کٹ پتلی اور وقت گذاری کا عمل کب تک؟

الطاف حسین جنجوعہ

8/مئی کو گرمائی دار الخلافہ سرینگر میں اگلے چھ ماہ کے لئے دربار موؤ دفاتر کے کھلنے کے پہلے روز وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے میڈیا افراد سے بات چیت کے دوران جو بیان دیا اس سے انہوں نے ایک تیرسے دو  نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف انہوں نے وادی کشمیر کے اطراف واکناف میں پائی جارہی عوامی بے چینی اور نوجوانوں کے غم وغصہ کو ٹھنڈا کر کے کچھ حد تک ہمدردی حاصل کرنے کی سعی تو وہیں دوسری اور جموں وکشمیربھارت کی ’روح وجان‘قرار دیکر نئی دہلی سرکار کی کرم نوازیوں کا حق بھی ادا کیا۔

 اُن کے اس بیان پر زعفرانی رنگ بھی نظر آیاجن کا موقف ہے کہ ’کشمیر جموں وکشمیر کا اٹوٹ انگ ہے‘۔ وزیر موصوفہ نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جموں وکشمیر کو ہندوستان کی ’روح وجان‘قرار دیا۔ ساتھ ہی موصوفہ نے نیشنل کانفرنس جماعت جوکہ جموں وکشمیر ریاست میں اب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ مدت تک برسراقتدار رہی ہے، کی قیادت پر طعنہ کستے ہوئے کہاکہ 22سالہ تحریک رائے شماری چلانے کے خاتمہ بھی بالآخر ’اندرا۔عبداللہ‘ایکارڈ ہوا ‘۔ اگر چہ محبوبہ مفتی نے جوکہااس میں کچھ نیا پن نہ تھا ، آج تک اقتدار میں جتنے بھی وزرا ء اعلیٰ آئے ہیں چاہئے وہ فاروق عبداللہ ہوں ،مفتی محمد سعید، عمر عبداللہ ہوں یا اب محبوبہ مفتی ہوں ،ایسے بیانات کئی مرتبہ سننے کو ملے لیکن دلچسپ ہے کہ یہ بیانات صرف کئی خاص و اہم مواقعوں پر دے کر صرف چند عارضی مقاصد کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہی محبوبہ مفتی نے بھی کیا۔ خاص طور سے عمر عبداللہ اور اب محبوبہ مفتی کے بیانات کا موازنہ کیاجائے تو دونوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے درد بھی دکھا،شدت بھی نظر آئی اور حقیقت کا بھی بعض اوقات برملا اظہار بھی ملالیکن یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ جو بھی کریں ، کہیں ان کی چلنے والی نہیں ۔

جموں وکشمیر ریاست کے حوالہ سے وہی ہورہاہے، ہوگا جونئی دہلی چاہئے گی۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھاجپا سے ناطہ قائم کرنے کے بعد کئی مرتبہ اتحادی جماعت کی مرکزی قیادت کی توجہ مسئلہ کشمیر کے تئیں آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان اور اعلیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا دور شروع کرنے کی وکالت کی لیکن ہر بار انہیں منہ کی کھانی پڑی۔کٹرہ میں نرائین سپرسپیلشٹی اسپتال کے افتتاح ہو یا پھر چننی ۔ناشری ٹنل کا افتتاح، وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے بیان میں مسئلہ کشمیر کی طرف وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی توجہ مبذول کرانا چاہی تو مود ی نے اس کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی تقریر کو ایک الگ انداز میں ہی پیش کیا۔ پچھلے دو برسوں کے دوران محبوبہ مفتی کے قول وفعل پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین انہیں کمزور وزیر اعلیٰ سمجھتے ہیں کیونکہ موصوفہ کئی معاملات پر نہ تو نئی دہلی کو منانے میں زرا بھر کامیاب ہوئی اور نہ ایجنڈہ آف الائنس ، کی عمل آوری میں اپنی اتحادی جماعت کی ریاستی قیادت کو ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ محبوبہ مفتی نے قولاًفعلاً وزیر اعلیٰ کی کرسی کی افادیت، اہمیت کو کمزور ترین بنادیاہے، وہ محض وزیر اعلیٰ کی کرسی پرہیں لیکن حکومتی وانتظامی کنٹرول تو بھاجپا مرکزی قیاد ت کے پاس ہے جوکہ اپنے ایجنڈہ کو صاف وشفاف طریقہ سے عملارہی ہے تو دوسری اور پی ڈی پی اپنے وعدوں کو بھول گئی ہے کیونکہ موجودہ حالات وواقعات میں اس کی کوئی بات مان لی جائے ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس وقت پی ڈی پی صرف ایک بیساکھی کا کام کر رہی ہے جس کا سہارا لیکر بھاجپا اپنا زعفرانی رنگ بکھیرنے میں ہمہ وقت سرگرم ہے۔

انتظامی کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے بھاجپا نے بھار ت بھوشن ویاس (IAS)کو جموں وکشمیر کا چیف سیکریٹری بنایاگیا ہے جن کا تعلق گجرات ریاست سے ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ بھاجپا قومی صدر امت شاہ ودیگر بھاجپا قیادت کے قریبی یا حامی نہ ہوں ۔ با اعتماد تھے ، تبھی بی آر شرما کو اچانک چیف سیکریٹری کے عہدہ سے ہٹاکر ویاس کو اس پر بٹھادیاگیا۔خیر اتنا ضرور ہے کہ موصوفہ کی سربراہی والی پی ڈی پی ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈا کی آبیاری میں من وعن سے حمایت وتعاون پیش کر رہی ہیں ۔موصوفہ کا حالیہ دورہ دہلی اس کا مظہر ہے، جس کو وادی کشمیر کے زمینی حالات کے تناظر میں کافی اہم ماناجارہاتھا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد جب واپس محبوبہ مفتی آئیں ، ان کے چہرے کے تاثرات یہ بیان کر رہے تھے کہ ہاتھ خالی ہی ہیں اور وہ ایکبار پھر مودی کی توجہ حساس معاملہ کی طرف مبذول کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔  اس وقت حالات یہ ہیں کہ بات منوانا تو دور کی بات ، انہیں اپنی کرسی بھی خطرہ میں دکھائی دے رہی ہے جس کو بچانے کے لئے انہیں اب مجبوراًنئی دہلی کے اشاروں پر ہی چلنا پڑ رہاہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی ہیں تو بھاجپا نے متبادل تیار کر رکھا ہوا ہے جس کو کسی بھی وقت استعمال کیاجاسکتاہے۔

وزیر تعلیم جنہیں پہلے محبوبہ مفتی نے کابینہ سے ڈراپ کر دیاتھا، کی وزارتی کونسل میں شمولیت بھاجپا قیادت کی مرضی ومنشاء پر ہوئی ہے اور وہ نئی دہلی کے پاس ایک موثر متبادل کے طور ہیں جن کے ساتھ کئی دیگر ساتھی بھی ادلہ بدلی کر سکتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے گذشتہ روز یہ بھی کہاکہ جو پتھر مارتے ہیں سارے کشمیر کے نوجوان پتھر نہیں مارتے ، کچھ نعرے بازی کرتے ہیں ، سارے کشمیر کے نوجوان نعرے بازی نہیں کرتے ،اگر سبھی احتجاج کرتے تو حال ہی میں وہ ہونے والے ملک کے مسابقتی امتحانات میں بہتر کارکردی نہ دکھاتے، ہمارے بچے آئی اے ایس میں اول نہ آتے ،اتنے بچے کھیل کود میں لوہا نہ منواتے ۔یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ ہیں یا بھارت مخالفین کی تعداد کم ہے، کے بارے میں آئے روز نئی نئی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ پہلے چناؤ کو اس کے لئے مثال پیش کیاجاتاتھا ۔سابقہ این سی ۔کانگریس کے دور میں جب پنچایتی چناؤ ہوئے تو انہیں ملکی وغیر ملکی سطح پر پبلسٹی دی گئی کہ دیکھو لوگوں نے بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں شرکت کر کے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ بھارتیہ جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہیں لیکن لوک سبھا ضمنی انتخابات میں لامثال بائیکاٹ اور دوبارہ ہوئی ووٹنگ کے دوران 38میں 27پولنگ بوتھوں پر ایک بھی ووٹ نہ پڑنے کے بعد اب مسابقتی امتحانات اور کھیل کود کی مثالیں دی جانے لگی ہیں ۔آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل ہوں یاکرکٹر پرویز رسول یا پھر کک باکسنگ میں تجمل اسلام ہوں ہرایک کو مرکز نے اپنے مشن کی آبیاری کے لئے استعمال کیا، آگے آنے والے دنوں میں مزید کچھ اور چیزوں کو بھی مہرے کے طور استعمال کیاجاسکتاہے۔

 اب عاقل وبالغ یہ سمجھتا ہے کہ بیانات سے کچھ ہونے والا نہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائض ہوکر صرف لمبے چوڑے اور جذباتی بیانات دیئے جائیں لیکن ان پر عمل زرا بھر نہ ہو، اس منصب سے بھی صرف مودبانہ گذارشات، اپیلیں ہوں لیکن کوئی سنوائی نہ ہوتو پھر کیا فائیدہ۔ ایسا نہ ہونے سے ہرگذرتے دن کے ساتھ ساتھ اس عہدہ کی قدر وقیمت گھٹتی چلی جارہی ہے۔ جموں وکشمیر میں منتخب ہوکر آنے والے اراکین اسمبلی/قانون سازیہ کئی بار یہ شکایات کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ان کو On Boardنہیں لیاجارہا اور نہ ہی ان کی کہیں کوئی اہمیت ہے۔ان میں سے اکثر کا یہ بھی دعویٰ رہتا ہے کہ اصل میں منتخب ہونے کے ناطے کشمیر مسئلہ کے حل میں وہ اہم فریق ہیں اور اعلیحدگی پسندوں کا اس میں کوئی رول نہیں ۔ اگر واقعی وہ ایسا مانتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو عملی طور یہ بات ثابت کرنا ہوگی۔ نئی دہلی پر باورکرانا ہوگاکہ آپ منتخب اراکین قانون سازیہ کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ان کی بات سننی ہوگی۔ وادی کشمیر میں عام لوگوں کا حکمراں جماعتوں اور مین سٹریم سیاست پر بھی تبھی کوئی اعتماد یا یقین قائم ہوگا جب انہیں یہ محسوس ہوگا کہ نئی دہلی ان کی بات سن رہی ہے اور عمل بھی ہورہاہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ریاستی حکومت خاص طور سے وزیر اعلیٰ مرکز کو اپنے مقام ، حیثیت اور وقار کا احساس دلائے جس کے لئے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے، ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے طلسماتی وجذباتی بیانات دینے اور اہم مواقعوں پر نئی دہلی کے سامنے اپنی کمزوری ظاہر کرنے کی پچھلی کئی دہائیوں سے چلی آرہی روایت کوترک کرنا ہوگا۔ اپنی حیثیت اور رول کو واضح کرنے کی ضرورت ہے نہیں تورواں رویہ وعمل صرف کٹ پتلی ہونے اور وقت گذاری کے مشغلہ کے سوا کچھ نہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔