلہ افزائی وخورد نوازی، ایثار و قربانی جیسے بے شمار اوصاف نے آپ کوعلامہ اقبال کے  اس شعر کا حقیقی مصداق بنادیاتھا   ؎

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

آپ کے خصائل کا ذکرکرتےہوئے حضرت مولانا اسلام صاحب مدظلہ لکھتے ہیں کہ "باوجود یکہ ان کے خلاف باضابطہ مہم بھی چلائی گئی، ان کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کبھی تقریر یا تحریر کے ذریعہ کسی کے خلاف بولنے کے روا دار نہیں ہوئے، نہ غیبت کرنا جانتے ہیں، نہ سننا پسند کرتے ہیں، سخت ترین مخالفین کے خلاف بھی لب کشائی نہیں فرماتے، مجلس میں ہوں تو با وقار، اسٹیج پر ہوں تو نمونۂ اسلاف، سفر میں ہوں تو مرنجا مرنج و خوش مزاج، مدارس کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، مگر سفر کے تعب و مشقت کا قطعی تذکرہ نہیں، ہر طرح کے سفر اور محنت و مشقت کے خوگر”

روشن خدمات وکمالات :

آپ جملہ علوم و فنون میں ممتاز صلاحیتوں کے مالک، بالغ نظر، بلند فکر کے حامل ہیں، علوم قاسمی کی تشریح و تفہیم میں حکیم الاسلامؒ کے بعد شاید ہی آپ کا کوئی ہم پلّہ ہو، ہمیشہ علمی کاموں کے محرک رہے، زمانۂ تدریس میں دار العلوم دیوبند میں ایک تحقیقی شعبہ مرکز المعارف کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے ذمہ دار بنائے گئے، ۱۹۹۶ء میں مراسلاتی طریقۂ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو جدید جامعات میں مصروفِ تعلیم طلباء و طالبات کے لئے آسان و قابلِ حصول بنانے کی غرض سے جامعہ دینیات دیوبند قائم فرمایا، جو کہ اُس دور کا خوبصورت ترین طریقۂ تعلیم تھا، آپ نے قرآن کریم پر ایک خاص حیثیت سے کام کا آغاز کیا، افسوس کہ یہ عظیم فاضلانہ علمی کام شورش دار العلوم کی نذر ہو گیا، آپ کے عالمانہ و حکیمانہ خطاب کا شہرہ عہدِ شباب ہی میں ملک کی سرحدوں کو پار کر چکا تھا، علم میں گہرائی، فکر میں گیرائی، مطالعہ میں وسعت، مزاج میں شرافت اور باقاعدگی، زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ فکر و بصیرت سے منور، حکمت وفلسفہ کے رنگ میں کتاب وسنت کی بے مثال تشریح و تفہیم کا ملکہ، مدلّل اسلوبِ گفتگو و صاحب الرائے، یہ وہ امتیازی کمالات ہیں جن سے آپ کی ذات مرصع و مزین ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

وفات حسرت آیات:

اب جب کہ آپ95/سال کی عمر میں دار فانی سے دار باقی کی طرف انتقال فرماچکے ہیں، مجھے رہ رہ کے ترمذی شریف کی وہ روایت یاد آرہی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:لوگوں میں سب سے بہترین شخص وہ ہے ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو“۔ ہمیں اللہ تعالی کی ذات سے امید ؛بل کہ یقین ہے کہ آپ کا شمار ضرور اس زمرے میں ہوگا اور لاکھوں تلامذہ، ہزاروں متوسلین اور  محض دعوت دین کی غرض سے اٹھائی جانے والی مشقتیں آپ کے لیے باقیات صالحات  ہوں گی اور اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔