آہ! نجیب کی ماں

عبد العزیز کیفی

کہاں سے وہ الفاظ ڈھونڈ کر لاؤں؟ جو ایک ماں کے درد کو بیان کرسکے ،کہاں سے وہ تعبیر لاؤں ؟جو ایک ماں کے غم کی عکاسی کرسکے، کہاں وہ نسخہ کیمیا تلاش کروں؟ جو ایک ماں کی اشک سوئی کرسکے ،ہمارے پاس الفاظ اور تعبیرات کا کتنا بڑا زخیرہ کیوں نہ ہو ہم ایک ماں کی اپنی اولاد کے تئیں الفت و محبت ،شفقت و ہمدردی ،ایثار و قربانی درد و غم کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے سے قاصر ہیں ایک ماں اپنے بیٹے کو جے. این. یو. دہلی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بھیجتی ہے اور مستقبل میں خوابوں کی دنیا سجانے میں لگ جاتی ہے یہی وہ وقت تھا جب زندگی بھر کے تکھن سے چور ایک ماں کو چین و سکون کے کچھ پل نصیب ہونے تھے فرحت و مسرت کے کچھ لمحات بسر کرنے تھے لیکن اس ماں کو کیا پتہ کہ اس کے یہ حسیں خواب نہیں پورے ہوسکتے ،اس ماں کو کون خبر دے کہ اس کی نیدیں حرام ہونے والی ہیں ،اس کا چین و سکون غارت ہونے والا ہے اس کا لال اس سے غائب ہونے والا ہے، اس ماں کو کیا معلوم کہ اس کے بیٹے کو اتنی بے دردی سے مارا جائے گا ،اس ماں کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ایک دن اس کا بیٹا یہ کہہ رہا ہوگا "ماں! آ مجھے یہاں سے لے چل ،ان حیوانوں کے بیچ مجھے نہیں رہنا ،یہ ماں اس بات سے بھی لاعلم تھی کہ اس کے پہونچنے سے پہلے ہی اس کا بیٹا روٹھ کر دور جاچکا ہوگا
آج تقریبا دو عشرے بیت گئے لیکن ماں کو بیٹے کی شکل دیکھنا نصیب نہیں ہوا دہلی پولیس اتنے دنوں سے ایک بیٹے کو نہ ڈھونڈ سکی وہیں بھوپال میں فرار 8 قیدیوں کو پکڑ کر انکاؤنٹر بھی کردیتی ہے آزاد ہندوستان میں یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں ،ایک نوجوان بیٹا جب ماں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تو اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی اس درد و غم کو ہم اور آپ نہیں محسوس کرسکتے اور نہ ہی اس کو اپنے پیمانے میں ڈھال سکتے
پہلے بیٹا سنگھیوں کے ظلم سے تڑپا پھر ماں کو درد و کرب کے دریاؤں کو عبور کرنا پڑا آزاد ہندوستان میں ایک ماں یہاں تک کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے "مجھے میرا بیٹا لوٹا دو میں اسے یہاں سے لیکر دور چلی جاؤں گی مجھے اپنے بیٹے کو یہاں نہیں پڑھانا”
ابھی بیٹے کے غائب ہونے کا غم ستا رہا تھا ،اس کی واپسی پر نظریں بچھائی بیٹھی تھی ،بیٹے کو ایک نظر دیکھنے کے لیے رات ودن کے چین و سکون کو بالائے طاق رکھ کر ظلم کے خلاف آواذ اٹھا رہی تھی لیکن اب جو ہوا وہ حیطہ بیان سے باہر ہے ایک ماں کو دہلی کے سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے ،ایک چیختی چلاتی ماں کو زبردستی گھسیٹ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ،ایک ماں جو پرسکون زندگی کی تلاش میں تھی ،جو اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجائے بیٹھی تھی ظالموں نے اس کی پوری زندگی درد و الم کے نام لکھ دیا ،ظالموں نے یہ نہیں دیکھا کہ ماں کتنی ضعیف ہے ،ظالموں نے اس پر غور نہیں کیا کہ ماں کے غم کو بڑھانے کے بجائے اس کو ہلکا کیا جائے ،تف ہے تمہاری جمہوریت پر جہاں ایک ماں کو انصاف نہ مل سکے ،تف ہے تمہارے سیکولرزم پر جہاں ایک ماں تڑپ رہی ہے ،تف ہے تمہارے بے حسی پر ،تف ہے حقوق خواتین کے نعرہ ذی شان پر ،تف ہے تمہاری انسانیت پر کہ ایک ماں کے درد کو نہ سمجھ سکے ،
یاد رکھو ظالمو ! ماں کی دعا اور بدعا دونوں بہت مؤثر ہوتی ہے اگر ایک ماں کی بدعا تمہں لگ گئی تو تمہاری یہ شان و شوکت ،جاہ و حشمت دھری کی دھری رہ جائے گی تمہارا یہ غرور وتکبر ہی ایک دن برا خواب بن کر تمہیں ڈسے گا ظالم مسلم خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اسے ماں کے آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو نظر نہیں آئے ،ماں کے درد و غم کو محسوس نہ کرسکا اب کس حقوق کی بات کررہے ہو
مجھے جو بات کہنی ہے وہ یہ کہ اس ماں کو اس نظریے سے مت دیکھو کہ وہ نجیب کی ماں ہے بلکہ وہ صرف ایک ماں ہے ماں کوئی بھی ہو مسلم ہو ،ہندو ہو ماں تو ماں ہوتی ہے اس کا ممتا تو ہر بیٹے کے لیے یکساں ہوتا ہے بہت افسوس ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ مسلم تنظیمیں ہر مسئلے پر اپنی رائے رکھتی ہیں لیکن اس ماں کے زخم پر مرحم لگانے کو کوئی تیار نہیں ،اس ماں سے یہ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ کے آنسو کیوں خشک ہوگئے ،اس جسم ناتواں کو کوئی سہارا دینے والا نہیں مسلم قوم کی بے حسی آج کے ہندوستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ گھر دوسرے کا جل رہا ہے ہم کیوں بجھائیں ،عصمتیں کسی اور کی لٹیں ہم کیوں آواز اٹھائیں ،بیٹا کسی اور کا غائب ہو ہم کیوں افسوس کریں ،ماں کسی اور کی آہئیں بھرے ہم کیوں تڑپیں ،کل روہت ویمولا کی ماں ظلم و ستم کا نشانہ بنی ،آج نجیب کی ماں چیخوں اور آہوں کی مجسم پیکر بنی ہوئی ہے اسی طرح مستقبل میں نہ جانے کتنی ماؤں کی زندگیاں عبارت ہونے والی ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔