اب اپنے پاس دعا کے سوا کچھ اور نہیں!

حفیظ نعمانی

 پچاس ساٹھ سال پہلے مسلمانوں میں طلاق کے واقعات اتنے نہیں ہوتے تھے جتنے اس کے بعد ہونے لگے اور اگر کوئی طلاق کا واقعہ ہوتا بھی تھا تو اس کا ڈھول نہیں بجتا تھا اور نہ عورتیں اتنی بے لگام تھیں کہ وہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور حد یہ ہے کہ ہندو مہاسبھا کے دفتر میں جاکر فریاد کریں کہ ہمیں تین طلاق کی مار سے بچایا جائے۔ عام طور پر اگر کوئی اختلاف ہوتا تھا تو یا لڑکی مائیکے بیٹھ جاتی تھی یا بہو کو سسرال میں روک لیا جاتا تھا۔ اور پھر جیسے تیسے یا حالات ٹھیک ہوجاتے تھے یا علیحدگی کرادی جاتی تھی۔

طلاق کو وباء کی شکل تو سنیما نے دی۔ سنیما ہندو دھرم کی داستانیں دکھاتے دکھاتے اور سناتے اسلام پر بھی آگیا اور ایسا اسلام پیش کردیا جو دیکھنے والوں کو اچھا لگے۔ اگر جماعت کی نماز دکھائی تو ایک ایک نمازی ایک دوسرے سے اتنی دور کھڑا ہے جتنی دور آر ایس ایس کی شاکھا میں کارسیوک کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور یہ سنیما کی ہی دین ہے کہ جاہل اور وہ مسلمان جو بے دین ہیں انہوں نے اسے اپنا لیا۔ اور وہ جو ہر بات کے لئے مسجد یا محلہ کے مولوی صاحب سے معلوم کرتے تھے کہ کیا کیا جائے؟ وہ وہی کرنے لگے جو سنیما کے ہیرو نے کیا تھا کہ طلاق۔ طلاق۔ طلاق۔

1958ء کی بات ہے کہ ہمارے ایک بہت پیارے دوست جو ندوہ میں بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ خبر ملی تو ہم بھاگے ہوئے گئے اور تفصیل معلوم کی تو یہ نکلی کہ شادی کے وقت وہ سسرال جو ان کی طرح ہی خوشحال تھی ان کا کام فیل ہوگیا اور روٹی کے لالے پڑگئے۔ ہمارے دوست نے اپنی جیسی مدد کی اور بار بار کی۔ پھر انہیں محسوس ہوا کہ شیروانی کی جیب سے یا اور کہیں رکھیں تو روپئے کم ہوجاتے ہیں ۔ بیوی سے معلوم کیا تو اس نے ہنس کر کہہ دیا کہ آپ بھول جاتے ہوں گے۔ پھر انہیں شبہ ہوا کہ بیوی چھپاکر اپنے گھر کی مدد کرتی ہے اور ایک دن وہ وقت سے پہلے دُکان سے آگئے تو ڈیوڑھی میں چھوٹی سالی جاتی ہوئی ملی جس کی مٹھی بند تھی۔ اس نے دیکھا تو ڈر گئی اور جب سختی سے معلوم کیا کہ مٹھی میں کیا ہے؟ تو اس کے اندر سے 20  روپئے نکلے۔

اور یہ چھوٹی سی بات اس لئے بڑھ گئی کہ بیوی نے پھر بھی اقرار نہیں کیا کہ وہ اپنے گھر کے لئے شوہر کی چوری کرتی ہے اور بات طلاق پر ختم ہوئی۔ لیکن تین طلاق ضرور تھیں مگر گالی اور گولی کی طرح نہیں ۔ اس کے بعد گھر کے بڑوں نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ اگر شرعی طلاق وہ دی جاتی تب بھی ہمارا اندازہ ہے کہ مصالحت اس لئے نہ ہوتی کہ یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی۔ اور شبہ کافی دنوں سے تھا۔ بیوی جس کی تردید کرتی رہی اور یہ کوئی نہیں برداشت کرسکتا کہ رات دن محنت کرکے کوئی کمائے اور وہ بیوی جسے پائی پائی کی حفاظت کرنا چاہئے تھی وہی چوری کرے؟

2000ء کے آس پاس کمیونسٹ پارٹی چھوڑکر آنے والی یا وہاں سے نکالی جانے والی ایک خاتون شائستہ عنبر نے مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ بنالیا۔ وہ پرسنل لاء جس کے لئے دین کا پورا علم اور اپنے ملک کے قانون کے پورے علم کے ساتھ تجربہ بھی ضروری ہے اس کی صدر ایک ایسی خاتون بن گئیں جو پردہ تو کیا کرتی سر پر دوپٹہ بھی نہیں رکھتی تھیں ۔ شروع میں لوگوں نے مذاق سمجھا لیکن ایک دن دیکھا کہ ٹی وی اور اخبارات کے رپورٹروں کی بھیڑ ہے اور چالیس۔ پچاس بچیاں رحل پر رکھ کر کلام پاک یا سیپارے پڑھ رہی ہیں اور ان کی انگلی عربی کے حساب سے داہنے سے بائیں نہیں بلکہ بائیں سے داہنے جارہی ہیں کہ ان کے سامنے قرآن شریف ہے اور اسے ہندی کی طرح پڑھ رہی ہیں اور صرف مکھیوں کے بھنبھنانے کی آواز آرہی ہے اور جو نمائندے ہیں وہ سب ہندو ہیں انہوں نے بس یہ دیکھ لیا کہ شائستہ عنبر دینی تعلیم دے رہی ہیں اور خواتین پرسنل لاء بورڈ بن گیا۔ بورڈ جس میں کم از کم 9  ممبر ہوں۔

اس کے بعد وہ ہر چینل میں بلائی جانے لگیں اور دین کو جتنا گندہ کرسکتی تھیں کرنے لگیں اور ان کو دیکھ کر ہی جتنی بدکردار، بدچلن اور آزاد خیال فیشن ایبل لڑکیاں تھیں وہ ان کی رہنما بن گئیں ۔ ابتدا میں شہرت ہوئی تو ذکیہ جعفری اور مقبرہ کی عابدی جیسی خواتین بھی ساتھ آئیں لیکن جب انہوں نے شائستہ کو قریب سے دیکھا تو لاحول پڑھ کر واپس چلی گئیں ۔ لیکن اللہ جانے یہ کس شیطان کا مکھوٹہ ہے کہ اب سپریم کورٹ میں بھی کہا گیا کہ جیسے ہندو کو ڈبل بنا ہے ایسا ہی مسلم کوڈ بل بننا چاہئے اور حیرت ہے کہ اسے دماغی علاج کے لئے کہیں بھیجنے کے بجائے اس کا ذکر ہوتا ہے اور اب جو مہار عورتیں تین طلاق کا جھنجھنا ہاتھوں میں لئے غول کے غول اس نیتا سے اس نیتا کے دربار کے چکر لگارہی ہیں یہ اس دماغی مریضہ والے مرض میں مبتلا ہوگئی ہیں اور شائستہ نے ہی یہ ماحول بنایا ہے جیسے آج ہر گھر میں صرف طلاق ہورہی ہے اور کچھ نہیں ہورہا ہے۔ جبکہ اس کی بھی کوئی تصدیق نہیں ہوئی کہ عنبر بہرائچی صاحب نے اس عذاب سے نجات پانے کے لئے اسے طلاق دی کہ نہیں ؟

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اب ہندوستان میں لڑکیوں کے بھی دینی مدارس کھل گئے ہیں اور اب ہر شہر میں عالمہ لڑکیاں مل جائیں گی جنہوں نے اسلام کے قانون کی سب سے معتبر کتاب ہدایہ کی دونوں جلدیں پڑھی ہوں گی اور آخری سال میں حدیث شریف کی وہ سب کتابیں پڑھ لی ہوں گی جن کے بعد عالمہ کی سند دی جاتی ہے۔ اگر کسی مسلمان بیٹی یا بہو کو کوئی مسئلہ معلوم کرنا ہو اور مردوں سے کہنے میں حجاب ہو تو ان سے رجوع کریں ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے خواتین سیل قائم کیا ہے۔ اس میں وہی عالمہ خواتین اور اپنے ملک کے قانون کی ماہر خواتین کو رکھا ہے اور خواتین پرسنل لاء بورڈ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ ہے۔

شائستہ ایک فتنہ ہے اور ایسا فتنہ ہے جس نے ایسی عورتوں کو ساتھ لے لیا ہے جیسی عورتوں نے مقدمہ لڑکر ہائی کورٹ سے ممبئی کے سمندر کے  اندر بنی حاجی علی درگاہ کے اندر مردوں کی طرح دن ہو یا رات ہو ہر جگہ جانے کی اجازت لے لی ہے۔ ہائی کورٹ نے بس ایک بات پکڑلی ہے کہ جو حق مردوں کا ہے وہی عورتوں کا ہے۔ اس طرح کی عورتیں ہر مندر میں جارہی ہیں کہ ہمیں تین طلاق سے بچائو۔ اور یہ وہ طلاق ہے جو مسلمانوں میں ہر دھرم کے مقابلہ میں سب سے کم ہے۔ اب مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنا موقف تو اسی وقت سامنے لائے گا جب سپریم کورٹ کوئی فیصلہ سنا دے۔ آثار تو ایسے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی عدالت کے چکر میں الجھا دیا جائے گا اور وکیلوں کی آمدنی کا ایک ذریعہ اور ہوجائے گا۔ ہم ہندوستان میں ہیں اور ملک کے قانون کے پابند ہیں لیکن ہمارے سامنے ایک واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ میں کسی نے ایک وقت میں تین طلاق دیں اس خبر سے چہرئہ انور سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ ابھی میں موجود ہوں اور یہ ہوگیا؟ ایک صحابی نے عرض کیا حکم ہو تو میں جاکر اس کی گردن مار دوں ؟ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ یہ ایک طلاق مانی جائے۔ اور حضرت عمرؓ کے سامنے جب ایک ہزار طلاق دینے والا پیش ہوا تو اسے کوڑا تو مارا مگر تین طلاق مانی گئیں ۔ اب اگر حکومت کوئی تبدیلی کرتی ہے تو پھر ذمہ داری مسلم پرسنل بورڈ پر ہی آئے گی جس کے بارے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ بورڈ میں اب ایک بھی عالم نہیں ہے اور وہ جو چار کتابیں پڑھ چکے ہیں وہی عالم ہیں جب ملت ایسے دانشوروں کے چنگل میں پھنسی ہو تو جو بھی ہوجائے وہ کم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔