ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!

ڈاکٹر عابد الرحمن

تریپورہ میں کمیونسٹوں کے پچیس سالہ دور اقتدار کو ختم کر نے بلکہ وہاں ان کی نمائندگی کو بھی تقریباً پوری طرح صاف کر دینے، میگھالیہ میں خود محض دو سیٹیں جیت کر اکیس سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری کانگریس کوگٹھ جوڑ کی سیاست کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دینے اور اسی طرح ناگالینڈ میں ایک غیر اتحادی جماعت کی ستا پلٹنے کے بعد بی جے پی لوک سبھا ضمنی انتخابات میں بری طرح ہار گئی۔ وہ اپنے مضبوط بلکہ ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے گڑھ گورکھپور میں اپنی سیٹ بھی نہیں بچا سکی اور بہار میں لالو کی راشٹریہ جنتا دل کی خالی سیٹ بھی اس سے چھین نہیں سکی جبکہ اس بار نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹیڈ اس کی حلیف تھی۔ حالانکہ بی جے پی نے یہاں اچھی بلکہ جان توڑ محنت کی تھی ووٹرس کو لبھانے کا کوئی کام باقی نہیں رکھا تھا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد خاص طور سے گورکھپور میں تو یوگی جی نے کافی سارے ترقیاتی پروجیکٹس شروع کروائے ہیں اور آخری حربہ فرقہ واریت کا بھی خوب آزمایا تھا۔

ویسے بھی بی جے پی سرکار آنے کے بعد سے یوپی ہی کیا پورے ملک میں فرقہ واریت کا ننگا ناچ برابر جاری ہے اور اسے مختلف حوالوں سے جاری رکھنے کا سامان بھی کیا جارہا ہے جیسے ہی یہ ماحول ٹھنڈہ ہونے لگتا ہے کسی نہ کسی طرف سے کوئی نہ کوئی متنازعہ بیان داغ دیا جاتا ہے اور حالات پھرویسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے تھے۔ خود و زارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد بڑھا ہے جو پچھلے چار سالوں میں سب سے زیادہ ہے اور اس میں یوپی سر فہرست ہے جہاں 44،افراد ہلاک اور 540 افراد زخمی ہوئے ہیں یہ آنکڑے 2016 میں بالترتیب 22اور 510 تھے ( این ڈی ٹی وی آن لائن 14،مارچ 2018 ) اس ماحول کو انتخابی طور پر کیش کر نے کے لئے انتخابات سے کچھ ہی پہلے وزیر اعلی یوگی جی نے کہا تھا کہ وہ ہندو ہیں اور عید نہیں مناتے۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔

 گورکھپور اور پھولپور کی دونوں سیٹیں بی جے پی کے پاس تھیں جو یوگی ادتیہ ناتھ اورکیشو پرساد موریہ کے بالترتیب وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ بننے کی وجہ سے خالی ہوگئی تھیں ۔ گورکھپور تو ویسے بھی بی جے پی کا مضبوط ترئن قلعہ تھا جہاں 1991سے بی جے پی امیدوار ہی منتخب ہوتے آئے ہیں یوگی جی مسلسل پانچ مرتبہ وہاں سے رکن لوک سبھا رہ چکے ہیں لیکن اب وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی وہ وہاں سے اپنے نمائندے کو منتخب نہیں کرواسکے۔

 ان انتخابات میں بی جے پی ہاری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ نقصان کانگریس کا ہوا ہے جو آنکڑے اخباروں میں آرہے ہیں ان کے مطابق کانگریس کو پچھلے لوک سبھا انتخابات کے مقابلہ اس بار دونوں حلقوں میں اپنے ووٹوں میں تقریباً ۶۰ فیصد کا نقصان اٹھانا پڑا اور دونوں جگہ اس کے امیدوار اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے۔ لیکن کانگریس صدر راہل گاندھی نے کہا کہ ان نتائج سے صاف ہو گیا کہ ووٹرس میں بی جے پی کے خلاف سخت غصہ ہے۔ جبکہ آنکڑوں کے مطابق ان انتخابات میں بی جے پی کا ووٹنگ فیصد گھٹا توہے لیکن اتنا نہیں گھٹا کہ اسے آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اس کی ہار کی شروعات مان لیا جائے بلکہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہاں بی جے پی ووٹنگ فیصد کم ہونے کی وجہ سے ہاری،یعنی لوگوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ ہے لیکن اتنا نہیں جتنا اس کی شکست کے لئے درکار ہے۔ یہاں بی جے پی کی ہار کی سب سے بڑی وجہ دراصل بی ایس پی کا الیکشن نہ لڑنا اور سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کرنا یہی نہیں بلکہ ان کے لئے زمینی لیول پر کام کرنا اور اپنا سارا ووٹ اس کے حق میں کامیابی سے ٹرانسفر کروانا ہے۔

اس جیت کے لئے مبارکباد کی جتنی مستحق سماج وادی پارٹی ہے اس سے زیادہ حقدار بی ایس پی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی جہاں کہیں فتح یاب ہوتی ہے زیادہ تر اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہوتی ہے اور 2014کے بعد سے جہاں کہیں ہاری زیادہ تر اپنے مخالف ووٹوں کے اتحاد کی وجہ سے ہاری۔ لیکن اس کے مخالفین کا یہ اتحادگھانس پھونس کی دیوار کی طرح نازک ہوتا ہے جو کسی بھی رخ سے آنے والے ہوا کے معمولی جھونکے سے بکھر جاتا ہے۔

یوپی میں اس سے پہلے بھی ایس پی اور بی ایس پی کا اسی طرح کا اتحاد اس وقت بی جے پی کو شکست دے چکا ہے جب 2014 پارلمانی انتخابات کے فوراً بعد مودی لہر انتہائی مضبوط تھی اس وقت بی جے پی کے جو ایم ایل اے لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے تھے ان کی خالی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو دس میں سے صرف تین سیٹوں پر ہی کامیابی مل پائی تھی صرف اور صرف اس لئے کہ اس وقت بھیہ بی ایس پی نے انتخابات نہیں لڑے تھے۔ لیکن پچھلے سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں اس طرح کے اتحاد کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہوسکا اور بی جے پی مخالف ووٹ جو مجموعی طور پر اس کو ملنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے ان کی ان دونوں پارٹوں میں تقسیم کی وجہ سے بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ میڈیا کے اعدادو شمار کے مطابق پچھلے لوک سبھا انتخابات میں بھی کم از کم پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کو ملے ووٹ ایس پی اور بی ایس پی کو ملے مجموعی ووٹوں سے کم تھے یعنی ان جگہوں پر بی جے پی اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہاری تھی، حالانکہ اس وقت بھی گورکھپور میں یوگی جی کو ان دونوں پارٹیوں کے مجموعی ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوسکا اور اس میں اتحاد کے علاوہ کچھ ذات کی مساوات کا رول بھی کار فرما ہے۔

 یعنی اب بھی اگر یہ دونوں پارٹیاں یوپی کی صوبائی سیاست کو دور رکھ کر کم از کم لوک سبھا انتخابات کی حد تک ہی کوئی معقول اور متوازن فارمولے پر اتحاد کرلیں تو اگلے لوک سبھا انتخابات میں پورا یوپی بی جے پی کے لئے گورکھپور اور پھولپور ہو سکتا ہے۔ اور اگر کانگریس اپنی انا کے بت کو توڑ کر بی جے پی مخالف علاقائی پارٹیوں کو ان کے حق کے مطابق بھر پور حصہ داری دے کر ایک ساتھ لا نے اور ایک ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوگئی تو بی جے پی کے لئے سارا ملک گورکھپور ہوسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔