اب جینا تمھارے ساتھ ہے  اور مرنا بھی تمھارے ساتھ

    ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

  مکہ مکرمہ فتح ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عام معافی کا اعلان کردیا۔  آپ نے فرمایا : "جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اس کے لیے امان ہے، جو ہتھیار ڈال دیے اس کے لیے امان ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اس کے لیے امان ہے۔  "

     یہ سن کر انصار کے درمیان چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں:

      ” لگتا ہے، آپ پر مکہ کی محبت غالب آگئی ہے، اسی لیے اس طرح کھلے دل سے عام معافی دے رہے ہیں۔  "

    "اب مکہ فتح ہوگیا ہے۔

    لگتا ہے، اب آپ یہیں رک جائیں۔  "

   ” لگتا ہے، اب ہم آپ کی صحبت سے محروم ہو جائیں گے۔  "

      ”  لگتا ہے……”

      ” لگتا ہے……”

        یہ باتیں ایک سے دوسرے تک، دوسرے سے تیسرے تک، تیسرے سے چوتھے تک پہنچ گئیں۔  اس طرح ان کا چرچا ہونے لگا۔

      وحی الہی نے آپ کو اس صورت حال سے مطلع کیا تو آپ جذباتی ہوگئے۔  آپ نے انصار کو جمع کیا اور ان سے خطاب کیا۔  آپ نے تین مرتبہ ان سے دریافت کیا :

   ” بتاؤ، میرا کیا نام ہے؟” سب خاموش رہے، تب آپ نے فرمایا:

    "میرا نام محمد ہے۔  میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کے لیے، تمھاری طرف ہجرت کی ہے۔  اب میرا جینا بھی تمھارے ساتھ ہے اور میرا مرنا بھی تمھارے ساتھ ہے۔   (المحیا محیاکم و الممات مماتکم)”

        یہ سن کر انصار سراپا معذرت بن گئے۔

                  (بخاری :1780)

       اس واقعہ سے سماجی اور سیاسی زندگی کے لیے ایک زرّیں اصول کا علم ہوتا ہے۔  اسی ذمے دار، سربراہ اور حکم راں کو اپنے ماتحتوں اور عوام کی محبت ملتی ہے جس کا جینا اور مرنا ان کے ساتھ ہو، جن کے درمیان اس کا رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا ہو، جسے وہ اپنے اندر کا ایک فرد اور اپنے جیسا ایک انسان سمجھتے ہوں۔

        جن حکم رانوں نے یہ اصول اپنے پیش نظر رکھا اور اسے حرزِ جان بنایا انھیں اپنے عوام سے غیر معمولی محبت ملی۔  اس موقع پر میں شیرِ میسور ٹیپو سلطان کی مثال دوں گا۔  انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے ایسے کام کیے کہ وہ ان پر جان چھڑکتے تھے۔  انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی غدّاری کے نتیجے میں جب شکست یقینی ہوگئی تو وفاداروں نے ٹیپو سلطان کو راہِ فرار اختیار کرنے کا مشورہ دیا اور اس کا انتظام بھی کردیا، لیکن ٹیپو نے یہ گوارا نہ کیا اور کہا کہ میرا جینا اور مرنا تمھارے ساتھ ہوگا۔  چنانچہ انھوں نے دشمن سے دو بدو لڑتے ہوئے جان دے دی۔

        مجھے کیی بار میسور سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔   میں نے وہاں ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، بازاروں، ہوٹلوں، چائے خانوں اور دوسرے عوامی مقامات پر لوگوں اور خاص طور پر ہندوؤں سے ٹیپو کے بارے میں تاثرات لینے کی کوشش کی تو سب کو ان کے بارے میں رطب اللسان پایا۔  ان کی شہادت پر دو سو سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اس میں ادنی سا بھی فرق نہیں آیا ہے۔

         ترکی میں حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے موقع پر وہاں کے صدر رجب طیب اردگان کا بھی یہی موقف سامنے آیا۔   انھیں بغاوت کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے راہِ فرار اختیار کرنے کو نہیں سوچا، بلکہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عوام سے تعاون کی اپیل کی، پھر ان کے درمیان پہنچنے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز استنبول کا قصد کیا، حالاں کہ معلوم ہو گیا تھا کہ استنبول ایرپورٹ کا باغی فوجیوں نے محاصرہ کرلیا ہے -گویا انھوں نے بھی اپنے عوام سے زبان حال سے یہی کہا تھا کہ میرا جینا اور میرا مرنا دونوں تمھارے ساتھ اور تمھارے درمیان ہوگا۔  اس موقع پر عوام کی ان سے محبت کے بھی بہت دل کش نظارے سامنے آئے۔

      حکم رانوں کے لیے اس میں بڑا سبق موجود ہے۔  ہے کوئی جو اس پر کان دھرے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو ؟!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔