تو کیا سیاست چھوڑ دیں گے کیجریوال؟

ڈاکٹر قمر تبریز

کبھی انا ہزارے کے سب سے عزیز شاگرد رہے اروِند کجریوال کی ’ایمانداری‘ آج سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ وہی انا ہزارے، جو آج بھی یہی کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی ملک و قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔ انا ہزارے، جو مہاراشٹر کے رالے گن سدھی میں ایک مندر میں رہتے ہیں ، اس لیے کہ ان کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے۔ مندر کے جس کمرے میں وہ رہتے ہیں ، وہ ایئرکنڈیشنڈ ہے، پھر بھی دعویٰ یہی ہے کہ وہ غریب ہیں ۔ انا ہزارے ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں ، لانڈری میں دھلوایا ہوا کاڑھے کا کرتا اور دھوتی پہنتے ہیں ۔ لاکھوں کی گاڑی سے چلتے ہیں ۔ ایک باورچی ہمیشہ ان کے ساتھ چلتا ہے، انھیں کھانا پکاکر دینے کے لیے۔ تو یہ ہے ہندوستان کے نام نہاد ’دوسرے گاندھی‘ انا ہزارے کی غریبی کی سچائی، جو اتنے معصوم ہیں کہ جب ان سے ایک بار صحافیوں نے گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں پوچھا تھا، تو انھوں نے بھری محفل میں جواب دیا تھا کہ انھیں اس کا علم نہیں ہے۔

انہی ’گاندھی وادی‘ انا ہزارے کے سب سے عزیز شاگرد اروِند کجریوال نے ہندوستا ن میں پہلی بار ’ایماندار‘ سیاست کا آغاز کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان دونوں استاد و شاگرد کے بڑے بڑے دعووں سے دنیا اس قدر مسحور ہو گئی تھی کہ سب کو لگنے لگا تھا کہ واقعی اب ملک میں بدعنوانی کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی جنگ لڑی جانے والی ہے۔ لیکن، آج ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ایک خواب دیکھ رہے تھے، جو آنکھ کھلتے ہی جھوٹا ثابت ہو گیا۔ انا ہزارے کا ڈرامہ تو سب نے دیکھا۔ اگر ان کے بے نامی کھاتوں کی جانچ کی جائے تو بہت سے نئے انکشافات ہو سکتے ہیں ، کیوں کہ ’لوک پال‘ تحریک کے وقت ملک و بیرونِ ملک سے اربوں کھربوں روپے مختلف ذرائع سے ان کے پاس پہنچے۔ یہ الگ بات ہے کہ انا ہزارے ان پیسوں سے خرد برد کا الزام اپنے ہی سب سے عزیز شاگرد اروِند کجریوال پر لگاتے رہے ہیں ، لیکن ان کے اس الزام کی ابھی تک نہ تو کسی سرکاری ایجنسی نے اور نہ ہی کپل مشرا جیسے کسی نیتا نے جانچ کی ہے۔ اس کے علاوہ جس ’لوک پال تحریک‘ کو لے کر انا ہزارے دہلی کے رام لیلا میدان میں اَنشن پر بیٹھے، تہاڑ جیل بھی گئے، پچھلی یوپی اے حکومت کے دوران پارلیمنٹ سے ’لوک پال بل‘ پاس ہو جانے کے بعد اپنا اَنشن توڑ دیا اور واپس رالے گن سدھی چلے گئے، آج تک مودی حکومت نے کسی کو لوک پال مقرر نہیں کیا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو پھٹکار بھی لگائی ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن کے نہ ہونے کا بہانہ نہیں چلے گا، بلکہ اس کی غیر موجودگی میں ہی کسی کو لوک پال کے عہدہ پر فوراً فائز کیا جائے۔

تو، ایک طرف یہ ڈرامہ تھا، جو ہم نے دہلی کے جنتر منتر سے لے کر رام لیلا میدان تک تھا۔ اس کے بعد اروِند کجریوال کو لگا کہ دھرنا اور اَنشن سے کام چلنے والا نہیں ہے، بلکہ سیاست میں شامل ہو کر ہی بدعنوانی کے خلاف لڑائی کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، انھوں نے عام آدمی پارٹی کے نام سے جیسے ہی ایک نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کیا، استاد روٹھ گئے۔ شاگرد نے اپنے کئی ساتھیوں کو رالے گن سدھی بھیج کر استاد کو منانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہیں مانے۔ بعد میں اصلیت کا پتہ چلا کہ یہ استاد اور شاگرد کی لڑائی نہیں تھی، بلکہ آئڈیالوجی کی لڑائی تھی۔ لوک پال اور بدعنوانی مخالف تحریک میں آر ایس ایس اور کمیونسٹ نظریات کے حامل افراد بڑی تعداد میں شامل ہو گئے تھے۔ کجریوال کے لیے ان تمام نظریات کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ رام لیلا میدان کے بعد جن لوگوں نے انا ہزارے کو لے کر پورے ہندوستان کا دورہ کیا، اس کا بھی ایک ہی مقصد تھا کہ کس طرح بی جے پی کے حق میں ووٹروں کو صف بند کیا جائے۔ اسی لیے، جن جن مقامات پر انا ہزارے پہلی بار گئے، وہاں آر ایس ایس کارکنوں نے ان کے لیے بڑی بڑی ریلیاں منعقد کیں اور آخرکار 2014 کے الیکشن میں اس کا سیدھا فائدہ نریندر مودی کو ہوا۔

کجریوال یہ سب دیکھ رہے تھے، اس لیے جب انا ہزارے نے ان سے کنارہ کشی کی، تو اس کا بہت زیادہ افسوس انھیں نہیں ہوا۔ لیکن، آر ایس ایس اور کمیونسٹ نظریات کے حامل افراد کی چھنٹائی کرنے کے بعد کجریوال کی ’ایماندار‘ ٹیم میں جو لوگ بچ گئے تھے، ان کا دامن بھی بے داغ نہیں تھا۔ اب چاہے وہ سنجے سنگھ ہوں یا پھر کمار وشواس، ان کو لے کر پارٹی کے اندر ہمیشہ تنازع بنا رہا۔ دہلی کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اروِند کجریوال پر بھی پارٹی لیڈر اور کارکنان کے ذریعے ڈکٹیٹرشپ کا الزام دبی زبان لگایا جاتا رہا۔ کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کجریوال کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے کانگریس میں سونیا اور راہل گاندھی کے خلاف، بی جے پی میں نریندر مودی اور امت شاہ کے خلاف، بی ایس پی میں مایاوتی کے خلاف، ترنمول کانگریس میں ممتا بنرجی کے خلاف آواز اٹھانے کی کسی لیڈر یا کارکن میں ہمت نہیں ہے، بھلے ہی یہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت ہونے کا کتنا ہی دعویٰ کر لیں ۔ اس کا لائیو ڈرامہ ہم نے ابھی حال ہی میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے دوران سماجوادی پارٹی کے اندر چچا بھتیجے کی لڑائی کی شکل میں دیکھا۔ یہ ڈرامہ بی جے پی اور کانگریس کے اندر بھی چلا، لیکن اس کی شدت سماجوادی پارٹی سے کم رہی، اس لیے کسی نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔

اس کے بعد، حال ہی میں دہلی میں ایم سی ڈی انتخابات ہوئے۔ اس کے نتائج نے عام آدمی پارٹی کے تمام دعووں پر پانی پھیر دیا۔ اس سے ٹھیک پہلے پنجاب کے اسمبلی انتخابات میں بھی امید کے مطابق رزلٹ نہ آنے پر، پوری پارٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) پر ہی سوال کھڑے کرنے شروع کر دیے تھے۔ اور جب ایم سی ڈی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، تو ای وی ایم مشین پر عام آدمی پارٹی کے حملے مزید تیز ہوتے چلے گئے۔ ایک طرف، نریندر مودی کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت اور دوسری طرف اروِند کجریوال کی مقبولیت کا گرتا گراف۔ ظاہر ہے، آج ہم جو لڑائی کپل مشرا اور اروِند کجریوال کے درمیان دیکھ رہے ہیں ، یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں ، ملک و بیرونِ ملک میں ایک بڑا طبقہ اب بھی ایسا ہے، جو یہ سوچتا ہے کہ مودی کا متبادل ہندوستان میں اگر اس وقت کوئی ہے، تو وہ ہے اروِند کجریوال۔ لیکن، ماہر کھلاڑی وہی ہوتا ہے، جو اپنے حریف کی ہر چال کو ناکام کردے، اس کے ہر داؤ کو پلٹ دے۔ مودی کافی دنوں سے یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ اگلے 25-30 برسوں تک وہی ہندوستان کے وزیر اعظم رہیں گے۔ اس لیے، وہ بھلا کجریوال کی مقبولیت میں اضافہ کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دہلی کی کجریوال حکومت کو جتنا پریشان کیا، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مودی کو راہل گاندھی سے اتنا خطرہ نہیں ہے، جتنا کہ کجریوال سے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کپل مشرا کا جو ایپی سوڈ ہم ابھی دیکھ رہے ہیں ، وہ اسی اسکرپٹ کا ایک حصہ ہو۔

لیکن، آج کپل مشرا نے چیخ چیخ کر جو یہ دھمکی دی کہ اگر کجریوال شام تک استعفیٰ نہیں دیتے ہیں ، تو وہ ان کی گردن کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے تہاڑ جیل کے اندر لے جائیں گے۔ حالانکہ، یہ کہتے ہی وہ خود بیہوش ہوگئے، جس کے بعد انھیں اسپتال میں بھرتی کرایا گیا ہے۔ لیکن، کیا اس دھمکی اور کجریوال کے خلاف ثبوتوں کے انکشاف سے واقعی میں کوئی نتیجہ نکلنا والا ہے؟ لگتا تو نہیں ہے۔ کیا کبھی سہارا کی اس ڈائری کی جانچ ہوئی ہے، جس کے بارے میں گزشتہ دنوں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے نریندر مودی نے سہارا کمپنی سے کروڑوں روپے کی رشوت لی تھی؟ کیا ہریانہ میں بی جے پی کی سرکار بننے کے بعد سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کی ان تمام جائدادوں کو ضبط کیا گیا ہے، جس کے بارے میں بی جے پی کا دعویٰ ہوا کرتا تھا کہ مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت کے دوران غیر قانونی طریقے سے رابرٹ واڈرا کو مالی فائدہ پہنچایا گیا؟

ہاں ، اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ اروِند کجریوال اب وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیں اور تب تک دوبارہ اس عہدہ پر نہ لوٹیں ، جب تک وہ تمام الزامات سے بری نہیں ہو جاتے۔ ویسے خبریں آ رہی ہیں کہ وہ جلد ہی استعفیٰ دینے والے ہیں ۔ ان کے غائبانہ میں ان کی بیوی دہلی کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھال سکتی ہیں ، ٹھیک ویسے ہی، جیسے لالو یادو نے کبھی رابڑی دیوی کو بہار کا وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ لیکن، یہ سب تبھی ہوگا، جب عام آدمی پارٹی زندہ رہے گی، کیوں کہ پارٹی کے اندرونی ذرائع سے خبریں مل رہی ہیں کہ دو درجن سے زیادہ ایم ایل اے عام آدمی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھامنے والے ہیں ۔ یعنی، چند ہفتوں قبل امانت اللہ خان نے کمار وشواس کو لے کر جو الزام لگایا تھا، وہ الزام اگلے کچھ دنوں میں شاید سچ ثابت ہو جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔