اب بورڈ کیا تحریک یا جماعت بن جائے گا؟

حفیظ نعمانی

مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جب تشکیل کی گئی تو وہ ایک مشاورتی بورڈ تھا اور برسہا برس اس نے بورڈ کی ہی ذمہ داری کو نبھایا۔ بورڈ کے ذمہ داروں نے صرف اس لئے کہ وہ مسائل جن کا تعلق خواتین سے ہے ان کی وضاحت کے لئے محترمہ بیگم نسیم اقتدار علی صاحبہ کو مشیر بنا لیا بعد میں اس میں رخسانہ لاری جیسی عالمہ خواتین سے بھی رائے لی گئی۔ لیکن بورڈ کا شعبہ نسواں بنانے کی نہ ضرورت سمجھی گئی اور نہ ان سے ارکان بورڈ کا کام لیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پہلے بار بار کہا گیا تھا کہ کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا۔ اور اب عدالت کے واضح فیصلہ کے بعد اس کے خلاف باقاعدہ صف آراء ہونے کا فیصلہ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مسلم خواتین کے اجلاس بلائے جائیں گے جن کی رہنمائی بورڈ کرے گا۔ اور زیادہ خطرناک فیصلہ ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ کے محترم اراکین شاہ بانو کیس کا ماحول واپس لاکر ملک گیر تحریک چھیڑنا چاہتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم خواتین کو بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سوچ رہے کہ جب مقابلہ پر وہ برقع پوش بدزبان عورتیں آئیں گی جن کے نزدیک نہ شریعت ہے اور نہ سنتؐ، نہ اجماعِ صحابہؓ ہے اور نہ نائبین رسولؐ کا احترام تو اس ٹکرائو کا انجام کیا ہوگا؟ اور ان کے ساتھ حکومت اور وہ مسلمان بھی ہوں گے جنہیں بورڈ نہ پہلے ہضم ہوتا تھا اور اب عدالت کے فیصلہ کی ذمہ داری وہ بورڈ پر ہی ڈال رہا ہے۔ حکومت اور عدالت نے جو فیصلہ کیا وہ اُن کی اپیل پر کیا جو طلاق بدعت کو نہیں مانتیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی مذہب کو بھی مانتا ہے یا نہیں یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔

سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا وہ ان کے حق میں ہی کیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف ایک عورت کا شوہر کی عدم موجودگی میں بے قرار ہوکر کوئی شعر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے کان میں اس وقت پڑگیا جب وہ رات میں گشت کررہے تھے۔ حضرت مولانا یوسفؒ نے حیات صحابہؓ میں نقل فرمایا ہے کہ ان اشعار کا مطلب یہ تھا کہ یہ رات طویل ہوگئی اور اس کے کنارے کالے پڑگئے اور مجھے نیند نہ آئی اس لئے کہ کوئی محبوب ایسا نہیں ہے جس سے میں کھیلتی۔

اگر ایسے خدا کا جس کی مانند کوئی شے نہیں ڈر نہ ہوتا تو چارپائی کے چاروں کنارے حرکت کھاتے۔ حضرت عمرؓ نے صبح کو اس سے دریافت کیا کہ کیا حال ہے؟ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ میرا شوہر چند ماہ سے سفر میں ہے اور میرے نفس میں اس کا شوق پیدا ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا تونے برائی کا ارادہ کیا ہے؟ عورت نے کہا اللہ کی پناہ۔ حضرت عمرؓ نے تسلی دی کہ تو اپنے نفس پر قابو رکھ تیرے شوہر کو بلوانے کا انتظام کردیا جائے گا۔

اور پھر اپنی صاحبزادی حضرت حفصہؓ سے دریافت فرمایا کہ کتنی مدت میں عورت کو اپنے مرد کا شوق ہوتا ہے؟ جواب میں شرم آڑے آئی تو فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ حق کے بیان میں شرم کا اعتبار نہیں کرتا تو حضرت حفصہؓ نے بتایا تین یا زیادہ سے زیادہ چار مہینے۔ اور حضرت عمرؓ نے قانون بنا دیا کہ کوئی مجاہد جہاد میں چار مہینے کے بعد نہ روکا جائے اسے چند دن کی چھٹی پر بھیج دیا جائے۔

بورڈ کے ارکان میں کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں جتنے مرد ہیں اور جتنی عورتیں ہیں ہر ایک کی ہر چیز الگ ہے اور فطرت بھی مختلف ہے ہر مرد اور ہر عورت ایک دوسرے کے بغیر نہ رہ پائیں ایسا نہیں ہے۔ بعض عورتوں کے شوہر برسوں سعودی عرب میں یا دوسرے ملک میں رہتے ہیں اور ان کی پاک دامن کی قسم کھائی جاسکتی ہے اور ایسے مرد اور عورتیں بھی ہیں جو ایک مہینہ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ عیاشی ایک برائی ہے جو مردوں میں بھی ہوتی ہے اور عورتوں میں بھی لیکن اس میں فطرت کا بھی دخل ہے اب یہ خوفِ خدا پر منحصر ہے وہ اگر ہے تو لگام لگ جائے گی اور نہیں ہے تو کوئی روک نہیں  سکتا۔

عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ایسی بے سہارا عورتوں کو سامنے رکھ کر کیا ہے جو ایک نشست میں تین طلاق کے بعد خلا میں جھولنے لگتی ہیں ان کے نہ پائوں کے نیچے زمین رہتی ہے اور نہ سر پر آسمان۔ اور ایسی طلاقیں اسی طبقہ میں اس لئے زیادہ ہیں کہ مفلسی، بے روزگاری، بھوک اور بیوی بچوں کی ہائے ہائے سے شوہر اندر سے پھٹ جاتا ہے۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں اس میں میرے دو بیٹے دو بہوئیں اور پانچ بچے ہیں ۔ اسی مکان کے ایک حصہ میں گھر میں کام کرنے والی خادمہ اس کی مدد کرنے والی ایک لڑکی اس کا شوہر اور اس کا لڑکا رہتا ہے جو اپنا کام کرتے ہیں ۔ ایک ڈرائیور اس کی بیوی اور دو چھوٹی بچیاں ہیں سب کی معقول تنخواہ کے علاوہ پہننے کے درجنوں کپڑے اور کھانے کا سامان دیا جاتا ہے لیکن دونوں گھروں میں آئے دن شوہر اور بیوی میں جھگڑا ہوتا ہے اور ایک مستقل کام یہ ہے کہ ان کو بلاکر سمجھائیں ۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ دماغ میں وہ ہیں جن کے مکان میں وہ رہ رہے ہیں ۔ بجلی، پانی، ٹی وی، فریج سب کچھ ہے مگر وہ تو نہیں ہے جو اُن کے پاس ہے جن کے حکم پر کام کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ آج کا اہم ترین مسئلہ ہے اور جو فٹ پاتھ پر رہتے ہیں ان کا بھی ہے۔

اب اگر سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ کردیا تو اس کے خلاف بڑے پیمانے پر ملک بھر میں مخلوط اور مردوں کا الگ اور عورتوں کا الگ ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں اجلاس کرنا اور تجاویز پاس کرکے ان کے پاس بھیجنا جنہوں نے یہ فیصلہ کیایا کرایا، پتلے جلانے اور ان پر جوتے برسانے جیسا نہیں ہے؟ بورڈ اگر یہ کہہ کر خاموش ہوجائے کہ شریعت وہی ہے کہ طلاق تو ہو جائے گی جو شریعت کو ہی سب کچھ مانتے ہوں وہ اسی پر عمل کریں اور جو نہ مانتے ہوں یا جن کا تکیہ کلام ہی ہم اللہ کی مانتے ہیں ملا ّ کی نہیں مانتے ان سے کچھ کہنا ہی بیکار ہے۔ وہ تو نماز بھی جمعہ جمعہ یا عیدین کی پڑھ لیتے ہیں ۔

بورڈ کے ذمہ داروں کو اس کا بھی تجربہ ہے کہ جہاں جہاں عام اجلاس ہوتے ہیں وہاں ہر طرف چندہ ہوتا ہے۔ دوسرے شہروں میں کیا ہوا یہ بورڈ جانے لکھنؤ میں جب عیدگاہ میں اجلاس عام ہوا تھا تو شور سنا تھا کہ جب اسلامیہ کالج میں حساب مانگا گیا تو جو چندہ ہوا تھا وہ سب نہیں آیا۔ اگر بورڈ کے قیام کے زمانہ کے حالات سے واقف حضرات دماغ پر زور ڈالیں تو اس وقت چندہ یاد نہیں آتا۔ ہر شہر میں وہاں کے مقامی لوگوں نے زمین آسمان ہلا دیئے تھے۔ اب بورڈ کا زور اس پر زیادہ ہے جو سب سے خطرناک چیز ہے اور جس نے تبلیغی جماعت جیسی تنظیم اور جمعیۃ علماء جیسی مسلمانوں کی واحد تنظیم کے دو دو ٹکڑے کردیئے۔ بورڈ نے اب تک جو کچھ کیا وہ بورڈ کا فیصلہ تھا اور اب جو کرنے کا اعلان کررہا ہے وہ تحریک ہے یا سیاسی جماعت جس کا مردانہ اور زنانہ شعبہ الگ الگ ہوتا ہے اور پرسنل لاء بورڈ میں عدالتوں کو سڑک پر لانا انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ جو حضرات اس کے حق میں ہیں انہیں بار بار سوچنا چاہئے کہ پھر کیا کیا ہوسکتا ہے؟

بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا موقف ہے کہ مسجد کسی مندر کو توڑکر نہ بنائی گئی تھی اور نہ بنائی جاسکتی ہے۔ اب اگر فیصلہ میں یہ بات نہ مانی گئی تو؟ جبکہ مسلمان کہہ چکے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کو حرف بہ حرف مانیں گے۔ اب مسلمانوں کے سامنے ایک نظیر ہوگی کہ بورڈ نے طلاق کے معاملہ میں عدالت کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔ کوئی قدم اٹھاتے وقت بورڈ کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔